• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں مستقل امن کی منزل قریب آرہی ہے۔ دہشت گردی کے سائے سمٹتے چلے جانے سے مستقبل کا پُرامن اور خوشحال پاکستان قوم کو واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ طالبان نے جنگ بندی میں فی الوقت توسیع نہیں کی لیکن مذاکراتی عمل جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔اس میں امید کی کرن موجود ہے اور حالات عنقریب سنبھل جائیں گے۔ ملکی حالات میں تبدیلی کی دستک کو بھلا کون جھٹلا سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کو اب قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ حکومت،طالبان مذاکرات میں پیشرفت سے ملکی حالات میں بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ کون پاکستان میں امن کا خواہاں ہے اور کون قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے مشورے دے کر ملک کو مزید تباہی کاشکار کرنا چاہتا ہے؟ واقفان حال کاکہنا ہے کہ مستقل امن کے قیام کیلئے حکومت اور طالبان میں اتفاق رائے ہوچکا ہے اور طالبان کے تحفظات دور ہونے پر جنگ بندی کے دورانیے میں جلد توسیع بھی ہو جائے گی۔ حکومت کی جانب سے مزید قیدیوں کی رہائی کے معاملات طے پاگئے ہیں۔ طالبان نے بھی آئندہ براہ راست مذاکرات کے بعد اپنی تحویل میں موجود غیر عسکری افراد کو حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور طالبان کے درمیان آنے والے دنوں میں جلد ملاقات متوقع ہے۔ یہ ملک و قوم کیلئے نیک شگون ہے کہ بالآخر مذاکراتی عمل کے اچھے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ طالبان رابطہ کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق،پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کیلئے بلاشبہ گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔یہ ایک قومی خدمت ہے جو ان حضرات نے اپنی جان دائو پر لگا کرملک وقوم کی خاطرانجام دی ہے۔ڈرون کی مسلسل پروازوں کے دوران غیر یقینی حالات میں طالبان رابطہ کار کمیٹی کے ارکان شمالی وزیرستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان رابطوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ نوازشریف حکومت کا بھی تمام تر امریکی دبائو کے باوجود مذاکرات کو آگے بڑھانا قابل تعریف ہے۔ حکومت، طالبان مذاکراتی عمل کا آئندہ مرحلہ نہایت اہم مرحلہ ہےجس میں نہایت حکمت اور حد درجہ فہم و فراست کے ساتھ دونوں فریقوں نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ طالبان نے بلوچستان اور اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے اور اسے ظلم قرار دیا ہے۔ حکومت اور طالبان دونوں کی سنجیدگی سے یہ بات اب انشاء اللہ یقینی ہے کہ مذاکرات جلد کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ موجودہ بحرانوں سے نمٹنے کیلئے نوازشریف کی حکمت عملی درست ثابت ہوئی ہے مگر یہ سوال موجود ہے کہ آخر وہ کون سا’’خفیہ ہاتھ‘‘ہے جو حکومت طالبان مذاکرات کو کامیاب ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا۔ سبزی منڈی اسلام آباد اور بلوچستان کے واقعات میں یہی’’خفیہ ہاتھ‘‘ کارفرما نظر آتا ہے جسے اب بے نقاب کرنے کاوقت آگیا ہے۔ حکومت کو عوام کو اصل حقائق بتانے چاہئیں۔ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں ’’را‘‘ اور امریکی بلیک واٹر ملوث ہیں۔ یہ وہی ’’تیسری قوت‘‘ ہے جس کا چرچا میڈیا میں ہوتا رہتا ہے۔اس ’’تیسری قوت‘‘ کے نیٹ ورک کو توڑنا ہماری سول اور فوجی قیادت کیلئے بڑا چیلنج ضرور ہے لیکن ہمارے تجربہ کار عسکری اداروں کیلئے یہ ناممکن نہیں ہے۔اس حقیقت کا ادراک ہماری سول و فوجی قیادت کر چکی ہے۔ ہمارے ارباب بست وکشاد کو دوست اور دشمن کی پہچان ہوچکی ہے اس لئے اب وہ وقت دور نہیں جب پاکستان امن کے ساتھ ساتھ ترقی وخوشحالی کے سفر پر گامزن ہوگا ۔
