• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ اصلی کراچی اور میرا شہر کراچی سے تمہاری مراد کیا ہے؟ اس طرح کے سوالات نہ صرف جنریشن گیپ کی نشاندہی کرتے ہیں،کمیونی کیشن گیپ کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ بند کے اندر رکھے ہوئے کباب کو ہم بندکباب کہتے تھے۔ آپ بند کباب کو برگر کہتے ہیں۔ جب تک آپ اس چھوٹی سی بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے تب آپ اصلی کراچی اور میرا شہر کراچی والی بات نہیں سمجھ سکتے۔ تاریخ میں پی ایچ ڈی کے ایک امیدوار سے انٹرویو میں پوچھا گیا ’’لاہور پر کس کے راج کو تم سب سے ہر دلعزیز راج سمجھتے ہو؟‘‘
امیدوار نے جھٹ سے جواب دیا تھا، ’’بابرا شریف کے راج کو!‘‘…یہ تب کی بات ہے جب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا دور دورہ نہیں تھا اور ہر سو بابرا شریف کا شور تھا۔ تب وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی لیڈنگ لیڈی تھی۔ امیدوار کا جواب سن کر ممتحن خوش ہوئے اور اسے تاریخ میں پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت مل گئی۔ تب بابرا شریف کا لاہور پر راج تھا۔ اب میاں شہباز شریف کا لاہور پر راج ہے اور بابرا شریف کا کوئی کاج نہیں ہے۔ اس کو کہتے ہیں تب اور اب کی بات۔ جب تک آپ تب اور اب کو سمجھنے سے قاصر ہیں تب تک آپ اصلی کراچی اور میرا شہر کراچی والی بات نہیں سمجھ سکتے۔ دنیا میں دو دیگر شریف بھی ہیں لیکن شریف ہونے کے باوجود ایک شریف اردو بولتا ہے اور دوسرا شریف انگریزی بولتا ہے۔ اسے عربی بھی آتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ دوسرا شریف انگریزی اور عربی بول سکتا ہے لیکن اردو اور پنجابی نہیں بول سکتا۔ جب تک آپ اس راز کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے تب تک آپ کو اصلی کراچی اور میرا شہر کراچی والی بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔
اصلی کراچی سے میری مراد ہے وہ شہر جو کیماڑی سے شروع ہوکر ٹکری پر ختم ہوجاتا تھا۔ چھوٹی سی سرسبز پہاڑی کو اصلی کراچی کے لوگ ٹکری کہتے تھے۔سیر و تفریح کیلئے اور پکنک اسپاٹ تھا۔ ہندو، مسلمان، کرسچین، پارسی وغیرہ مع اپنی فیملی روزانہ ٹکری پر آتے تھے۔ ٹکری کے اطراف ان کی ایک اور دو گھوڑوں والی بگھیاں،جن کے چار پہیے ہوتے تھے کھڑی رہتی تھیں۔ کچھ لوگ موٹر گاڑیوں میں آتے تھے جن کے پیسوں میں سائیکل یا موٹرسائیکل کے پہیوں جیسی تاریں لگی ہوئی ہوتی تھیں۔ وہاں کچھ موٹر سائیکلیں بھی پارک ہوتی تھیں جن کے ایک طرف ایک سوار کے بیٹھنے کیلئے بگی لگی ہوئی ہوتی تھی۔ صاف ستھرے سجے سجائے ٹھیلوں پر بھیل پوری، دہی بھلے، فروٹ ڈرائی فروٹ، آئس کریم بکتی تھی چونکہ ٹکری پر کراچی کا اصلی شہر ختم ہوجاتا تھا۔ اس لئے دنیا کے ہر مہذب شہر کی طرح ٹکری سے تین چار میل دور شہر کی جیل ہوتی تھی۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک کے ایک مہذب شہر کے بیچوں بیچ جیل نہیں ہوتی، سوائے آج کل کے کراچی کے۔ ٹکری کے ایک طرف بے انتہا امیر اورسخاوت کرنے والےپارسی رہتے تھے اور دوسری جانب امیر ہندو رہتے تھے جو پارسیوں کی طرح سخی تھے اور دھرم شالائیں اور جانوروں کیلئے گئو شالائیں چلاتے تھے اور تعلیم پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتے تھے۔ پارسیوں اور ہندوئوں کی کوٹھیاں فن تعمیر کی اعلیٰ مثال تھیں۔ اب ان کوٹھیوں کی جگہ دس پندرہ منزلہ فلیٹوں والی بھدی عمارتیں ابھر آئی ہیں۔ٹکری سے تقریباً دو تین میل دور ملیر سے آتا ہوا برساتی نالہ گزرتا تھا جس کے دوسری پار سندھیوں اور بلوچوں کی بستیاں تھیں۔ نالے پر اب تین ہٹی اور لسبیلہ پل بنے ہوئے ہیں اور دوسری پار اصلی کراچی سے بہت بڑا شہر آباد ہوگیا ہے جس میں لیاقت آباد، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ شامل ہیں۔ ٹکری پر قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔ کیماڑی سے صدر، سولجر بازار، گارڈن، کینٹ اسٹیشن اور چاکیواڑہ تک شہر میں ٹراموے سسٹم چلتا تھا۔ ہم لوگ سعید منزل کے قریب ڈنشا آغا بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔میں اور میرے والد صاحب سعید منزل سے ٹرام میں سوار ہوتے اور بولٹن مارکیٹ سے سودا سلف خرید کر ٹرام پر واپس آتے تھے۔ کبھی کبھار ٹرام میں سوار ہوکر صدر چلے جاتے اور وہاں ایمپریس مارکیٹ سے خریداری کرکے جہانگیر ریسٹورنٹ میں فالودہ آئسکریم کھا کر، ٹرام میں سوار ہوکر گھر آتے تھے۔ کرایہ ہوتا تھا ایک آنہ۔ تب ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے۔ بولٹن کے سامنے کراچی کا جنرل پوسٹ آفس ہوتا تھا جس کی دیوار پر سنگ مر مر کے پتھر پر زیرو پوائنٹ لکھا ہوتا تھا جہاں سے کراچی اور ہندوستان کے دیگر شہروں کے درمیان فاصلوں کا تعین کیا جاتا تھا۔ ایسا تھا میرا شہر کراچی۔
ایک منظرعام جام دیکھنے کو ملتا تھاجو اب معدوم ہوچکاہے۔اس جیسے مناظرآج بھی ہندوستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔ بیچ سڑک پر اگر گائے بیٹھ جائے تو اسے اٹھاتے یا ہٹاتے نہیں تھے۔ ٹریفک بچ بچا کر گزرتی رہتی تھی۔ اب ممبئی، کولکتہ ، مدراس، دلی اور بنگلور میں کافی حد تک اس پرابلم پر قابو پالیا گیا ہے۔گائے کو بڑی سڑکوں پر آنے نہیں دیتے۔کراچی کی ٹرانسپورٹ میں ٹرام، بس ڈبل ڈیکر میں کار سائیکل اور موٹر سائیکل کے علاوہ ٹانگوں، چار پہیوں والی بگھیوں، اونٹ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں کی بہتات ہوتی تھی۔ اسی لحاظ سے جگہ جگہ جانوروں کیلئے خوبصورت پانی پینے کے حوض ہوتے تھے۔ہم ٹرام میں سوار ہوکر زولوجیکل گارڈن جاتے تھے۔