• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز زرداری ملاقات اور غیر جمہوری قوتوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا مل جل کر چلنے پر اتفاق جمہوریت پسندوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے مگر مجھے معلوم نہیں کیوں اس موقع پر ماضی کے ایک طرح دار سیاستدان مخدوم زادہ حسن محمود یاد آرہے ہیں۔
جب 1951 میں پاکستان اور بھارت کے مابین سرحدی کشیدگی بڑھی، لیاقت علی خان مرحوم نے بھارت کو تاریخی مکا دکھایا تو مخدوم زادہ نے اپنے ساتھی مسلم لیگیوں کے ہمراہ ریاست بہاولپور کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا اور عوام کو ڈٹ جانے کا مشورہ دیا ۔دوسرے دن خبر آئی کہ مخدوم زادہ عوام کو ڈٹ جانے کی تلقین کرکے بغرض علاج انگلینڈ چلے گئے ہیں۔
بہاولپور میں ایک امام مسجد تھے مولوی محمد علی درویش، دبنگ، دلیر اور حق گو، اپنے ہفتہ وار’’الامام‘‘ میں انہوں نے حسن محمود کی لندن روانگی کی خبر اس سرخی کے ساتھ لگائی’’تم چٹان کی طرح ڈٹے رہو، میں انگلینڈ جارہا ہوں‘‘ حسن محمود زندگی بھر وضاحتیں کرتے رہے۔
آصف علی زرداری، میاں نواز شریف کی اس طبعی کمزوری سے آگاہ ہیں کہ موصوف 1992 سے ایسٹیبلشمنٹ پر سول بالا دستی کے جذبے اور جنون سے سرشار ہیں اور اب تک دو بار ایسٹیبلشمنٹ کے طاقتور ستونوں غلام اسحق خاں اور جنرل پرویز مشرف سے ٹکر لے کر اپنے ہیوی مینڈیٹ کا تیا پانچہ کرچکے ہیں ۔ایک کیمیا گر کی طرح جو سونا بنانے کے لئے طویل ریاضت کرتا ہے، مگر ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے اور سارا کیا دھرا اکارت۔ میاں صاحب بھی ابھی تک ایسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کی ہر کوشش میں ناکام رہے مگر ہمت نہیں ہاری اور اب ایک بار پھر نئی سیاسی جتھہ بندی کے ذریعے یہ کوہ ہمالیہ سر کرنا چاہتے ہیں اگر وہ اس مہم میں کامیاب رہیں تو چشم ماروشن دل ماشاد، ہم خوش ہمارا خدا خوش مگر آثار کچھ اچھے نہیں۔
میاں صاحب اور پیپلز پارٹی کے مابین محبت اور نفرت کا عجیب رشتہ ہے۔ دونوں دو دو بار ایک دوسرے کو سیڑھی کے طور پراستعمال کرکے غلام اسحق خان اور جنرل پرویز مشرف سے سودے بازی کرچکے ہیں اور ایک دوسرے سے حساب کتاب برابر بھی۔ عدلیہ کی بحالی پر آصف علی زرداری کی وعدہ خلافی کا بدلہ میاں صاحب نے لانگ مارچ اور جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی صورت میں لیا مگر ایسٹیبلشمنٹ پر قابو پانے کی خواہش تشنہ تکمیل ہے۔
یہ بدلہ چکانے کی خواہش اور جمہوری قوتوں کو متحد کرنے کی تدبیرہی تھی جس نے مسلم لیگی وزراء کو 2008 میں فوجی آمر اور 3 نومبر کے غیر آئینی، غیر قانونی اقدامات کے مرتکب جنرل پرویز مشرف سے وزارتی حلف لینےپر آمادہ کیا۔ توقع تھی کہ آصف علی زرداری میاں صاحب کے مشورے پر آخری فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانے پر تیار ہوں گے مگر انہوں نے سبکدوشی پر سابق صدر کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا اور ایسٹیلشمنٹ کے سامنے اچھا بچہ بن کر دکھایا۔
ثقہ راوی کے مطابق پرویز مشرف کی رخصتی پر میاں صاحب نے جب آصف علی زرداری کو مشورہ دیا کہ موقع غنیمت جان کر وہ اسے قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں تو زرداری صاحب نے جواب دیا’’میاں صاحب، میرے بوڑھے باپ نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ مجھے قربانی کا بکرا بنا کر اس کو دکھ دینا چاہتے ہیں جس بدمست سانڈ کو رشک آمیز عوامی مقبولیت کے ساتھ بھٹو اور آپ ہیوی مینڈیٹ کے زور پر قابو نہ کرسکے۔ سادہ اکثریت سے محروم میں غریب اور کمزور اس سے سینگ کیوں پھنسا ئوں؟‘‘۔
