• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بریگیڈیئر صدیق سالک فوجی ہونے کے اعزاز کے ہمراہ صاحب طرز ادیب کا طرہ امتیاز بھی سجائے رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی عسکری زندگی کے ماہ و سال کو صفحہ قرطاس کی زینت بناتے ہوئے ’’سلیوٹ‘‘ نام سے کتاب تحریر کی۔ اس میں اپنے اردلی احمد خان کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ ایک دن پانچ ، چھ مہمان رات کو بے وقت آوارد ہوئے ۔ گھر میں کچھ بچا ہوا سالن اور گوندھا ہوا آٹا موجود تھا۔ میں نے بیوی کو کچن میں لائونج کیا اور اردلی کو اپنی ذاتی برق رفتار سائیکل دیتے ہوئے کہا احمد خان ذرا پھرتی دکھائو۔ یہ میری سائیکل لے جائو۔ بازار سے نان ، کباب اور فروٹ لے آئو۔ وہ اچھا صاب کہہ کر غائب ہو گیا۔ میں نے مہمانوں کو باتوں میں لگائے رکھا۔ تا کہ بیوی چپاتیاں پکائے اور اردلی بازار سے کمک لے آئے۔ روٹیاں پک گئیں۔ سالن گرم ہو گیا ، باتیں ختم ہو گئیں۔ مہمان بیتاب ہو گئے۔ میں بیقرار ہو گیا لیکن احمد خان کی واپسی کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ ہم نے مجبوراً ماحضر پر حملہ کر دیا۔ جو کچھ دستیاب تھا فوراً چٹ کر گئے۔ آخری لقمے کے وقت میری نظر بار بار گیٹ کی جانب اٹھتی تھی اور کان سائیکل کی گھنٹی کے منتظر تھے کہ شاید بروقت کمک پہنچ جائے۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ ہم یوں ہی نیم سیر شکم ٹوتھ پک لے کر لان میں ٹہلنے لگے۔ بیوی چائے بنانے لگی اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ احمد خان ایک ہاتھ میں سامان اٹھائے اور دوسرے ہاتھ سے سائیکل گھسیٹتے ہوئے آ رہا ہے۔ میں نے کہا احمد خان اتنی دیر کر دی؟ اس نے معصومیت سے کہا۔ سر سائیکل بھی تو تھی۔ سائیکل کا دیر سے کیا تعلق ۔ جی سائیکل چلانا نہیں آتی۔ تو لے کر کیوں گئے ۔ جی آپ نے کہا تھا کہ سائیکل بھی لے جائو۔ لا حول ولا قوۃ " ۔ ممکن ہے کہ اس شگفتہ تحریر کے سبب سے آپ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ہو۔ مگر میرا مقصد اس وقت یہ نہیں۔ بلکہ ایک فوجی کی کتاب کے اقتباس کو نقل کرنے سے بیان کرنا یہ مقصود ہے کہ احمد خان کا رویہ اس عسکری نظم و ضبط کا عکاس ہے کہ جو فوج کو فوج بنائے رکھنے کے واسطے امر لازم ہوتا ہے۔ نظم و ضبط کا ایک کڑا ماحول ایک فوجی کی عسکری ذہنیت کو تشکیل دینے کے واسطے ضروری ہوتا ہے۔ اور یہاں سے سول اور عسکری زندگی مین نمایاں طور پر رویوں کے اعتبار سے فرق آ جاتا ہے۔ کیونکہ عوام الناس کے ہر طبقے کا اپنا ایک الگ مزاج ہوتا ہے اور اگر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی جائے تو ماسوائے خانہ بربادی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ گزشتہ فوجی حکومتیں، پاکستان کے حالات کو سمجھتے ہوئے میرے دعوے کی مضبوط دلیل ہے۔ جمہوری حکومت کو مطعون کرنے کے واسطے اتنے صفحے کالے کئے کاش یہ بھی بیان کر جاتے کہ آمریتوں کے ادوار میں ضروریات زندگی بہم پہنچانے اور معاملات کو سدھارنے میں فرہاد نے دودھ کی کونسی نہر نکال لی تھی۔ ممکن ہے کہ ان کی نظر میں بوڑھے اکبر بگٹی کو مار ڈالنا یا ہزارہ برادری کی آہ و فغاں کی ابتداء سے بھڑکتے شعلوں تک کوئی معنی نہ رکھتی ہو۔ مگر آج کا بلوچستان گواہ ہے کہ جمہوری قبا نے بلوچستان میں لگی آگ کو بجھانے اور ہزارہ برادری کے کندھوں کو جنازوں کے بوجھ سے آزاد کیا ہے۔ پھر بھی طعنہ تاجروں کی حکومت کا۔ اظہر سلیم اظہر کا ایک مصرعہ ہے کہ’’لفظ تحریر کی تصویر دکھا دیتے ہیں‘‘ آپ کی خواہشات واضح ، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آمریت اس حد تک قبیح ہے کہ فوجی آمریت بھی اپنی شب خون کے بعد کی گئی تقاریر میں یہ نہ کہہ سکیں کہ اب آمریت ہی مسلط رہے گی۔ بلکہ ’’حقیقی جمہوریت‘‘ لانے کی نوید دیتے رہے۔ پھر پاکستان کے سماجی ماحول اور سیاسی حرکیات کو سمجھنے والا کوئی بھی ذی شعور شخص یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آمریت قائم ہونے کے بعد آمر کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ سماجی حقیقتوں سے کٹا رہے۔ نتیجتاً وہ مقامی سیاستدانوں جو ایک ، دو ، چارحلقہ ہائے انتخاب پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یا زبردستی ان سے رکھوا دی جاتی ہے۔ گٹھ جوڑ کر لیتا ہے۔ قومی سطح کی قیادت کو تختہ دار یا دیس نکال دے کر کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی کا کنبہ جوڑا کا کھیل شروع کرتا ہے کہ جس کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے کہ جیسے گزشتہ آمر کی حامی سیاسی جماعت کا حال ہوا۔ مگر جو افرا تفری پھیلی ۔ خود آمر نے تسلیم کیا کہ وفاق کمزور ہوا۔ یہ سوال کہ حکومت کرنا کس کا کام ہے۔ ضمنی کا درجہ رکھتا ہے اس سوال کا کہ نظام حکومت کیا ہونا چاہئے۔ کسی حکومت کے برسر اقتدار آنے اور رخصت کے واسطے کیا ڈھب اختیار کیا جائے۔ نظام میں بہتری کہ بہتری کی گنجائش ہمہ وقت موجود رہتی ہے کیسے کی جائے۔ نظام حکومت کی کمزوریوں کو رفع کرنے کے واسطے نسخہ کیمیا کیا ہونا چاہئے۔ جو لوگ جمہوریت کو مطعون صرف ایک فرد کی دشمنی میں کر رہے ہیں ان کی نظروں سے یا تو ماضی کی آمریتوں کی تفصیل محو ہے یا دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔ جمہوریت میں بہتری کی گنجائش جمہوریت سے ہی نکالی جاتی ہے۔ جمہوری ادارے ہی اٹھارویں ترمیم منظور کر کے صوبائی حقوق کی پامالی کو دفن کرنے کی سمت بڑھتے ہیں نا کہ سیاسی اسلام یا سیاسی روشن خیالی کے ذریعے عوام کے حقیقی مسائل سے توجہ دوسری جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت نوزائیدہ جمہوری نظام کو چرکے لگانے کی کوشش وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جن کی نہ تو سیاسی حیثیت نمبر ون کی بن سکی اور نہ ہی ساری زندگی صفحوں کے صفحے کالے کر کے بھی اور دانشوروں کی صف چاہے آخری صف ہی کیوں نہ ہو میں کوئی مقام بنا سکیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جنرل راحیل شریف کا زمانہ سپہ سالاری گزشتہ آمریتوں کے سبب سے زخمی فوجی احترام کو بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اب کوئی ماضی کی مانند پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو موضوع بنانے کے واسطے تیار نہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ سپہ سالار نے خالصتاً فوجی ہونے کا ثبوت دیا۔ گزشتہ دھرنے کے دوران دھرنے والوں کی شدید خواہش کے باوجود آئین کو بھاری بوٹوں تلے پامال نہ کیا اور عوام میں اقتدار کی طلب سے دور ایک جنرل کے تشخص کو قائم کیا۔ آج بینر آویزاں کرنے والوں سے ان لکھاریوں تک درحقیقت فوج کے موجودہ فخر کو چھین لینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر آمریت اب قائم ہوئی تو عوام ساحر لدھیانوی کا یہ شعر گنگھنائے گے کہ :
تجھے او بے وفا ہم زندگی کا آسرا سمجھے
بڑے نادان تھے ہم ہائے سمجھے بھی تو کیا سمجھے
حالانکہ اب عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے ڈھول سپاہیاں تینوں رب دیاں رکھاں۔
تازہ ترین