• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں اٹلی عالمی میڈیا کی خبروں کی توجہ کا مرکز بنا رہا جس کی وجہ اٹلی کی سپریم کورٹ کی جانب سے ملک کے ارب پتی سابق وزیراعظم سلویو برلسکونی کو سنائی جانے والی وہ دلچسپ سزا تھی جس کے تحت اُنہیں ایک سال تک اپنے محل کے قریب بزرگوں اور معذور افراد کے لئے مختص ادارے میں فلاحی خدمت انجام دینا ہو گی۔ برلسکونی کو یہ سزا سپریم کورٹ نے ایک ٹیکس فراڈ کیس میں سنائی ہے۔ واضح ہو کہ برلسکونی کو گزشتہ سال میلان کی ایک عدالت نے 4 سال قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں کم کر کے ایک سال کردیا گیا تھا جس کے خلاف برلسکونی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ برلسکونی پر الزام تھا کہ اُن کی کمپنی نے 1990ء کے عشرے میں ٹی وی حقوق خریدنے کے دوران ٹیکس فراڈ کیا تھا۔77 سالہ ارب پتی سلویو برلسکونی کا شمار اٹلی کے اہم ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی سیاسی جماعت پیپلز آف فریڈم پارٹی کے سربراہ اور تین بار اٹلی کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ چونکہ برلسکونی کی عمر 77 سال ہے، اس لئے اٹلی کے قانون کے مطابق اُنہیں جیل نہیں بھیجا جائے گا بلکہ سزا کے طور پر انہیں ایک سال تک سماجی خدمت انجام دینا ہو گی، بصورت دیگر ان کے گھر کو جیل قرار دے کر اُنہیں نظر بند کردیا جائے گا،سیاسی ملاقاتوں پر بھی پابندی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ماتحت عدالت کے برلسکونی کو 5 سال کے لئے نااہل قرار دیئے جانے کی سزا پر بھی نظرثانی کا حکم دیا ہے۔ برلسکونی اس سے قبل بھی اپنے کاروبار سے متعلق کئی بار مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں لیکن اُنہیں ان میں یا تو باعزت بری کردیا جاتا یا پھر سماعت کا حد سے زیادہ وقت ہونے کے باعث مقدمہ خارج کردیا جاتا رہا۔
سابق اطالوی وزیراعظم سلویو برلسکونی کا شمار اٹلی کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ ملک کے 3بڑے ٹیلیویژن اسٹیشنوں اور سب سے بڑے پبلشنگ ہائوس ’’ارنولڈو مونڈاڈوری‘‘ کے مالک بھی ہیں جبکہ کمرشل ٹیلیویژن پر ان کی مکمل اجارہ داری ہے اور اٹلی کے مجموعی ناظرین میں سے نصف سے زائد انہی کے ٹی وی چینل دیکھتے ہیں۔ برلسکونی کا پرنٹ میڈیا میں بھی کافی بڑا حصہ ہے، اس کے علاوہ انہوں نے سینما، انشورنس، بینکوں اور دیگر شعبوں میں کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ وہ دنیا کے معروف فٹ بال کلب اے سی میلان کے مالک بھی ہیں۔ 3 مرتبہ وزیراعظم رہنے والے برلسکونی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1994ء میں اپنی جماعت پیپلز آف فریڈم پارٹی کی بنیاد رکھ کر کیا۔ انتخابی مہم کے دوران برلسکونی کے میڈیا ہائوس اور ٹی وی چینل نے بنیادی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں ان کی جماعت اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ وہ 2001ء اور 2008ء کے انتخابات میں بھی میدان میں اترے اور پہلے کی طرح میڈیا کو بے دریغ استعمال کر کے دوسری اور تیسری مرتبہ اٹلی کے وزیراعظم بنے لیکن وہ جتنے عرصے بھی اپنے عہدے پر فائز رہے، ہمیشہ الزامات اور اسکینڈلوں کی زد میں رہے۔
برلسکونی پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے بائیں بازو کی ایک جماعت کے سرگرم رکن کو پارٹی بدلنے کے لئے رشوت بھی دی جبکہ برلسکونی کے آخری دور حکومت میں اُن کا ایک نوعمر مراکشی دوشیزہ سے تعلقات کا اسکینڈل بھی اخبارات کی زینت بنا جس نے اُن کی شہرت کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔ برلسکونی پر الزام تھا کہ 2010ء میں جب وہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے تو اُن کی رہائش گاہ پر فحش پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا اور انہی پارٹیوں میں اُن کی ملاقات مراکش سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ دوشیزہ کریمہ مہروگ سے ہوئی جس سے اُن کے تعلقات استوار ہوئے۔ اس حوالے سے برلسکونی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے کریمہ کو پولیس حراست سے چھڑانے کے لئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ مذکورہ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد برلسکونی کی ذاتی زندگی بھی متاثر ہوئی اور ان کی اہلیہ نے طلاق کے لئے عدالت سے رجوع کیا جس پر انہیں اپنی اہلیہ کو 48 ملین ڈالر کی ادائیگی کے بعد طلاق دینا پڑی۔ کم عمر لڑکی سے تعلقات کے الزام میں میلان کی عدالت برلسکونی کو 7 سال کی سزا سناچکی ہے جس کے خلاف برلسکونی نے اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کر رکھی ہے اور مقدمہ ابھی تک زیر سماعت ہے۔ برلسکونی اور کریمہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی ہمیشہ سے تردید کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے برلسکونی کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کی جماعت کے جج صاحبان اُن کا سیاسی کیریئر ختم کرنے کے لئے اُن سے ناانصافی کررہے ہیں۔
سابق اطالوی وزیراعظم کی سزا میں پاکستان کے لئے بھی سبق پوشیدہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی صدور، وزرائے اعظم، سیاستدانوں اور جنرلوں کے خلاف کرپشن اور ٹیکس چوری کے اسکینڈل منظرعام پر آتے رہے ہیں مگر آج تک کسی بھی اعلیٰ شخصیت کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزام میں سزا نہیں سنائی گئی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے یہ امید کی جارہی تھی کہ شاید وہ اپنے دور میں سپریم کورٹ میں کرپشن سے متعلق زیر سماعت مقدمات میں تاریخی فیصلے کریں گے جس سے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ کا وقار بلند ہوگا بلکہ ادارہ بھی مضبوط ہوگا لیکن اُن کی زیادہ توجہ شہرت کے حصول پر مرکوز رہی جس کے باعث ادارہ اتنا مضبوط نہ ہوسکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اٹلی کے ارب پتی سابق وزیراعظم کو دی گئی سزا کا تصور پاکستان میں بھی کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہمارےہاں کسی مقتدر یا بااثر شخصیت کو کرپشن کے الزام میں اسی طرح کی سزا دی جاسکتی ہے اور کیا وہ کسی ادارے میں فلاحی خدمت انجام دینے کا سوچ سکتے ہیں؟ شاید ہماری زندگی میں یہ کبھی ممکن نہ ہو کیونکہ پاکستان میں قانون صرف عوام کے لئے ہے جس سے حکمراں طبقہ مستثنیٰ ہے۔
تازہ ترین