• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد بھی اندر سے تھر ہوتا جارہا ہے، گزشتہ سوموار کو سینیٹ میں ایم کیو ایم کے ممبر سینیٹ کرنل سید طاہر حسین مشہدی نے وفاقی دارالحکومت میں پینے کے پانی کی عدم فراہمی پر اقدامات کرنے کی قرارداد پیش کی تو اس کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے کہا کہ اس قسم کی قراردادیں ماضی میں کیوں نہیں پیش کی گئیں، گزشتہ پندرہ سولہ سال میں حکومتیں کیا کرتی رہی ہیں۔ پرویز رشید صاحب بے شک ممبر سینیٹ ہیں مگر وہ ہمیشہ عوامی حلقوں میں مقبول رہے ہیں وہ ہمارے شہر راولپنڈی میں پڑھے، بڑھے گورڈن کالج راولپنڈی ان کی مادر علمی ہے اسلام آباد پہلے راولپنڈی ہی ہوا کرتا تھا موجودہ کابینہ میں شامل کوئی ایسا وزیر نہیں جو راولپنڈی اسلام آباد کے بارے میں پرویز رشید صاحب سے زیادہ ادراک رکھتا ہو، اسلام آباد ہمارے دیہات ہوا کرتے تھے، ہم یہاں خرگوش شکار کرتے، کوکن بیر چنتے ’’گرنڈے‘‘ کھاتے کچے پکے راستوں پر دوڑتے۔ بڑے ہوئے، جوان اور پھر بوڑھے ہوگئے چار پانچ پرائمری اسکول ہوا کرتے، ایک مڈل اسکول تھا آج یہاں چالیس سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں، ہم نے تعلیمی میدان میں ترقی تو کی مگر انتظامی حوالے سے کوئی سرگرمی نہ دکھا سکے، ایک زمانہ تھا اخبار میں سنگل کالمی خبر چھپتی تھی تو ادارے منہ چھپاتے پھرتے تھے اب اس قدر بے حسی ہے کہ کالم اور ادارئیے بھی اثر نہیں کرتے یا تو ہمارے لفظوں میں تاثیر نہیں رہی یا ادارے ڈھیٹ ہوگئے ہیں،کوئی وجہ ضرور ہے کہ آج اسلام آباد کا رہنے والا پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ سینیٹ میں قراردادیں پیش کی جارہی ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا ایک وقت تھا اسلام آباد میں کوئی پلاٹ نہیں خریدا کرتا تھا آج لوگوں نے اپنی دکانوں کے آگے تھڑے اور فٹ پاتھ بھی کرائے پر لگائے ہوئے ہیں، لاڑکانہ سے پروفیسر جام جمالی نے پوچھا کہ آپ اکثر اسلام آباد میں پانی کی کمی کا ذکر کرتے ہیں، میں نے کہا جب اپنے دیس کی سرسوں مرجھا رہی ہو تو ہم نے البانیہ کے پھول کیا کرنے، ہمارا گرد و پیش اجلا ہوگا تو جہان کی خوبصورتی پر نظر جائے گی، فرد خوشحال ہوگا تو معاشرہ پھلے پھولے گا۔ اسلام آباد کی آبادکاری میں اہل قلم کا بہت بڑا حصہ ہے،بالخصوص شعرائے کرام کا۔اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ CDA اکثر دامن کوہ پر مشاعرے کرایا کرتا تھا،ان دنوں دامن کوہ یا پیرسوہاوہ تک کچا پکا راستہ جایا کرتا تھا CDA والے چائے کے تھرماس بھرکے بسکٹ اور سموسوں کے بنڈل پہاڑ پر ڈھیر کردیا کرتے تھے جہاں مشاعرے سے فارغ ہوتے ہی لوگ ٹوٹ پڑتے اور CDA والے اس دوران سامعین میں ہینڈ بلز تقسیم کیا کرتے، جن پر لکھا ہوتا تھا کہ اسلام آباد میں آسان قسطوں پر پلاٹ خریدیں گھر بنائیں اور اس شہر کو آباد کریں۔