• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’حامد میر کہانی‘‘ کے ٹائٹل سے محمد ضیاء الحق نقشبندی کی کتاب میرے سامنے پڑی ہے۔ نوجوان نسل منظم ترتیب، ریسرچ اور تاریخی ریکارڈ کے گورکھ دھندے سے گریز کرتی ہے۔ عزیزم محمد ضیاء الحق نقشبندی نے غیر متوقع طور پر اس کاہلی سے مکمل طور پر گریز کیا ہے۔
’’حامد میر کہانی‘‘ نے میرے ذہنی گوشوں میں صدائے بازگشت کے دریچے وا کردیئے۔ گزرے واقعات اور تاثرات کی سر سراہٹوں سے طبیعت میں پارے کی مانند لرزتے اضطراب نے میرے چاروں اور خاموش گہری اداسی کا جالا سا بُن دیا ہے۔ کہنے کو تو میں بھی حامد، عامر، عمران اور فیصل سب کو اپنے بھتیجے کہہ سکتا ہوں تاہم سماجی شناخت کے مرض سے ممکنہ حد تک بچنے کی خاطر اپنے تعلق کے اس اسلوب کے اظہار کی مجھے کوئی خاص بے قراری بھی لاحق نہیں!
کہانی کراچی کے ایک نجی اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ سے زندگی اور موت کی کشمکش سے نکل کر پرائیویٹ کمرے میں منتقل ہو کے ، اللہ کے فضل و کرم سے اپنے نئے ابواب رقم کرنے کے سفر حیات کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ اپنے سینئر صحافی سید انور قدوائی کے اپنے ’’بیٹے‘‘ حامد میر کے لئے لکھے گئے کالم نے میرے پارے کی طرح لرزتے اضطراب کو پانی کی مانند کھولتے اور بھاپ جیسی بولتی جارحیت میں بدل دیا۔ ان کی تحریر کے اس ابتدائی حصے نے مجھے حامد میر کے والد پروفیسر وارث میر کی داستان کے اس دیوان میں دھکیل دیا جہاں کھڑا وارث میر شاید آج بھی اپنے افتاں و خیزاں کرب بلاوفغاں کا حصہ ہی سنا رہا ہو۔ برادر نے یاد کرایا ’’میرا اس (حامد) سے احترام و محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے کہ اس کے دلیر، جرأــت مند والد پروفیسر وارث میر میرے انتہائی قریبی دوست اور بھائی تھے۔ سچ بولنے اور حق گوئی کی پاداش میں پروفیسر مرحوم بھی ذہنی اذیت سے دوچار رہے۔ غیر تو غیر ہیں چند ’’اپنے‘‘ بھی ذہنی تشدد میں پیش پیش تھے جنہیں وہ ’’جگے‘‘ کہا کرتا تھا۔ انہیں سچ اور حق کے لیے آواز بلند کرنا ’’ورثہ‘‘ میں ملا ہے۔ ‘‘آہ! وہ میرے صدواجب الاحترام دوست تھے، قلب و فکر کی بے حد پرمعنی دنیائوں میں وہ میرے ساتھ سفر کرتے، میں نے ان کی زندگی میں کبھی دعویٰ نہ کیا، یہ حرکت خوبصورت نہ ہوتی۔ ہاں! اب کہہ سکتا ہوں، میرے ساتھ ان کے ہر مکالمے میں ایسی راز داری کا بسیرا ہوتا جیسے ان پر ہر روز وارد ہونے والے نظریاتی تشدد کو رفاقت کا کوئی رسان سا ٹھکانہ میسر آگیا ہے۔ پروفیسر وارث میر مرحوم کے اس کرب بلاوفغاں کا، اس شہر لاہور ہی میں نہیں بلکہ اس ملک میں ہم سب سے کہیں زیادہ عینی شاہد، ان کی مظلومیت کے سامنے دیوار چین اور ان کے حالات میں سعادت مند محافظ کے طور پر شاید ہمارے مقصود بٹ کے برابر کوئی دوسرا نام نہیں لیا جاسکتا، ان دنوں یہ عزیز بھی میرے کولیگ ہیں۔ قاتلوں نے پروفیسر وارث میر کی اسی فکری وراثت پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔ آپ پروفیسروارث میر کے افکار کو مجسم اور متشکل حالت میں دیکھنے کے لیے ان کی کتاب ’’حریت فکر‘‘ کا مطالعہ کریں۔ غلام احمد پرویز، مولانا عبدالوحید خاں، علامہ جاوید الغامدی کے قبیلے کے قریب تر وارث میر کی نظریاتی تجسیم کی شناخت میں کوئی الجھن باقی نہیں رہے گی۔ سید انور قدوائی نے حامد میر کے والد کا تذکرہ میں بات کہیں سے کہیں نکل گئی، آیئے اسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں نئے ابواب رقم کرنے کی تیاری کرتی ہوئی ’’حامد میر کہانی‘‘ کے چند گزرے لمحات کا تاریخی ذکر اجاگر کرتے چلیں۔
