• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے پاکستان میں ایک ریلوے اسٹیشن دیکھا۔ اُس پر بڑابڑا لکھا تھا’’بغداد‘‘۔ کسی حیرت زدہ بچّے کی طرح میں اپنی کار سے اتر گیا۔ چشمہ لگا کر دیکھا۔ اب بھی ’بغداد ‘ ہی نظر آیا۔ میں آگے بڑھا، اسٹیشن کا گیٹ کھلا ہوا تھا مگر کوئی ٹکٹ چیکر نہیں تھا۔ ٹکٹ گھر بھی تھا، اس کی کھڑکی بھی تھی اوپر صاف حروف میں لکھا تھا۔’ٹکٹ گھر‘۔ مگر کھڑکی بند تھی اور اندر ٹکٹ بابو بھی نہ تھا۔ مجھے پلیٹ فارم ٹکٹ خریدنا تھا تاکہ اسٹیشن کے اندر جا سکوں۔ بغیر ٹکٹ گیا اور واپس باہر آتے ہوئے پکڑا گیا تو مشکل ہو جائے گی۔ پورا اسٹیشن سونا پڑا تھا۔ غضب کا سنّاٹا تھا۔ آگے جانے والی اپ ٹرین اور لوٹ کے آنے والی ڈاؤن ٹرین کا وقت بھی ایک بلیک بورڈ پر لکھا تھا، ٹرین شاید لیٹ تھی۔ اس لئے پلیٹ فارم پر نہ کوئی مسافر تھا، نہ کوئی عملہ، یہاں تک کہ گرم چائے کی آواز لگانے والا آدمی بھی نہیں تھا۔ میں ذرا سے کھلے ہوئے گیٹ سے اندر چلا گیا۔یوں نظر آیا جیسے ابھی ابھی صفائی کرنے والا عملہ اپنا کام پورا کرکے گیا تھا۔پلیٹ فارم پر کسی بجھی ہوئی بیڑی کا ٹکڑا تک نہ تھا۔ قطار میں کئی دفتر تھے۔ ہر دفتر کے دروازے پر دفتر کا نام لکھا تھا مگر ہر دروازے پر تالے پڑے تھے۔ اس غضب کے سنّاٹے میں پہلے تو میں دبے پاؤں چلا۔خوف تھا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے۔ جب کوئی نہ آیا تو میں نے اپنے جوتوں کی کھٹ کھٹ سنی پھر بھی کوئی نہ آیا۔ اب میرے اندر کا بچّہ جاگا۔ ٹرین کی آمد کی خبر دینے والا گھنٹہ میرے سامنے آویزاں تھا۔ اسے بجانے والی ہتھوڑی بھی وہیں دھری تھی۔ میرے اندر کے بچّے نے اسے اٹھا کر ایک بار ذرا ڈرتے ڈرتے ایک کمزور سی آواز نکالی’’ٹن‘‘۔ کچھ نہیں ہوا۔ اب میں نے زور کی ضرب لگائی’’ٹھن‘‘۔ اب کے بھی کچھ نہیں ہوا پھر تو میں نے گھنٹہ یوں بجایا کہ گویا پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے مسافروں کو خبردار کررہا ہوں کے ذرا پیچھے ہٹ جائیں ورنہ تیزی سے آتی ہوئی گاڑی کی زد میں آجائیں گے پھر دل ہی دل میں خدانخواستہ بھی کہا۔ گھنٹے کی آواز گونجنے لگی۔ میں نے اپنی پھیلی ہوئی ہتھیلی اس پر رکھ دی تب کہیں جا کر وہ گونج بند ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ اس طرح کی گھنٹہ گردی سے تو گاڑی آنے سے رہی البتہ احساس تھا کہ اب اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کا دروازہ کھلے گا اور کوئی وردی پوش افسرباہر نکل کر سرائیکی لہجے میں کہے گا ’ اوئے دفع ہو جاؤ‘۔ یہ بھی نہیں ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں تھک گیا ہوں۔ ادھر اُدھر دیکھا کہ درجہ اوّل کی نہ سہی، دوسرے یا ڈیوڑھے درجے کی انتظار گاہ کھلی ہو تو وہاں کچھ دیر کو بیٹھ رہوں مگر کہیں کوئی انتظار گاہ نظر نہ آئی۔ یہاں تک کہ پلیٹ فارم پر کوئی بینچ بھی نہیں تھی۔ ’کیسے مسافر ہوتے ہیں بغداد کے جو تھکتے بھی نہیں‘۔ میں نے دل میں نہیں بلکہ زیرِ لب کہا۔ اپنا فقرہ مجھے خود سنائی دیا۔ اب میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ ایسے کشادہ اور صاف ستھرے پلیٹ فارم کا کوئی نہ کوئی مصرف ہونا چاہئے۔ کیوں نہ یہاں قالین بچھا کر محفلِ قوالی کرائی جائے۔ علاقے کے عمدہ قوال بلائے جائیں۔ قریب کے شہروں میں اعلان کرایا جائے کے بغداد کے اسٹیشن پر محفلِ سماع ہوگی۔ اس شام وہاں تک ریل گاڑیاں چلیں گی۔ ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ وہاں کوئی ٹکٹ چیکر ہی موجود نہیں۔ لوگ جوق درجوق آئیں، بچّوں کو ہمراہ لائیں۔ گرم چائے والا کہیں چلا گیا ہے اس لئے تھرموس میں بھر کر چائے اپنے گھر سے لائیں۔ واپسی بھی مفت ہوگی۔ یہ سب سوچتے سوچتے یوں لگا کہ وجد کا عالم طاری ہوا ہی چاہتا ہے۔ جلدی سے منظر نامہ بدلا۔ نہیں، قوالی نہیں ۔ پلیٹ فارم پر چاندنی کا فرش کرکے محفلِ مشاعرہ کرائی جائے۔ سونے پڑے ہوئے اسٹیشن سے کوئی تو کام نکالا جائے۔ کیسا لطف آئے گا۔ مشاعرے کا اعلان ہوتے ہی شاعروں کا مجمع ٹوٹ پڑے گا۔ ہر ایک تازہ غزل کے دو شعر کہہ کر دس دس شعر سنائے گا۔ نیچے چاندنی بچھی ہوگی، اوپر چولستان کا چاند چڑھ رہا ہوگا۔ ریگستان سے لگی لگی ہوا پلیٹ فارم پر آزادانہ چلی آئے گی کیونکہ وہاں ٹکٹ چیکر ہی نہیں ہوگا۔ ساری فضا واہ واہ اور مکرّر ارشاد کی صداؤں سے گونج رہی ہوگی اور بغداد کا اسٹیشن بھی کیا یاد کرے گا کہ ایک رات شاعر خود بھی جاگے اور اسٹیشن کے نصیب کو بھی جگایا۔ صبح ہونے لگے گی تو اساتذہ کی باری آئے گی اور مشاعرہ ختم ہوگا تو شہر کو جانے والی آخری گاڑی آکر پلیٹ فارم پر لگے گی۔ کیسی رونق ہوگی۔ ٹرین کی روانگی کا گھنٹہ میں اپنے تجربے کی بنا پر بجاؤں گا اور جوں ہی ٹرین پلیٹ فارم چھوڑنے لگے گی، میں اس کی رفتار سے رفتار ملا کر آخری ڈبے میں سوار ہو جاؤں گے۔ گاڑی کے پچھواڑے لگی ہوئی لال بتّی دور ہوتی چلی جائے گی۔ بغداد کا اسٹیشن ایک بار پھر سونا ہو جائے گا۔ وہی سنّاٹا پھر سے لوٹ آئے گاجو اس ویران پڑے ہوئے اسٹیشن اور بیکار پڑی ہوئی اس ریلوے لائن کا مقدر بن چکا ہے۔ تیز ہوا میں جھولنے والا اس کا بڑا گیٹ ایک دن بوسیدہ ہو کر گر جائے گا۔ کانٹے بدلنے والے آہنی دستے زنگ کھا کر خود اپنے ہی بوجھ سے گر جائیں گے۔ ٹکٹ گھر کی کھڑکی میں پرندے اپنے گھونسلے بنالیں گے۔ ٹرین کے آنے اور جانے کی اطلاع دینے والے گھنٹے کو کوئی چرا کر لے جائے گا اور اسے وزن کراکے تانبے پیتل کے بھاؤ بیچے گا اور اس کی کمائی سے پڑیا خریدے گا۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک روز ایک موٹا تازہ آدمی آئے گا اور وہاں بچھی ہوئی ریل کی پٹڑی کو غور سے دیکھے گا اور سوچے گا کہ لوہے کا بھاؤ اچھا جا رہا ہے، یہ پٹڑی اکھاڑ کر بیچی جائے تو اوپر والوں کا حصہ دینے کے بعد کتنا بچے گا اور اپنی جیب کتنی بھرے گی۔ سوچے گا تو منہ سے رال ٹپکے گی۔ کوئی آواز لگانے والا ہوا تو آواز لگائے گا’’گرم رال‘‘۔اس کی صدا سے بغداد نامی اس ریلوے اسٹیشن کا سنّاٹا ٹوٹے گا۔ یہ اسٹیشن بہاول پور سے نکلتے ہی واقع ہے اور اُس لائن پر ہے جو کبھی بھٹنڈا کے راستے دلّی تک جاتی تھی اور پنجاب کو دہلی سے ملانے والا یہ سب سے چھوٹا راستہ تھا۔اس راہ پر ہزاروں لوگ سفر کیا کرتے تھے۔ میٹرک کے آسان پرچے حل کرنے کے لئے طالب علم اسی وایا بھٹنڈا آیا کرتے تھے۔ یہیں تجارت ہوتی تھی۔ یہیں لڑکیاں بیاہ کر جایا کرتی تھیں ، یہیں سرائیکی سرزمین پر ڈیرے ڈالے روحانی بزرگوں کی خاک کو سرمہ تصور کرنے والے درویش اسی راستے آتے تھے اور جاتے تھے۔ وہ سب خواب ہوا۔ ریلوے کو یتیم خانہ بنا کر چھوڑ دیاگیا ، بغداد جیسی برانچ لائینں اجاڑ دی گئیں۔ اسٹیشن ویران ہو گئے۔ پٹڑیاں اکھاڑ اکھاڑ کر بیچ دی گئیں۔ لاکھوں مسافر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بسیں چلانے والوں کی چاندی ہو گئی۔ مال گاڑیاں کھڑی زنگ کھا رہی ہیں ۔ سمندری جہازوں پر لد کر آنے والے ٹنوں وزنی کنٹینر اب بھاری بھرکم ٹرکوں پر چڑھا کر اندرون ملک بھیجے جا رہے ہیں جن کے وزن سے سڑکیں چورا چورا ہوئی جاتی ہیں۔ایک صوبہ پنجاب نہ ہوتا تو لوگوں کو یاد بھی نہ رہتا کہ اچھی سڑکیں کیسی ہوتی ہیں۔ کتنا کم نصیب ملک ہے کہ جی بہت دکھاتا ہے۔ میرا دل اس وقت بہت کڑھتا ہے جب میں ویران پڑی ہوئی ریلوے لائنیں دیکھتا ہوں۔ نئی ڈالنی ہوتیں تو الگ بات تھی۔ جو پڑی پڑائی مل گئیں وہ بھی بدبختی کا منظر دکھاتی ہیں۔ کراچی سے سڑک کے راستے خیرپور جاتے ہوئے ساتھ ساتھ ایک ریلوے لائین چلتی ہے جو شاید ٹنڈو آدم سے ہالا کی طرف جایا کرتی تھی۔ وہ مرحوم ہوئی۔ سندھ میں کتنی ہی برانچ لائینیں پھیلی ہوئی تھیں جو بے آسرا غریبوں کا سہارا تھیں، عدم کو سدھاریں۔ پنجاب میں تو اور بڑا جال بچھا تھا، دم توڑ گیا۔ کوئٹہ سے فورٹ سنڈیمن تک ریلوے لائن کیا تھی، انجینئرنگ کا شاہکار تھا ۔ پچھاڑیں کھا رہا ہے۔ نہ ہوتا تو دکھ نہ ہوتا۔ پڑوسی ملک نے دنیا کا سب سے بڑا ریلوے نیٹ ورک سنبھال کر نہ رکھا ہوتا تو ہم بھی صبر کر لیتے۔ مگر ہمارا سگنل جو کبھی اَپ ہوا تھا ،شاید اب ڈاؤن نہیں ہو گاکہہ ہماری گاڑی چلے اور ہمارے گارڈ نے جو ہری جھنڈی لپیٹ کر رکھ لی ہے ، شاید وہ بھی کھلنے والی نہیں۔ صرف ایک آس بندھی ہے۔ کسی روز سیٹی بجے گی ضرور۔
تازہ ترین