آج کل دامن کوہ اور اس کے بالائی علاقوں میں شادی ہال اور محکمہ ٹورزم والوں کے دو تین تاروں والے ہوٹل بن گئے ہیں جن دنوں ہم وہاں مشاعرے پڑھا کرتے تھے ان دنوں سورج ڈھلتے ہی بھوت پریت کی آوازیں، گیدڑوں کی ہوکار اور چیتوں کی دھاڑ شروع ہوجاتی تھی۔بچوں کی تربیت کے حوالے سے مجھے اس دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، ایک دفعہ CDA کا عملہ، جن میں سید ضمیر جعفری کا جانشین سید علی تجمل واسطی بھی شامل تھے ہمیں مشاعرہ پڑھنے پہاڑ پر لے کر گئے شعرائے کرام میں سید ضمیر جعفری کے علاوہ پروفیسر انور مسعود، پروفیسر احسان اکبر، احمد ظفر صاحب، فوق لدھیانوی، حسین عارف نقوی، جناب جام نوائی، مہتاب ظفر صاحب اور اکبر حمیدی شامل تھے، جس طرح انور مسعود صاحب آج کل اسلام آباد کی تقریبات میں اپنی بیگم صاحبہ کو ساتھ رکھتے ہیں ان دنوں وہ اپنا تین سالہ بیٹا حماد مسعود اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے آج کا سنجیدہ اینکر حماد مسعود ان دنوں بلا کا شریر اور پھرتیلا ہوا کرتا تھا ہاتھ چھڑا کر بھاگنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ان دنوں ہمارا شمار مشاعرے کے ابتدا میں پڑھنے والوں میں ہوتا تھا ہم اپنی غزل سنا چکے تو پروفیسر انور مسعود صاحب نے ننھا حماد مسعود ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’ایس نوں قابو کر‘‘ ہم نے بتیرا اس کا پیچھا کیا مگر وہ بار بار ڈھلوان کی طرف بھاگ جاتا، آخر ہم نے حماد کے کان میں ایک جملہ کہا جسے وہ تمام عمر نہیں بھلا سکا، ہم نے کہا بچو اس جنگل میں شیر بھی ہے اگر وہ اٹھا کر لے گیا نا تو میں نہیں چھڑائوں گا وہ تمہیں اپنی کچھار میں لے جائے گا اور ہم گھر چلے جائیں گے پھر اس کے بعد سارا مشاعرہ حماد مسعود انور مسعود صاحب کی گود میں بیٹھا رہا بقول چراغ حسن حسرت رات کی بات کا مذکور ہی کیا، چھوڑئیے رات گئی بات گئی…یوں برسوں گزر گئے تیس پینتیس سال بعد ایک تقریب میں حماد مسعود ملا تو اس نے کہا کہ انکل آپ نے بچپن میں مجھے شیر سے ڈرایا تھا میں آج تک شیر سے ڈرتا ہوں، مجھے اس کے اس جملے پر بہت افسوس ہوا کہ کاش میں نے اس کے دل میں اس قسم کا خوف نہ پیدا کیا ہوتا اور یہ کہ بچپن کی باتیں کس قدر یاد رہ جاتی ہیں۔ خیر بات اسلام آباد میں پانی کی ہو رہی تھی تو جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں اسلام آباد میں کچھ فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے تھے اس کے بعد کسی حکومت نے اس پر غور نہیں کیا نہ پیپلزپارٹی نے 5برس تک اس پہلو پر سوچا اور نہ ہی موجودہ حکومت دس گیارہ ماہ میں کچھ کرسکی ہے لیکن اسلام آباد میں مسئلہ یہ نہیں کہ فلٹریشن پلانٹ کی کمی ہے اسلام آباد میں سب سے بڑا مطالبہ اور مسئلہ یہ ہے کہ CDA انتظامیہ گھروں میں پانی نہیں کھولتی خاص طور سے آئی سیکٹر ایٹ سے لے کر ٹین تک کسی گھر میں پانی نہیں آتا روزانہ CDA کو پیسے دے کر پانی منگوانا پڑتا ہے، جس طرح سینیٹ والوں کو گلہ ہے کہ وزیر اعظم سینیٹ کے اجلاسوں میں نہیں آتے اسی طرح آئی سیکٹرز والوں کو گلہ ہے کہ گھروں میں پانی نہیں آتا۔
تازہ ترین