زولوجیکل گارڈن کا نام تھا گاندھی گارڈن،ٹرام گاندھی گارڈن کے عین سامنے رکتی تھی، اس سڑک کا نام تھا لارنس روڈ۔ بہت بڑا چوڑا روڈ تھا، اب نہ جانے اس کا نیا نام کیا ہے۔ گاندھی گارڈن کے عین سامنے لارنس روڈ پر ایک گول خوبصورت عمارت ہوا کرتی تھی۔ عمارت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے مگر بدحال ہے۔ یہ عمارت گئوشالہ کے نام سے مشہور تھی جس میں لاوارث گایوں اور بچھڑوں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور بیمار جانوروں کا علاج کیا جاتا تھا۔ پہلی منزل پر آراستہ کمرے تھے جو اندرون سندھ سےکراچی آنے والے بیوپاریوں اور کاروباری لوگوں کو مسواڑ یعنی کرائے پر دیئے جاتے تھے۔ اس آمدنی سے گئوشالہ کا انتظام احسن طریقے سے چلتا تھا۔ ذرا آگے جائیں تو میوہ شاہ قبرستان تھا اور اب بھی ہے۔ اس سے منسلک یہودیوں کا بے انتہا خوبصورت قبرستان ہوا کرتا تھا۔ اب بھی ہے، مگر خستہ حال میں ہے بقول کسی کے، یہودیوں کا قبرستان دیکھ کر مر جانے کو جی چاہتا تھا۔ چرا کر لے جانے والوں نے سنگ مر مر کی مورتیاں گملے، نقش و نگار سے آراستہ کتبے اور آرائشی پتھر چرا لئے۔
صدر میرے شہر کراچی کا دل تھا، مرکز تھا۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ، وکٹوریہ روڈ،بوہری بازار، مینسفیلڈ اسٹریٹ طرح طرح کی چیزیں بیچنے والی دکانوں سے سجی ہوئی ہوتی تھیں۔ وہاں چپے چپے پر خوبصورت ریستوران تھے۔کوالٹی، فریڈرکس کیفے ٹیریا، کیفے جارج، جہانگیر ریسٹورنٹ، پرشین ریسٹورنٹ اینڈ بیکری۔ اس کے علاوہ دو الگ تھلگ لاجواب بیکریاں، ایک آدم سوماربیکری اوردوسری پیریرا بیکری۔ وکٹوریہ روڈ اور پریڈی اسٹریٹ کے سنگم پر، سینٹ اینڈریوز چرچ کے سامنے ہوتا تھا۔ انڈیا کافی ہائوس، جہانگیر پارک سے کھیل کر نکلتے اور اگر جیب میں پیسے ہوتے تو انڈیا کافی ہائوس میں کافی ضرور پیتے۔ بعد میں انڈیا کافی ہائوس کی جگہ زیلنز کافی ہائوس نے لے لی تھی۔ کاش آپ میرے شہر کراچی کے خوبصورت مندر اور گردوارے دیکھتے۔ تقسیم ہند کے بعد بڑی تعداد میں مندر مسمار کردئیے گئے۔کئی مندروں میں کنبے آباد ہوگئے۔ گرومندر جسے عام طور پر گرومندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔کسٹم آفس بن چکا ہے۔ مشہور ہے کہ گرومندر کی ایک دیوار میں چنی ہوئی دیوہیکل تجوری کسی نے کھول کر نہیں دیکھی کہ اس میں کیا ہے۔کاش آپ نے سینٹ پیٹرز چرچ، میتھوڈسٹ چرچ، سینٹ اینڈریوز چرچ، ٹرینٹی چرچ،سینٹ پیٹرک چرچ دیکھے ہوتے۔ کاش آپ نے فن تعمیر کے نادر نمونے موہٹہ پیلس،ڈی جے سائنس کالج، میٹھارام اسپتال، میری ویدر ٹاور،کسٹم ہائوس، سندھ ہائیکورٹ،فیرئیر ہال، بی وی ایس پارسی اسکول، ماما پارسی گرلز اسکول، بزنس گارڈن میں وکٹوریہ میوزیم کی عمارت جس میں اب سپریم کورٹ کے مقدمے چلائے جاتے ہیں، ایسا تھا میرا شہر کراچی۔
تازہ ترین