• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بات،یہ فوج کے ایک حصے کی جانب سے حکومت پر شب خون مارنے کی کوشش تھی۔ فی الحال ہمیں ایسا کرنے والے یونٹس یا فارمیشنز کی تعداد کا علم نہیں۔ اس میں فضائیہ کے کچھ حصے بھی شامل تھے ۔ اور جیسا کہ شواہد بتاتے ہیں، جلد بازی اور خراب منصوبہ بندی سے کی گئی اس کارروائی کے دوران قیادت کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، حالانکہ ، جیسا کہ ہم پاکستان میں اس کی طویل تاریخ رکھتے ہوئے جانتے ہیں، ہر کامیاب فوجی مداخلت کا ’’سنگ ِ میل ‘‘ یہی مرحلہ ہوتا ہے ۔اگر آپ قیادت کو پکڑنے میں چوک جائیں تو سمجھ لیں کہ آپ مصیبت میں ہیں۔ ترک صدر ، جنہیں ترک مرد ِآہن کہنا بھی درست ہوگا، نے بہت حوصلے اور حاضر دماغی کا مظاہر ہ کیا اور اپنی قوم، یاکم از کم اپنے حامیوں، کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آزاد رہے ۔ اگر باغی دستے اُنہیں پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے تو بات مختلف تھی۔
میخائل گوربا چوف ، جن سے اُن کےملک میں شدید نفرت کی جاتی ہے کیونکہ اُنھوں نے ملک کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا، کی ملک پر 1991میں گرفت کمزور پڑچکی تھی لیکن اُس سال اگست میں ان کے خلاف فوجی مداخلت کی کوشش بر ی طرح ناکا م ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ کے بی جی اور فوج کے طاقتور عناصر میں قوت ِفیصلہ کی کمی تھی۔ بورس یلسٹن ، جو اپنے پیش رو ،گوربا چوف سے بہتر نہ تھے، روسی فیڈریشن کا صدر بننے پر ایک ٹینک پر چڑھ کر ہجوم کو دیکھ کر نعرے لگانے لگے۔ سوویت آرمی کا ٹینک ڈویژن ماسکو کی طرف بڑھا لیکن لوگوں نے اُسے اُسی طرح روک لیا جس طرح شہریوں نے استنبول میں باغی دستوں کے ٹینکوں کو روکاہے۔ پرویز مشرف کی اکتوبر 1999 کی کارروائی بھی شروع میں مربوط یا منظم نہیں تھی۔ ٹرپل الیون بریگیڈ کا ایک دستہ ایک میجر کی قیادت میں پاکستان ٹیلی وژن کی طر ف روانہ ہوا، لیکن نواز شریف کے ملٹری سیکرٹری ، بریگیڈ ئیر جاوید اقبال نے پولیس کمانڈوز کے دستے کی قیادت کرتے ہوئے دوبارہ ٹیلی وژن اسٹیشن کا کنٹرول سنبھال لیااور پہلے آنے والی فورس کو غیر مسلح کردیا ۔ یہ معاملہ اُس وقت طے ہوا جب ٹرپل الیون بریگیڈ کی مزید کمک مین گیٹ سے داخل ہوئی ۔ خوش قسمتی سے طرفین کے مابین فائرنگ کا تبادلہ نہ ہوا(اس تمام کارروائی کے دوران گیٹ پر قبضے کی تصویر ہی یادگار لمحہ ہے)۔
فوج اپنا پلا ن طے کرچکی تھی، اور جب یہ خبر سامنے آئی کہ نواز شریف نے حساس ادارے کے چیف، لیفٹیننٹ جنرل ، ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا ہے تو چیف آف جنرل اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل عزیز اور دسویں کور کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل محمود نے کارروائی کا حکم دے دیا۔ اُس وقت تک کولمبو سے آنے والا پرویز مشرف کا طیارہ ابھی فضا ہی میں تھا۔