’’حامد میر کہانی‘‘ کےٹائٹل سے محمد ضیاء الحق نقشبندی کی اس بامقصد کتابی کاوش میں مظفر محمد علی مرحوم اور خود نقشبندی کے مفصل ترین انٹرویوز پورے کے پورے ’’حامد‘‘ کی ’’پوری کی پوری‘‘ ذاتی اور نظریاتی نقاب کشائی ہے، کم از کم مجھے تو کسی تشنگی کا احساس نہیں ہوا۔ حامد میر سے عزیزم ضیاء کے لئے گئے انٹرویو میں پہلے ایک سوال و جواب ملاحظہ فرمایئے، مقصد آگے چل کر عرض کروں گا۔ ضیاء نے حامد سے پوچھا!
’’کیا آپ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل سمجھتے ہیں؟‘‘
جواب ملا!
’’میں بھٹو صاحب کی پھانسی کو عدالتی قتل سمجھتا ہوں۔ اس قتل میں امریکہ، پاکستانی فوج اور کچھ سیاستدان شریک تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور اقتدار میں بہت غلطیاں کیں لیکن انہوں نے پاکستان کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا۔ ختم نبوت کا مسئلہ حل کروایا اورایٹمی پروگرام شروع کروایا۔ مجھے وہ بطور دانشور زیادہ پسند آئے۔ انہوں نے جیل سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام جو خط لکھا وہ کسی ادبی شاہکار سے کم نہیں۔ بھٹو صاحب کو ایٹمی پروگرام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ اگر وہ زندہ رہتے تو افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا تنازع طے پا جاتا اور سابق سوویت یونین کبھی افغانستان پر حملہ نہ کرتا۔ افغانستان پر حملہ نہ ہوتا تو خطے کی سیاست نہ بدلتی۔ سوویت یونین قائم رہتا اور امریکہ دنیا کی سپر پاور نہ بنتا۔ ایک انسان کے قتل نے پاکستان کو بہت سزا دی (یہ سزا ابھی جاری ہے۔ کالم نگار) سیاست اور صحافت کے طلبہ کو بھٹو کی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ اور مائی ڈیئرسٹ ڈاٹر‘‘ ضرور پڑھنی چاہئیں۔ بھٹو صاحب نے پاکستان ٹوٹنے سے پہلے ’’گریٹ ٹریجڈی‘‘ کے نام سے کتاب لکھ دی تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اگر بھٹو صاحب کی کتابیں پڑھ لے تو اس پارٹی کو گریٹ ٹریجڈی بننے سے روکا جاسکتاہے‘‘
مقصد آگے چل کر عرض کروں گا، سے ’’مقصد‘‘ حامد میر کی نظریاتی پوزیشن میں معروضیت کے عنصر کی مرکزیت ثابت کرنا تھا جس کا آپ کو حامد کے جواب سے یقیناً ثبوت مل گیا ہوگا۔ دائیں بازو کے بعض غالب رجحانات کے باوجود حامد نے ذوالفقار علی بھٹو کے معاملات میں نہ ان کی اندھی پیروی کا اظہار کیا نہ ان کے ساتھ ’’قانون کے قتل‘‘ کو جائز تسلیم کرنے کے گناہ کا مرتکب ہوا۔
یہی حامد میر ہے، ایک اور حامد میر بھی ہے جس کا اور حضرات و خواتین کو بھی علم ہوگا۔ بہرحال ان کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ ہونے کا امکان نہیں، یہ کہ وہ اپنے سارے رشتوں کے بنیادی بندھن نہ بھولتا ہے نہ توڑتا ہے۔ مظفر محمد علی مرحوم جب گردے فیل ہونے کی بیماری کے نتیجے میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا تھا، حامد میر نے اس کی خبر گیری کے سلسلے میں تمام صحافتی تقاضوں کا خیال رکھا لیکن روایت پسندی سے آگے بڑھ کر اس نے اس تعاون کی بھی حد کردی جس کا ان روایتی صحافتی تقاضوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور یہی اصل حامد ہے!
