• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام بدترین قسم کی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ جمہوری اور معاشی اصلاحات کیلئے ہونے والے مظاہرے مسلح بغاوت کی شکل اختیار کرگئے۔ ہنگاموں کی ابتدا مارچ 2011ء میں ہوئی اور حکومت مخالف عناصر تیزی سے منظم ہونا شروع ہوگئے۔ اسی سال جولائی میں آزاد شام آرمی منظرعام پر آگئی جو زیادہ تر سرکاری فوج کے بھگوڑے اہلکاروں پر مشتمل ہے اور مغربی ذرائع کے مطابق جن کی تعداد 25ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ 23؍اگست 2011ء کو نیشنل کونسل بنی اور 11؍نومبر 2012ء کو دوہا میں ہونے والے اجلاس میں جملہ سرکار مخالف تنظیموں پر مشتمل شام قومی اتحاد (Syrian National Alliance) معرض وجود میں آگیا، جسے اگلے ہی روزمتعدد خلیجی ریاستوں نے شام کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ گزشتہ تین برس کی اس خوفناک خانہ جنگی کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ بے گناہ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 60لاکھ سے اوپر ہے جو اپنے ہی ملک یا ہمسایہ ریاستوں میں دربدر ہیں۔ پورا ملک کھنڈر کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس کا تعلق دنیائے عرب میں پھیلی عمومی بدامنی (Arab Spring) سے جوڑتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ تین برس کے دوران خطہ میں شدید سیاسی تلپٹ ہوچکی ہے۔ تیونس، لیبیا، یمن اور مصر میں حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ مصر میں تو یہ حادثہ دوبار ہوا۔ حسنی مبارک کے بعد مرسی بھی چلتے بنے۔ الجزائر، عراق، اردن، بحرین، کویت، مراکش اور سوڈان میں حکومتیں بچی تو رہیں، مگر احتجاجی مظاہروں نے ہلاکر رکھ دیا۔سمیت ماریطانیہ، اومان،جبوتی اورمغربی صحارا سمیت کئی ملکوں میں احتجاج بھی ہوا، مگر اس کی شدت زیادہ نہیں تھی۔اب شام کی تباہی ہورہی ہے اور حلق خدا کی بدقسمتی کے دن ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں تنازع کے خاتمہ کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے مفادات کشید کرنے کی کوشش میں ہیں۔ روس اس عمل میں پیش پیش ہے کیونکہ شام اس کا پرانا اتحادی ہے۔ اور پھر امریکہ کو زچ کرنے کا بھی اچھا موقع ہے۔ کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے شام کے خلاف امریکی کارروائی کا خدشہ پیدا ہوا تو روس فرنٹ فٹ پر آگیا۔ اور سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کے ناتے شام کے خلاف کونسل کی متعدد قراردادیں ویٹو کرچکا ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا اصرار تھا کہ ’’مظاہرین کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا شام پر الزام ضرور ہے، مگر واضح ثبوت موجود نہیں۔ دمشق کو نشانہ بنانے کے لئے واشنگٹن محض بہانے تراش رہا ہے۔ شام کے ساتھ معاملہ کرنے میں مغرب کی مثال اس بندر کی سی ہے، جس کے ہاتھ میں گرینیڈ آگیا ہو‘‘۔ فروری 2014ء میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی اسلام آباد آمد کے موقع پر خبر نکلی تھی کہ برادر اسلامی ملک پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا عطیہ دے گا۔ جس پر سوال اٹھا کہ پاکستان جواب میں کیا دے گا؟ کئی دنوں تک ہمارا میڈیا تو ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا، مگر عالمی میڈیا میں ہاہاکار مچ گئی کہ دونوں ملکوں کے درمیان اینٹی ائیر کرافٹ اور ٹینک شکن میزائلوں کے حوالے سے بات چیت ہورہی ہے۔ جومبینہ طور پر شام میں برسرپیکار اتحاد کو فراہم کئے جائیں گے۔ اس خبر پر بھی پہلا ردعمل روس کی طرف سے آیا تھا، مارکو میں وزارت خارجہ نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ ایک خطرناک کھیل ہے۔ ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں مسافر بردار طیاروں کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔
دسمبر 2012ء میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام میں جاری خلفشار فی الحقیقت فرقہ ورانہ نوعیت کا ہےمگر لطف کی بات یہ کہ فریقین،حکومت اور باغی دونوں اس سوچ سے متفق نہیںمگر عملی طور پر تقسیم بہت واضح ہے۔ 24؍دسمبر 2012ء کو سابق ایرانی صدر رفسنجانی نے کہا تھا کہ ’’ہم شام کو کسی قیمت پر تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران نے شام کی اعانت میں بخل سے کام نہیں لیا۔ متعدد خلیجی ریاستیں بہرطور بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ خطہ میں بڑھتا ہواایرانی اثر و نفوذ انہیں کسی طور قبول نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت سے خطہ میں توازن اقتدار بگڑ گیا ہے۔ اور اس صورت حال سے اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ ایران ہے۔ جس نے مغربی افغانستان میں ہی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ نہیں کیا، عراق میں بھی ایک ہمدرد حکومت کا اہتمام کروالیا۔ یہ صورت حال ایک عرب ملک کے لئے باعث تشویش ہے۔ جو اپنے آپ کو علاقائی اسلامی طاقت خیال کرنے کے ساتھ ساتھ خطہ کی دیگرریاستوں کا مربی و محافظ بھی سمجھتا ہے۔ اخوان المسلمون کی سرگرمیاں بھی اسے سوٹ نہیں کرتیں، جو دین اور سیاست کو یکجا کرنے کی بات کرتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل خانہ جنگی نے شام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب وہ پہلے والا شام نہیں رہا۔ مذہبی اور نسلی تقسیم بہت گہری ہوچکی ہےجس کے ساتھ ساتھ کرد بھی اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو کل آبادی کا دس فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ بے شک ماضی میں ان کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، اور وہ مزید برداشت کے لئے تیار نہیں۔ شام کے مظلوم شہریوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے۔ علاقائی طاقتوں کو بھی یہی سوٹ کرتا ہے۔ کیونکہ معاملہ کی طوالت سے ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک برادرملک کی تشویش قابل فہم ہے کہ اگر خدانخواستہ شام کا تنازع لمبا ہوگیا تو اس عرب ملک کے لئے سیاسی ہی نہیں، مالی مشکلات بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دلدل سے کیسے نکلا جائے؟ قرائن بتا رہے ہیں کہ معاملہ کو سمیٹنے کی پوزیشن میں اگر کوئی ہے تو وہ صرف اور صرف روس ہے۔ سو ماسکو کا فرض بنتا ہے کہ دمشق کے ساتھ اپنا دیرینہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس آفت رسیدہ حلیف کو ہی نہیں پورے خطے کو غیریقینی حالات سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ رہا امریکہ کو نیچا دکھانے کا معاملہ تو یار زندہ صحبت باقی، یہ کھیل اس بدنصیب خطے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین