• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اُس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب پاکستان ہاکی کے میدان میں پوری دنیا میں ممتاز مقام رکھتا تھا اور بیشتر موقعوں پر فائنل جیتتا یا پھر دوسرے نمبر پر ہوتا تھا۔ عالمی چیمپئن شپ ہو یا ایشین چیمپئن ٹرافی اکثر ہمارے کھلاڑی ٹرافیاں لا کر قوم کو خوش کرتے رہتے تھے ۔ان میں 4 کھلاڑیوں کی کارکردگی یعنی اصلاح الدین، حنیف خان، سمیع اللہ اور کلیم اللہ ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے اور کمنٹری جو اردو میں ہوتی تھی اکثر اصلاح الدین ہاکی سے بال کو لے کر ہمیشہ آگے ہوتے تھے تو کمنٹیٹرکچھ اس طرح کہتا تھا کہ بال اب اصلاح الدین نے مخالف کھلاڑی سے چھین کر سمیع اللہ کو دی سمیع اللہ بال لے کر آگے بڑھے انہوں نے اپنے بھائی کو پاس دیا ۔کلیم اللہ نے سمیع اللہ اور پھر سمیع اللہ نے اصلاح الدین کو پاس دیا اصلاح الدین نے 2 کھلاڑیوں کو ڈاج دیا اور بال گول لائن کراس کر گئی اور گول ہو گیا۔ کبھی کبھی سمیع اللہ سے کلیم اللہ کی تکرار میں حنیف خان بھی بیچ میں آجاتے تھے اور اکثر یہ ہوتا تھا کہ کم از کم پنالٹی کارنر ضرور ہوتا تھا پھر ہمارے پنالٹی کارنر اسپیشلسٹ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بال کو گول میں ڈال دیتے تھے۔ یہ عام بات تھی گول پر گول ہوتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر دفاعی کھلاڑیوں کو مخالف ٹیم کے بڑے بڑے کھلاڑی نرغے میں رکھتے تھے کہ بال ان چار کھلاڑیوں سے دور رہے آج کل پاکستان کی کھیل کے میدانوں میں پسپائی نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ ہاکی بھی تنزلی کی طرف گامزن ہے۔
ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب ایک سال سے کچھ کم عرصے میں 3محاذوں پر تنہا برسرپیکار ہیں۔ ایک طرف پرویز مشرف کے ٹرائل کے حوالے سے نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے اس سیاسی کھیل میں ہاکی کے اوپر بیان کردہ حالات کی روشنی میں ان کے وزراء بال چھین کر خواجہ آصف کو پاس دے دیتے ہیں جو بال لے کر آگے بڑھتے ہیں اور پاس خواجہ سعد رفیق کو دے دیتے ہیں جو پھر وہ واپس خواجہ آصف کو دیتے ہیں تو بیچ میں پرویز رشید کو بال مل جاتی ہے وہ بال کو لے کر آگے بڑھتے ہیں اتنے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کسی طرح بال کو لے کر گول لائن سے باہر پھینک دیتے ہیں۔
خواجہ آصف جو بجلی کے محکمے کے ذمہ دار تھے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے جب وزیر دفاع کو عدالت میں طلب کیا تو اس وقت یہ محکمہ خود وزیراعظم صاحب کے پاس تھا پھرانہوں نے یہ محکمہ خواجہ آصف کے حوالے کر دیا۔ خواجہ آصف جو 1999ء میں آمریت کے ہاتھوں بہت صدمے اٹھائے ہوئے تھے انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور جمہوریت کی تلوار سے حملے شروع کر دیئے۔ ان کا ساتھ دینے کیلئے ان کے جیلوں کے ساتھی سعد رفیق اور پرویز رشید اس نازک موقع پر مزید ساتھ دینے کیلئے میدان جمہوریت میں کود پڑے اور سیاسی بیانات میڈیا کی طرف اچھالتے رہے۔ میڈیا کو اور کیا چاہئے۔ یوں روز سیاسی ٹاکرے اور مناظرے، ملاکھڑے شروع ہو گئے۔ اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ طالبان نے جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے تاہم اب تک یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا پاکستان کے شہروں اور ٹرینوں میں ریمورٹ کنٹرول بموں کے دھماکوں کے ذریعے کون دہشت پھیلا رہا ہے۔ اب تو طالبان بھی ان وارداتوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ خود طالبان گروپوں میں بھی ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔کافی طالبان رہا بھی ہو چکے ہیں مگر ہمارے چار اہم مغویوں میں سے ایک بھی رہا نہیں ہو سکا۔سیکڑوں معصوم شہری دہشت گردی کی لپیٹ میں ہلاک یا شہید ہو چکے ہیں ۔وزراء کی بیان بازی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے۔ فوج کا اس پر مخصوص انداز میں ردعمل بھی سامنے آچکا ہے ۔میاں صاحب نےایک ترپ چال حزب اختلاف یعنی پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری صاحب سے مشاورت کر کے چلی ہےجو سمجھ سے بالاتر بات ہے کیونکہ فوج نے بڑی خوبصورتی سے اپنا مدعا بیان کر کے بال اب وزیراعظم کے کورٹ میں ڈال دی ہے مگر وزیراعظم، وزیر داخلہ کے مشوروں سے اتفاق نہیں کر رہے ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار خوبصورتی سے بال اپنی ہاکی کے نیچے رکھے طالبان سے بھی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور پرویز مشرف کو بھی فوج کی مرضی سے جانے دینے کے حق میں ہیں کچن کیبنٹ اس بات کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ ایک کے مقابلے میں 4 کھلاڑی وزیر اعظم صاحب کو گھیرے ہوئے ہیں۔ حالات کو دیکھ کر محسوس یوں ہوتا ہے ہمارے حکمرانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ حکومت محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ملک وقوم کے مسائل کاحل تلاش کرنے پر توجہ دے۔ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے ۔جہاں تک پرویز مشرف کاتعلق ہے تو انہیں جانے دیا جائے اور اس معاملے میں مزید وقت ضائع نہ کریں۔
تازہ ترین