اگر جنرل عزیز اور جنرل محمود ذرا سی بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتے ، یا تھوڑی سے سستی سے کام لیتے تو نتیجہ مختلف بھی نکل سکتا تھا۔ ایسے صورت ِحال میں قوت ِ فیصلہ کو بے حد اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ گوربا چوف کے خلاف فوجی دستے متحرک ہوئے تھے کہ ا ن کا خیال تھا کہ گوربا چوف کی پالیسیاں ملک کو تباہ کردیں گی، لیکن چونکہ دستے فوری فیصلہ کرنے میں ناکا م رہے ، اس لئے وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ چنانچہ اُن کی ناکامی کی وجہ سے وہ عمل مزید تیز ہوگیا جسے وہ روکنے کی کوشش کررہے تھے ۔
اس کا موازنہ ڈنگ چیاپنگ (Deng Xiaoping)کی رہنمائی میں چینی قیادت کے رویے سے کریں جب جمہوریت کے حق میں مظاہرے کئےگئے ۔ چینی قیادت کے سامنے ایک انتخاب یہ تھا کہ یا تو جمہوریت کے نام پرملک میں افراتفری پھیلنے دیں ، یا پھر ان مظاہرین کو سختی سے کچل دیں ۔ یقینا یہ ایک تکلیف دہ انتخاب تھا لیکن لانگ مارچ کی بھٹی میں کندن قیادت نے لچک پر بے رحمی کو ترجیح دی۔ مظاہرین کے سامنے ٹینک لائے گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، اُسے سادہ سے الفاظ میں قتل ِعام ہی کہا جاسکتا ہے ،لیکن اس نے کیمونسٹ پارٹی کے لئےخطرہ بننے والی شورش کو کچل کر رکھ دیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس رویے کو سفاکانہ قرار دیا جائے ، لیکن اگر Tiananmen احتجاج کو نہ روکا جاتا تو چین موجودہ مقام کبھی نہ حاصل کرپاتا۔اس بات کا حقیقی خطرہ موجود تھا کہ جو کچھ بعد میں سوویت یونین کے ساتھ ہوا، وہ چین کے ساتھ بہت پہلے ہی ہوجاتا۔
بہرحال ترکی کے موجودہ ایشو کا موازنہ ان واقعات سے نہیں کیا جاسکتا۔ صدر اردوان کے ناقدین کی کمی نہیں ، اور ان کی تنقید ہر مرتبہ غلط بھی نہیں ہوتی۔ وہ آمریت کی راہ پر گامزن ہیں،اُنھوں نے میڈیا کی زباں بندی کر رکھی ہے اور تنقید برداشت کرنے کایار ا نہیں رکھتے ۔ خارجہ پالیسی میں اُنھوں نے، خاص طور پر شام کے حوالے سے ، انتہائی غلط فیصلے کرتے ہوئے بشار الاسد کی مخالفت میں انتہا پسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے داعش جیسے عفریت کو سر اٹھانے کا موقع دیا۔ دوسری طرف اُن کی کامیابیوںسے بھی انکار ممکن نہیں۔ وہ ایک ایسے مضبوط اور مقبول لیڈر ہیںجن کی قیادت میں ترک معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی، اور عوام تک اس کے ثمرات پہنچے ۔ جب اُنھوں نے قوم کو آواز دی تو ان کے پاس اخلاقی جرات موجود تھی۔ وہ ایسا کرنے سے مطلق نہیں ہچکچائے۔ کہیں چھپنے کی بجائے وہ سیدھے استنبول پہنچے اورپھر دنیا نے اُنہیں ایک پرعزم ہجوم کے درمیان پایا۔ یہ ہے قیادت، جو وقت پر فیصلے کرتی ہے، اور یہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔
