گریٹر مانچسٹر /بولٹن(ابرار حسین)ممتاز روحانی اورکمیونٹی شخصیت چوہدری اشفاق ٹوپہ آدم کی تحریک پر ٹوپہ ہاؤس میں ہم خیال افراد کا اجلاس منعقد ہوا جس میں برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ اجلاس میں چوہدری خالق دتیوال ،چوہدری اشفاق ٹوپہ آدم، فیصل اسحاق، افضال بجاڑ ،مجیر آصف ، محمد فاروق، ریحان مرزا بیگ، ندیم امان اللہ واڑئچ، الیاس چوہان ،چوہدری الیاس ٹلیا ن، چوہدری غلام ربانی، چوہدری طارق ،چوہدری زبیر گل، چوہدری اشرف ،چوہدری ظفر جوڑا ،چوہدری عرفان وسن، وسیم چوہدری ،محبوب الٰہی بٹ اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں شرکاءنے سوال اٹھایا کہ برطانیہ میں مسلمانوں کو وہ سماجی انصاف مہیا نہیں کیا جاتا جو بھارتی یا دیگر کمیونٹیز کو ملتا ہے جب کہ بعض شرکاءنے کہا کہ جب آپ بھارتی کمیونٹی کی بات کرتے ہیں تو اس میں بھارت کی گجراتی مسلمان کمیونٹی بھی زیر بحث آتی ہے ، ان کو بھی سہولتیں ملتی ہیں جب کہ عرب ملکوں نیز ایران اور عراق کے مسلمانوں کو بھی وہی سماجی انصاف ملتا ہے جو پاکستانیوں کو نہیں ملتا، اگر اس بات پر اتفاق بھی کر لیا جائے کہ کوئی زیادتی ہورہی ہے تو وہ مسلمان کمیونٹی کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہو رہی ہے ۔ایسے میں پاکستانی کمیونٹی میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے سوچ بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔بعض شرکاءنے یہ استدلال بھی پیش کیا کہ پاکستان سے نئے آنے والے بہت سے لوگ برطانوی قوانین کی پاسداری نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے اداروں نے ان پر نظر رکھی ہوئی ہے اور ان کی ہر بات کو مشکوک سمجھا جاتا ہے تاہم گفتگو میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا ہم اسی طرح بند کمروں میں بیٹھ کر اس بات پر افسوس کرتے رہیں گے کہ پاکستانی کمیونٹی کو ان کے حقوق نہیں ملتے اور ان کے ساتھ سماجی انصاف میں امتیازی برتاؤ کیا جاتا ہے اور پھر کھا پی کر گھروں کو چلے جائیں گے یا پھراس کیلئے ٹوپہ ہاؤس سے باہرنکل کر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، بعض شرکاءنے پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر بھی تنقید کی اور جذباتی انداز میں کہا کہ ایک طرف تو وزراءاورسفارت کار برطانیہ کی کمیونٹی پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان آپ کا آبائی وطن ہے ، وہاں جا کر سرمایہ کاری کریں جب کہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کی اپنی سرمایہ کاری پاکستان سے باہر ہے ، ہمارے بچے جو یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں والدین دوکشتیوں میں سوار کرتے ہیں ۔ جب وہ سکول ، کالج اوریونیورسٹی کی سطح پر دیکھتے ہیں توانہیں وہاں سماجی انصاف نظرآتا ہے جبکہ گھر میں انہیں مختلف کلچر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہاں کی پروان چڑھنے والی پاکستانیوں کی نسل پاکستان جاناتودرکنار وہ پاکستان کا نام تک سننے کوتیار نہیں، ہم جب پاکستان جاتے ہیں توہمیں ائرپورٹ پر لوٹنا شروع کر دیا جاتا ہے اور ہر شخص باہر سے آنے والے سے امید رکھتا ہے کہ انہیں پیسہ اورتحائف دیئے جائیں وہاں ہماری کوئی نہیں سنتا جب پاکستان سے سیاسی رہنما یہاں آتے ہیں تو ہم ہار لے کر گھنٹوں ان کا ائرپورٹ پر استقبال کرنے کےلئے کھڑے ہوتے ہیں ۔ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں مگر وہ ہمارے مشکور تک نہیں ہوتے جس سیاستدان کی طبیعت گدگداتی ہے وہی خدمت کروانے اور فری میں سیریں کرنے کیلئے اٹھ کر برطانیہ آجاتا ہے اورہم لوگوں کو ’’دھر‘‘ بنا لیتا ہے ۔ہمیں برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی کی قابل رحم حالت پر کچھ کرنا ہوگا۔ اس مقصدکیلئے برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کو آگے آنا ہوگا اور ایک ایسی تنظیم بنانی ہوگی جو برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی کی سوچوں کو بیدار کرے اور اس کیلئے ایک ایسافورم تیار کرنا ہوگا جو برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو یہاں کے کلچر اورآداب پر عمل کرنے کی طرف راغب کرے ۔ اجلاس میں چوہدری خالق دتیوال اورچوہدری اشفاق آف ٹوپہ آدم سمیت دیگر شرکانے اس مقصدکیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے زوردیا کہ ایک ایسی تنظیم بنائی جائے جو پاکستانیوں میں یہ شعور بیدار کرے کہ انہیں اگر برطانیہ میں رہنا ہے تو یہاں کے قوانین پر عمل بھی کرنا ہوگااوربرطانیہ کو اپنا وطن سمجھنا ہوگا۔اجلاس میں ایک تنظیم کے قیام پر اتفاق کیا گیا اور مزید انتظامات کیلئے آئندہ کے اجلاس میں تجاویز پر مزید غورکرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