اب مگر گڑھی خدا بخش کے اجتماعات ،نجی محفلوں اور دو طرفہ نامہ و پیام کے دوران زرداری صاحب میاں صاحب کو بار بار یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بلا قابو میں آگیا ہے تو جانے نہ پائے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں، میاں صاحب زرداری صاحب کے بارے میں پانچ سال تک گلہ کرتے رہے کہ انہوں نے ججوں کی بحالی کے معاہدے سے انحراف کیا، ساتھ چلنے کے وعدوں کی نفی اور قاتل لیگ کو شریک اقتدار کرکے میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی ،اب اسحق ڈار اور خواجہ آصف کےمشورے پر زرداری صاحب کی یقین دہانیوں کو قابل اعتماد سمجھ سکتے ہیں؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔
موجودہ طرز کی موروثی، خاندانی جمہوریت اور اقربا پرور، دوست نواز حکمرانی ،پیٹ بھرے سیاستدانوں کے چونچلے ہیں یہ ریاستی وسائل اور سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ کا وسیلہ ہے اور مخالفین سے انتقام لینے کا بہترین ہتھیار۔ عوام کو روٹی، روزگار ،چھت اور انصاف درکار ہے جو موجودہ خونخوار، آدم خور سیاسی، سماجی، معاشی، ڈھانچہ فراہم کرنے سے کلی طور پر قاصر مگر حکمران اشرافیہ اور اس کی ہمنوا ایلیٹ دانش سول بالا دستی کو امرت دھارا سمجھتی ہے جس کے بعد ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔
بھوکی، پیاسی اور خوفزدہ بھیڑوں کو خوراک، پانی اور تحفظ کی فکر ہے انہیں بھلا اس سے کیا لینا دینا کہ جنگل کا بادشاہ شیر ہے، کوئی بھیڑیا یا جنگلی بلا، مگر انہیں یہ بات کون سمجھائے جو سول بالا دستی کی شدید خواہش میں اربوں روپے کی کرپشن ،ہر سطح پر بے قاعدگیوں اور لاقانونیت کو بھول چکے ہیں اور پانچ سال تک غیر قانونی طریقوں سے کھایا گیا قومی خزانہ اگلوانے کے موڈ میں نہیں۔ سول بالا دستی کا فائدہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ہے کرپشن کے پیسے کی واپسی اور لوٹ مار کا خاتمہ غریب کی ترجیح ہے تاکہ یہی وسائل تعلیم، صحت، روزگار اور سماجی بہبود کے منصوبوں میں خرچ ہوں۔ فیض رساں جمہوریت کے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہو۔
جمہوریت کا تحفظ اور سول بالا دستی کا معاملہ پانچ سال تک ایوان صدر کے سرد خانے کی نذر رہا اب زرداری صاحب میاں صاحب کو اکسارہے ہیں کہ ایسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کا یہ بہترین موقع ہے جانے نہ پائے۔ خواجہ آصف جیسے عقاب صفت ساتھی میاں صاحب کے مزاج شناس اور زرداری صاحب کے ہمنوا ہیں۔ شنید یہ ہے کہ ماضی کی طرح میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں اب عملی مفاہمت اور آہستہ روی کا مشورہ دے رہے ہیں مگر مقبولیت کا امکان کم ہے۔
دو ملائوں میں مرغی حرام کا محاورہ پرانا ہوچکا، ان دنوں’’دو شریفوں‘‘ میں جمہوریت حرام کا خدشہ سر اٹھا رہا ہے کیونکہ مزاج شناسان میاں نواز کا اصرار ہے کہ وہ سول بالا دستی کے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتے جو انہیں قدرت، امریکہ اور فرینڈلی اپوزیشن نے عطا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف سے وزارت دفاع کا اضافی چارج واپس لیا جارہا ہے نہ وزرارت دفاع کے’’ماتحت ادارے‘‘ کے تحفظات کو درخور اعتنا سمجھنے کا ارادہ ہے۔
خدا کرے کہ میاں صاحب اپنے نیک ارادوں میں کامیاب ہوں۔ بس آصف علی زرداری کی طرف سے تعاون کی یقین دہانیوں اور چٹان کی طرح ڈٹے رہنے کے مشوروں پر میں اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوں۔ دودھ کا جلا چھاجھ پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ میاں صاحب 1999کی طرح بم کو لات مار بیٹھے تو آصف علی زرداری کا کچھ نہیں بگڑے گا ہم آپ جمہوریت اور جمہوری آزادیوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ زرداری صاحب تو دبئی سدھار جائیں گے جوان کا دوسرا گھر ہے۔ صرف ایک سطری بیان ہی جاری کرنا ہے یا ایس ایم ایس پیغام میاں صاحب ’’تم چٹان کی طرح ڈٹے رہو، میں دبئی جارہا ہوں‘‘۔
تازہ ترین