مذاکراتی عمل کے آگے بڑھنے سے ملکی معیشت میں بھی بہتری نظرآرہی ہے۔ ڈالرکی قیمت میں کمی اگرچہ یہ پاکستانی معیشت کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود اس کے اثرات عوامی سطح پر کیوں نہیں نظر آرہے؟اس کا جواب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کودینا چاہئے۔مہنگائی کے خاتمے کیلئے حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔ زرداری حکومت کے گزشتہ پانچ سال میں خوفناک مہنگائی جاری رہی۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی مہنگائی رکنے کانام نہیں لے رہی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے بجاطور پر درست کہا ہے کہ عوام سے سانس لینے کی بھی قیمت وصول کی جارہی ہے۔یہ کیسی اسلامی فلاحی ریاست ہے جہاں لوگ بھوکے مررہے ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ کاکہنا تھا کہ9ہزار اجرت والا خاندان کیسے گزارا کرتا ہے؟ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔عدالت عظمیٰ نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ کی جانب سے دائر رٹ پر وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹوں کو نامکمل قرار دے کر جامع رپورٹ طلب کر لی ہے۔سپریم کورٹ نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے خدشات کا صحیح اظہار کیا ہے۔ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ انہیں ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے کہ جس سے پاکستان کے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات ملے اور وہ سکھ کاسانس لے سکیں۔سچی بات تو یہی ہے کہ عوام شدت سے اس کا انتظار کررہے ہیں کہ حکومت امن کے قیام اور ان کی حالت زندگی کو بہتر بنائے۔ امن وامان کی بحالی اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ ملک میں عدل وانصاف کاتوازن قائم کرنا اشد ضروری ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے کیس میں کسی بھی قسم کے اندرونی اور بیرونی دبائو میں حکومت کو نہیں آنا چاہئے۔ جو فیصلہ بھی عدالت کے ذریعے آئے اسے قبول کرنا چاہئے۔پاکستان میں عدلیہ اور میڈیا آزاد ہیں اور آزاد عدلیہ ومیڈیا کے دور میں اب یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی بااثر فرد کو قانون اور انصاف کے تقاضوں کو بالاتر رکھ کر ملک سے باہر بھیج دیا جائے۔ عدلیہ کی مضبوطی سے ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی۔پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو ملک کے بہتر اور روشن مستقبل کی خاطر عدالتی فیصلوں کااحترام کرنا ہوگا۔اب اس سوچ کی ہمیشہ کیلئے حوصلہ شکنی کرنی چاہئے کہ بااثر مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلے گا،کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے۔جو بھی آئین اور قانون کوہاتھ میں لے تو اسے کڑی سزا ملنی چاہئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بھی پاکستانی شہری ہیں انہیں بھی ملکی قانون کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔مہذب معاشروں میں آئین وقانون شکن افراد کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔جنگ عظیم کے دوران جب چرچل سے پوچھا گیا کہ برطانیہ قائم رہے گا تو اس نے تاریخی جواب دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر برطانیہ کی عدالتیں آزاد ہیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پاکستان میں بھی آزاد عدلیہ کا وجود باعث رحمت ہے لیکن آزاد عدلیہ اپنے فیصلوں سے ہی جانی پہچانی جاتی ہے۔ کسی بھی ادارے کو عدلیہ کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد پاکستانی قوم کو آزاد عدلیہ نصیب ہوئی۔ موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی قانون کی حکمرانی کے مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔ مضبوط اور پائیدار جمہوریت کیلئے آزاد عدلیہ لازم ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت کا عجلت میں تحفظ پاکستان بل قومی اسمبلی سے منظور کرانا ایک افسوسناک امرہے۔ اس بل پر سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں اس لئےحکومت کو اس بل پر نظرثانی کرنی چاہئے۔یہ بل بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔حکومت کو اس بل کو فوری واپس لے لینا چاہئے کیونکہ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کا تشخص خراب ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان مشکلات اور مسائل پر کیسے قابو پاتی ہے اور امن کے دشمن ’’خفیہ ہاتھ‘‘ کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یانہیں؟
تازہ ترین