• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں شہر کراچی جو کئی دہائیوں سے امن کا متلاشی ہے، قیامِ امن کے لئے وسیع البنیاد مشاورت کے بعد آپریشن کا آغاز ہوا۔ کراچی کی اکثریتی جماعت ایم کیو ایم نے اس آپریشن کو فوج کی زیر نگرانی میں شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مشاورت کے بعد اس کا مقامی پولیس اور رینجرز کی مدد سے آغاز کیا گیا۔ اس کے آغاز پر ایک نگراں کمیٹی کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا جو ہنوز قائم نہیں ہوسکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس آپریشن کے اوپر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے۔ گو نتائج کے اعتبار سے بھی یہ آپریشن مثالی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ شکایات بہت سنگین ہوتی جارہی ہیں۔ پہلے ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری تھے، یہ واقعات اب بھی جاری ہیں لیکن ان میں اب ایک نیا موڑ آیا کہ جب کراچی کے شہری سادہ لباس میں قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائیوں کا ذکر کر رہے ہیں جن کے دوران بغیر شناخت کی گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں جو سیاسی کارکنوں اور دیگر لوگوں کو غیر قانونی حراست میں لیتی ہیں جس کے بعد یا تو وہ لاپتہ ہوجاتے ہیں یا پھر مبینہ طور پر ان کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ تادم ِ تحریر بھی کراچی کے مشرقی علاقے کورنگی کراسنگ سے دو سیاسی کارکن جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا اور وہ کئی روز سے لاپتہ تھے، ان کی تشدد زدہ لاشیں ملیرندی سے برآمد ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں شہر کے شمالی علاقے سخی حسن پر بھی فائرنگ کا واقعہ ہوا جس میں کم از کم دو افراد کی جانیں گئی ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں اور اب وہ احتجاج کرنے پربھی مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم نے 17اپریل 2014ء کو کراچی پریس کلب پر ایک مظاہرہ منعقد کرکے اپنے احتجاج کو عوامی سطح پر ریکارڈ کرایا۔ اس احتجاج سے ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احساسِ محرومی کو احساسِ بیگانگی میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے۔ باالفاظِ دیگر انہوں نے یہ خبردار کیا ہے کہ معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ جانے دیا جائے۔ قانونی و اخلاقی طور پر سندھ اور وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان شکایات کا ازالہ کرے کیونکہ بہرحال انسانی جانوں کا ضیاع مسلسل ہورہا ہے۔ اگر حکومت اپنا آئینی کردار ادا نہ کرے تو قانون اور آئین کی بالادستی کے محافظ ادارے عدلیہ کو حرکت میں آنا پڑے گا۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کی تاخیر صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ کراچی جو پاکستان کا دل ہے، شہ رگ ہے اور تجارتی اور معاشی مرکز ہے، اس کو بچانا سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ایک جانب وہ شدت پسند ہیں جو ببانگ دہل اعلانِ جنگ کیے ہوئے ہیں، ان سے مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی بلکہ اس کی ڈور کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کا عزم کیا جارہا ہے اور دوسری جانب ایک ایسا وعدہ جو قوم سے نہ صرف آپریشن کے روح رواں میاں نواز شریف نے بھی کیا تھا، وہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ میرا اشارہ اس نگراں کمیٹی کی طرف ہے جو دورانِ آپریشن آنے والی شکایات کے ازالے کے لئے قائم کی جانی تھی۔ میاں نواز شریف کے عہد اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے کوہے ۔ ان کے پاس وقت کم ہوتا جارہا ہے اور انہیں قوم سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ معاشی ترقی کا وعدہ امن کی منزل کو حاصل کئے بغیر پورا نہیں ہوسکتا اور وہ بھی کراچی کا امن۔ یہ شہر صرف سندھ کا دارالحکومت نہیں بلکہ پاکستان کے اتحاد کی علامت بھی ہے اس لئے لہٰذا جتنا جلد ممکن ہوسکے، آپریشن کے دوران ہونے والی زیادتیوں اور بالخصوص سادہ لباس میں اہلکاروں کی سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور اس دوران جن اہلکاروں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، انہیں گرفت میں لا کر تمام کارروائیوں کو قانون کے مطابق بنایا جائے۔ اس ضمن میں تحفظ پاکستان بل کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ماضی میں بھارت میں ٹاڈا کے نام سے ایک قانون بنایا گیا تھا جو کالے قانون کی علامت بن گیا۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس بھی یہی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ تین ماہ تک پاکستانی شہریوں کو عدالت میں پیش کئے بغیر حراست میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 10کی سنگین خلاف ورزی ہے اور انسانی حقوق سے متعلق شقوں سے بھی متصادم ہے۔ قومی اسمبلی میں اسے عددی اکثریت کی بنیاد پر منظور کر لیا لیکن سینیٹ میں اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا مگر گزشتہ دنوں میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ بل سینیٹ سے بھی معمولی ترامیم کے ساتھ منظور ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اخلاقی و پارلیمانی اصولوں کی شکست ہوگی۔ عمومی طور پر ہونا ایسا چاہئے کہ اس آرڈیننس پر پہلے پہل پارلیمان میں بحث ہوتی اور پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی اس پر اپنی سفارشات مرتب کرتی اور اس پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے اسے نافذ کیاجاتا ۔ اس کے تحت آنے والے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے تھے۔ گزشتہ روز کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جو موجودہ حالات اور میاں نواز شریف کی آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس اجلاس جو کہ کابینہ کے اجلاس کے مساوی ہے، کے بارے میں جاری کی جانے والے پریس ریلیز سے تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جن مقاصد اور مسائل کے حل کے لئے یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا، وہ ہنوز حل طلب ہیں۔ بحیثیت مجموعی موجودہ حکومت اور ملک کا جمہوری نظام ہمہ جہتی مسائل سے دوچار ہے اور ان میں کراچی کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لئے اسے اسی جذبے کے ساتھ حل کیا جائے جس جذبے کے تحت کراچی آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا اس لئے آپریشن کی نگرانی اور گفت و شنید کے راستے کو ہموار کرنے کے لئے نگراں کمیٹی کا قیام ایک بہترین راستہ ہو سکتا ہے جو مستقل قیامِ امن کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
تازہ ترین