ترکی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کی باز گشت پاکستان میں بھی سنائی دی کیونکہ آج کل ملک سلگتے ہوئے سیاسی بحران کا شکار ہے ۔ فی الحال نہ تو کچھ واضح ہے اور نہ ہی کوئی ایسا مقام ہے جس پر کوئی انگلی رکھ کر نشاندہی کرسکے ، لیکن ماحول افواہوں اور سازشی بیانیے سے بوجھل، کہ اسٹیبلشمنٹ کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ اس میں حیرانی کی بات نہیںکہ آپ جہاں بھی جاتے ہیں ، لوگ یہی سوال کرتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟چنانچہ جب ترکی میں فوجی مداخلت کی کوشش کی گئی اور جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ایک ناکام کوشش تھی اوراسے کچل دیا گیا ہے ، تو پاکستانیوں کے لئے اس پر تبصرہ کرنا اور اس کا موازنہ اپنے ملک سے کرکے دیکھنا فطری بات تھی۔ ہماری حکمراں جماعت بطور خاص خوشی سے وارفتہ ہورہی تھی کہ پڑوس میں جمہوریت اور عوامی طاقت غالب آئی ہے ۔ جمہوریت کی فتح کے جوش سے سرشار ہمارے وزرا نے جو بھی بیان دیئے ، اپنے ملک کو ذہن میں رکھ کر دیئے۔ پیغا م یہ دیا جارہا تھا کہ جس طرح ترکی میں عوام کی فتح ہوئی ہے، پاکستان میں بھی ہوگی۔ حکمراں جماعت ترکی کے حالات کا من پسند نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہے ، کیونکہ ہر کوئی اپنے لئے آرام دہ گوشہ تلاش کرتا ہے ۔
تاہم حکمراں جماعت غلطی پر ہے اگر وہ سوچ رہی ہے کہ ترکی میں جمہوریت کی فتح ملک میں پاناما لیکس پر سے توجہ ہٹا دے گی اور سب خوشی سے سرشار ہوکر رقص کناں دکھائی دیں گے ۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا، ان کے سامنے جو چیلنج تھا ، وہ اپنی جگہ پر موجود ہے، اوراپوزیشن جماعتیں، اگرچہ اپنے طریق ِ کار اور ترکیب میں غیر واضح ، لیکن وہ سب کسی نہ کسی قسم کا احتجاج کرنے کے لئے کمر کس رہی ہیں۔ یہ توقع لگانا ایک رومانوی خواب سے کم نہیں کہ کسی ناگہانی صورت میں ہمارے وزیر ِ اعظم فوری طور پر خواب ِ راحت سے بیدار ہوکر سوشل میڈیا پر عوام کو اپنی حمایت میں نکل کھڑا ہونے کے لئے کہیں گے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو کیا اُن کے پاس اخلاقی اتھارٹی ہے ؟ اگر ترک جمہوریت نے معاشی ترقی کا راستہ ہموار کرتے ہوئے عوامی فلاح پر زیادہ خرچ کیا ہے تو کیا پاکستانی جمہوریت بھی اسی راہ پر گامزن ہے ؟کیا اس کے سینے پر بھی کوئی ایسا میڈل موجود ہے ؟یہ درست ہے کہ مسٹر اردوان کے ارد گرد افراد پر بھی بدعنوانی کے الزامات ہیں لیکن ان کے سمندر پار اکائونٹس یا لندن میں جائیدادیں نہیں۔
ایک سوال، ہمارے ہاں شب خون کی بات کیوں کی جارہی ہے ؟ کیا دفاعی ادارے ایسا کچھ سوچ رہے ہیں؟ ایسے شکوک پالنے کی کیا وجہ ہے ؟وزیر ِاعظم اور ان کے قریبی عزیزوں پر الزامات کا تعلق بدعنوانی، سمندر پار اکائونٹس اور رقوم کے غیر واضح ذرائع کی بابت ہیں۔ یہ الزامات فوج نے نہیں لگائے۔ ان کا انکشاف پاناما پیپرز کے ذریعے ہوا ہے ۔ چنانچہ ترک شب خون کے ساتھ مماثلت ان حالات میں حکمراں جماعت کی مدد نہیں کرے گی۔
تازہ ترین