• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آصف علی زرداری بالآخر وزیراعظم ہاؤس پہنچ ہی گئے۔اس وزیراعظم ہاؤس جس کو وہ سخت ناپسند کرتے ہیں۔گزشتہ پانچ سال آصف زرداری منصب صدارت پر براجمان رہے مگر صرف اس وجہ سے وزیر اعظم ہاؤس نہیں جاتے تھے کہ ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے ان کی دوسری حکومت کو رخصت کیا گیا وہ تلخ یادیں ہیں، جنہیں وہ یاد نہیں کرنا چاہتے۔ وزیر اعظم ہاؤس جاکر انہیں بے نظیر بھٹو شہید کی یاد آتی ہے مگر اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں محمد نوازشریف نے انہیں ملاقات کی دعوت دی تو آصف علی زرداری جمہوریت کو درپیش چیلنجز اور حالیہ سول و فوجی قیادت کے درمیان کشیدگی پر کیا حکمت عملی تیار کی جائے سمیت اہم مشورے دینے وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے۔آصف علی زرداری ماہر سیاسی کھلاڑی ہیں۔ حالیہ ملاقات میں انہوں نے میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں، آپ فوج کو واضح پیغام دیں اگر جمہوریت پر شب خون مارا گیا تو تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس کا مقابلہ کریں گی اور گفتگو میں بار بار کہتے رہے کہ میاں صاحب! آپ نے جارحانہ حکمت عملی اپنائے رکھنی ہے مگر میاں نوازشریف کی دانشمندی کی داد دینا ہوگی کہ انہوں نے اس صورت حال میں وہ کیا جو زرداری کے دیئے گئے مشورے کے برعکس تھا۔ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگے ایک وفاقی وزیر نے بھی میاں صاحب کو آصف زرداری سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ پرویز مشرف پر سنگین غداری کے ٹرائل کا آغاز پی پی پی نے اپنی گزشتہ پانچ سال کی حکومت کے دوران شروع نہیں کیا اور کوشش کرتے رہے کہ فوج سے تعلقات اچھے رکھے جائیں مگر زرداری صاحب ہمیں اس کے برعکس مشورہ دے گئے ہیں۔ میاں صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں۔بھلا آصف زرداری صاحب کو ان سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سیاسی شطرنج کے ماہر زرداری صاحب نے فیصل رضا عابدی کو بھی استعمال کرکے پھینک دیا۔میاں صاحب کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ آصف زرداری کا دیا گیا مشورہ درست نہیں ہے۔اسی لئے خواجہ آصف کو پہلے پیغام دیا گیا کہ وہ وضاحتی بیان دیں اور پھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آرمی چیف سے ملاقات کی تجویز کی وزیراعظم نے حمایت کی۔ وزیر خزانہ سے چیف آف آرمی اسٹاف کی تین گھنٹے تک جاری رہنے والی خوشگوار ملاقات نے فوج اور حکومت کے درمیان حدت کو کم کیا ہے۔ دفاعی بجٹ کے حوالے سے تبادلہ خیال تو محض ایک بہانہ تھا۔ طویل ملاقات میں گزشتہ چند دنوں کے دوران پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کیا گیا۔
وزیراعظم کے دورہ کاکول سے چند گھنٹے قبل آرمی چیف کو یہ باور کرادیا گیا کہ حکومت فوج کے ساتھ ہے ،مالی معاملات سمیت کسی بھی مسئلے میں فوج کو دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس ملاقات کا عکس ہفتے کو کاکول میں دیکھا جاسکے گا۔ملاقات میں طالبان اور مشرف کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔مشرف کے معاملے پر وفاقی وزیر خزانہ نے آرمی چیف پر واضح کیا کہ مشرف کا فیصلہ عدالتیں کریں گی ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ دیر آید درست آید....آرمی چیف نے بھی اس حکومتی موقف کی تائید کی ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ وہ آرمی ڈکٹیٹر ہو یا سابق ایس ایس جی کمانڈوز کا چیف آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔ تادم تحریر ابھی وزیر اعظم کاکول اکیڈمی نہیں گئے مگر کالم کی اشاعت تک وزیراعظم کاکول کا کامیاب دورہ مکمل کرکے آچکے ہوں گے۔ کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے میاں نوازشریف خطاب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھرپور انداز میں سراہیں گے۔ شہداء کے ذکر میں ان کے بھائی میجر شبیر شریف کا ذکر بھی کریں گے جب کہ وزیراعظم ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کو ان کی ذمہ داریوں اور قوم کی ان سے وابستہ توقعات کا بھی ذکر کریں گے۔ آرمی چیف سے خوشگوار موڈ میں ملیں گے جو شاید جمعرات کو ہونے والی قومی سلامتی کے اجلاس میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ دو شریفوں کی کاکول میں خوشگوار ملاقات کے بعد ان مٹھی بھر آمرانہ سوچ رکھنے والے افراد کی امیدوں پر بھی پانی پھر جائے گا جو توقع لگائے بیٹھے تھے کہ نظام کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔حالیہ سیاسی منظرنامے سے ٹھیک دو ہفتے قبل میں نے اپنے ایک کالم "فوج اور حکومت آمنے سامنے تو نہیں"میں واضح لکھا تھا کہ فوج اور حکومت کے تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں اور تناؤ کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔کالم شائع ہونے کے ٹھیک ایک روز بعد 07-04-2014 کو آرمی چیف کے ایس ایس جی جوانوں سے ملاقات کے دوران دیئے جانے والے بیان نے مہر ثبت کردی کہ واقعی فوج اور حکومت آمنے سامنے ہیں۔ کالم میں جو بھی پیش گوئی کی تھی وہ حالات و واقعات کی روشنی میں محض ایک تجزیہ تھا مگر کچھ مہربان دوستوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کے اہم بیان سے ایک روز قبل کالم میں کی جانے والی پیش گوئی کسی معلومات کے بل بوتے پر کی گئی تھی اور مجھے علم تھا کہ آرمی چیف ایس ایس جی ہیڈ کوآرٹر میں جاکر ایسا بیان دیں گے۔تو ایسا ہر گز نہیں تھا بلکہ حالات کی روشنی میں ایک تجزیہ تھا جو درست ہو گیا۔
حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کیوں اور کیسے پیدا ہوا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار بھی میاں نوازشریف ہیں۔ بار بار ان افراد کو آزماتے ہیں جو نہ صرف مسلم لیگ ن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ جمہوری نظام کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف کی کچن کیبنٹ کے کس فرد کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ میاں صاحب کے ایک ملازم کا نام پرویز ہے مگر میاں صاحب اسے اس کے بیٹے موسیٰ کے نام سے پکارتے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ 12اکتوبر کے واقعے کے بعد میاں صاحب پرویز نام بھی لینا نہیں چاہتے اور اکثر کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے میرے ساتھ جو کیا میں اسے معاف کرچکا ہوں مگر آئین وقانون کے ساتھ کی جانے والی غداری قابل معافی جرم نہیں ہے، تو ایسی صورتحال میں ملک کے داخلی معاملات کو سنبھالنے والے میاں شہباز شریف کے نادان دوست کس منہ سے مشرف کے چند حاضر سروس فوجی دوستوں کو یقین دہانی کراکر آئے تھے کہ مشرف پر جس دن خصوصی عدالت فرد جرم عائد کرے گی اسی دن ان کانام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا اور انہیں باہر بھیج دیا جائے گا۔ حالانکہ ملک کا وزیراعظم اس سب سے لاعلم تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کابینہ کے دو خواجہ صاحبان مشرف کے شدید مخالف جبکہ پنجاب کے حکمران میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نرم گوشہ رکھتے ہیں مگر مشرف کے معاملے میں کسی کے مخالف یا نرم گوشہ رکھنے کا سوال نہیں ہے۔ یہاں تو سنگین غداری کے ملزم کا ٹرائل ہے۔ جس کی مدعی پاکستان کے غیور عوام ہیں اور اب پاکستان کی آزاد عدالتوں نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ مشرف کا جرم کتنا سنگین ہے اور اسے کیا سزا ملنی چاہئے۔ جبکہ فوج سے جڑا دوسرا اہم مسئلہ طالبان سے مذاکرات کا ہے مگر طالبان کی غیر سنجیدگی نے یہ گتھی بھی سلجھادی ہے اور حکومت فوج کے ساتھ مل کر اس معاملے سے بھی نپٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے مگر دونوں معاملات میں ایک چیز مشترک ہے کہ حکومت کا موقف واضح ہے کہ مشرف اور طالبان دونوں معاملات میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جو آئین و قانون کے منافی ہو۔یہ اچھا شگون ہے کہ ملک میں اداروں کو اپنی حدود کا اندازہ ہو رہا ہے۔ حالیہ صورت حال میں میاں نوازشریف کا کردار قابل تحسین ہے۔ جنہوں نے انتہائی دانشمندی سے نہ صرف پورے معاملے کی نزاکت کو سمجھا بلکہ اسے بہتر انداز میں حل بھی کیا۔ ایک اور اچھا فیصلہ کرنے پر ....ویل ڈن !میاں نوازشریف۔
تازہ ترین