• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف ماحول اِس قدر فرحت بخش اور طرب آمیز ہے کہ بادِ صبح گاہی کو اٹھکیلیاں سوجھ رہی ہیں اور دوسری طرف شاعر پکار اُٹھتا ہے کہ ’’یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے‘‘۔ بظاہر ہمارے احوال پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔ سب سے معتبر شہادت ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار کی ہے جو تازہ تازہ امریکی معیشت دانوں کو اپنی قابلیت سے مبہوت کر کے آئے ہیں۔ بلاشبہ اُنہوں نے بڑی ہنر مندی سے ہماری معیشت کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ وہ کبھی ملیں گے ٗ تو اُن کی زبانی داستان ہوشربا سنیں گے کہ اقتصادیات کے عالمی ماہرین بھی پاکستان میں ایک زبردست معاشی اُبھار دیکھ رہے ہیں ٗ اِسی لیے چین ٗ جنوبی کوریا کے علاوہ جاپان اور بعض یورپی ممالک بھی اِس ملک میں سرمایہ کاری کے بہت اچھے امکانات دیکھ رہے ہیں۔ تعلقات میں زیروبم کے باوجود امریکہ بھی ہماری تعلیم ٗ ہماری تجارت اور ہمارے شعبۂ توانائی میں وسعت کو بڑی اہمیت دے رہا ہے۔ صرف نو مہینوں کے اندر نوازشریف حکومت نے قوم کو مایوسیوں سے نکال کر اُمیدوں کے نظر افروز مرغزاروں میں لا کھڑا کیا ہے۔ حال ہی میں جو گیلپ سروے منظر ِ عام پر آیا ہے ٗ اُس نے اِس عمومی تاثر پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ نوازشریف کی مقبولیت میں 59فی صد اضافہ ہوا ہے جبکہ عمران خاں اور آصف زرداری کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن اور اسفند یار ولی خاں کا گراف بہت نیچے آ گیا ہے۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے بارے میں یہ رائے سامنے آئی ہے کہ وہ تینوں وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں بے پناہ سرگرم ٗ اعلیٰ منتظم اور نہایت بیدار مغز حکمران ہیں۔ غالباً اِن حیرت انگیز کامیابیوں کی سرخوشی میں ہمارا حکمران طبقہ حضرتِ غالب کے اِس شعر کی تصویر بن جانا چاہتا ہے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
کیا واقعی فرصت کے رات دن میسر آ گئے ہیں ٗ یہ وہ سوال ہے جس پر ہماری سیاسی قیادت کو بڑی سنجیدگی اور نہایت گہرائی سے غور کرنا ہو گا۔ بلاشبہ علاقائی اور عالمی صورتِ حال تبدیل ہونے سے پاکستان کی اہمیت میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔ شرقِ اوسط کے بیشتر ممالک اِس کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اِس کی پیشہ ورانہ مہارت سے لیس چاق چوبند فوج اُن کی سپاہ کو فوجی تربیت دے گی اور اُن کی حفاظت کے لیے پاکستان اسلحہ بھی فراہم کرے گا۔ اہمیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اِس پر منڈلاتے ہوئے خطرات میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بڑھتا ہوا تناؤ پاکستان کی طرف سے بہت چوکس ٗ حددرجہ تیز رفتار اور غیر معمولی متوازن سفارت کاری کا تقاضا کرتا ہے کہ اِسی کے ذریعے ہی پاکستان اِن دونوں برادر ملکوں اور قریبی ہمسایوں کے درمیان پل کا کام کر سکے گا۔ یہ نازک اور حساس مسائل ایک ہمہ وقت وزیر خارجہ کے متقاضی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو یہ بار ایک ہمہ وقت وزیر خارجہ کے سپرد کر کے اُتار دینا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ بوجھ اُٹھانے سے حکومت کے نہایت اہم شعبے متاثر ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ جناب سرتاج عزیز بہت زیرک اور تجربے کار شخصیت ہیں ٗ مگر وہ عمر کے جس حصے میں ہیں ٗ وہاں اُن کے لیے بہت فعال کردار ادا کرنا خاصا مشکل ہوتا جائے گا۔مزید برآں ہماری وزارتِ خارجہ دو غیر منتخب مشیروں کے درمیان تقسیم ہے جس کے ناخوشگوار اثرات مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اگلے ماہ ایران کے دورے پر جا رہے ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ پاک ایران روابط میں یقینی طور پر بہتری آئے گی اور بجلی درآمد کرنے کا سمجھوتہ طے پا جائے گا۔افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کا وقت بھی قریب آ رہا ہے اور خطے میں سٹریٹیجک تبدیلیاں نمودار ہو رہی ہیں اور عالمی طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ یہ تمام رجحانات پاکستان میں فہم و فراست سے آراستہ ایک ہمہ وقتی منتخب وزیر خارجہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔
فضا میں جو پُراسرار کُھسر پُھسر ہو رہی ہے ٗ اِس میں جزوقتی وزیردفاع کا بھی خاصا عمل دخل ہے۔ وزیردفاع فوجی اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم کے درمیان ایک مضبوط رابطے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے اور فوج کے امیج اور اُس کی حساسیت کا پورا خیال رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے وزارتِ دفاع اور وزارتِ قانون اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں ٗ مگر جب ایک حساس مسئلے میں عدالتِ عظمیٰ نے وزیردفاع اور وزیرقانون کو طلب کیا ٗ تو بڑی عجلت میں یہ وزارتیں خواجہ محمد آصف اور جناب پرویز رشید کے سپرد کر دی گئیں جن کو اِن دونوں شعبوں سے کوئی زیادہ مناسبت معلوم نہیں ہوتی ۔ خواجہ صاحب نے قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران جو تقریر جون 2006 ء میں کی تھی ٗ وہ اُن کے مائنڈ سیٹ کا پتہ دیتی ہے۔ بے شک میڈیا نے بھی اُن کی تقریر غلط وقت پر نشر کر کے صورتِ حال میں شدید کھچاؤ پیدا کیا اور بات کا بتنگڑ بنا دیا ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملات پر شکوک و شبہات حکومت کے مختلف اداروں کے مابین مستقل رابطوں کے فقدان سے پیدا ہوئے ہیں۔ اُن کا مستقل حل دراصل ایک وسیع البنیاد نیشنل سیکورٹی کونسل میں مضمر ہے جس کا ایک مستقل ایڈوائزر ہونا چاہیے۔ اِس کونسل میں سیاسی اور عسکری قیادت کو بار بار ملنے اور حساس معاملات پر غوروفکر کا موقع ملتا ہے اور اُن کے درمیان ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی شکل تو دی گئی ہے ٗ مگر اِس کا سیکرٹریٹ قائم ہوا نہ اُس کے باقاعدگی سے اجلاس ہوئے۔ حالات میں خفیہ اور پُراسرار سرسراہٹ کے باعث وزیراعظم کو جناب آصف زرداری کے ساتھ ملاقات کرنا پڑی جس میں دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتوں نے برے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور باہمی مشاورت سے تحفظِ پاکستان بل منظور کرانے کا اعلان کیا ہے جو ایک صحتمند سیاسی زندگی کی علامت ہے۔ ہمیں پوری اُمید ہے کہ فوجی قیادت اپنے ایک ریٹائرڈ جرنیل کے بجائے وردی میں ملبوس افسروں اور جوانوں کے وقار کے تحفظ کو اوّلین اہمیت دے گی۔ کل وزیراعظم کی زیرِ صدارت نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ سطح کے نیچے پنپنے والے خدشات اور ہیجان تحلیل ہو جائیں گے۔
وزارتوں کے بے پناہ بوجھ نے وزیراعظم کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ڈیڑھ دو سال گزرنے کے بعد ڈاکٹر مختار احمد کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے تقرری نے پورے نظام پر بڑے سنجیدہ سوالات اُٹھا دیے ہیں اور یہ تاثر دیا ہے کہ وزیراعظم فیصلے کرنے کی صلاحیت سے دستبردار ہوتے جا رہے ہیں اور کابینہ اور بیوروکریسی میں خودسری کے آثار گڈگورننس کے تصور کو دھندلا رہے ہیں جو ایک تشویشناک بات ہے۔ کام کی زیادتی اور بیرونی دوروں کی بہتات سے جناب شہبازشریف کی صحت متاثر ہو رہی ہے اور اُن کی گرفت امن عامہ کی مشینری پر کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ مظفر گڑھ میں ایک لڑکی نے خودکشی کی اور اب ساہیوال میں ایک جواں سال لڑکی کی عزت لوٹ لی گئی ٗ تو جناب شہبازشریف کے اندر کے انسان کی تڑپ دیکھی نہ جاتی تھی ٗ مگر اُن کے یہ الفاظ اپنی معنویت کھوتے جا رہے ہیں کہ میں نااہل اور بدعنوان افسروں کو اُلٹا لٹکا دوں گا۔ میں نے جب سے اخبارات میں اِس مظلوم لڑکی کی تصویر دیکھی جسے دلاسہ دینے جناب وزیراعلیٰ اُس کے گھر گئے ٗ تو میرا کلیجہ پھٹنے لگا اور حکومت کی بے بسی پر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انسان گھٹ گیا ہے اور سکندری کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب حالات میں عجب طرح کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔
تازہ ترین