جناب انور قدوائی نے حامد میر کے والد پروفیسر وارث میر مرحوم کو ذہنی تشدد کا عذاب دینے والے جن ’’جگوں‘‘ کا حوالہ دیا ہے وہ وہی ہیں جنوں نے طالبان کے مقابلے میں افواج پاکستان کو شہید تسلیم کرنے سے انکار کردیا، نوازشریف سمیت جو آج بھی ان کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ کے قائل ہیں، وارث میر کے فکری وارث حامد میر کے تو جرائم ہی بہت ہیں۔ بلوچستان، لاپتہ افراد، مشرف، طالبان، پاکستان کی سرزمین کی یہ وہ انگارہ تاریخ ہے جس میں قدم رکھنا اپنے آپ کو راکھ کردینے کے مترادف ہے۔ حامد میر نے اس میں قدم ہی نہیں رکھا سرتاپا چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنے نظریات پر ایمان اور قلم کی آزادی کے جذبے سے سرشار تھا مگر شاید نہ چاہتے ہوئے بھی ’’پاور گیم‘‘ کے برآمدوں کا شکار ہوگیا۔
ہمارے سانس حامد میر کے ساتھ اٹکے ہوئے ہیں۔ وارث میر میرے ساتھ باقاعدہ سرگوشی میں ہیں، نہ دعائوں کی نیت میں کوئی کمی ہے نہ اس کی رحمت بے پایاں کے دربار سے کسی بھی طرح کا ڈیپریشن قریب پھٹکا ہے، پھر بھی ہمارے سانس حامد میر کے ساتھ اٹکے ہوئے اور وارث میر کی میرے ساتھ باقاعدہ سرگوشی کی کیفیت نے ہم سب کو بارگیز والی ’’سوسالہ تنہائی‘‘ کا قیدی بنا دیا ہے، سو ہمیں ایک جلد باز قسم کی بے چینی نے آگھیرا ہے، کب جیو پر اس کی آواز سنیں، کب ’’جنگ‘‘ میں اس کا کالم دیکھیں، بار الٰہا! مالک ارض و سما، تو لامحدود، تیری رحمت لامحدود اور ہمارا حامد میر تیرےسائبان عفو و کرم تلے ، اس لئے تیرے سے ہماری امید ہی ہمارا ایمان ہے۔موجودہ حکومت کے سربراہ میاں نوازشریف نے ’’حامد میر کہانی‘‘ کی اصل کھوج جاننے اور اس تک پہنچنے کے لئے تین رکنی اعلیٰ عدالتی کمیشن قائم کردیا ہے۔ یہ ایک قومی قدم ہے ،یہ ریاست کا فرض ہے، یہ ملکوں کا چلن ہے، کمیشن اپنا کام کرے ہمارا ماضی اپنا کام کرے گا۔ کمیشن اور ہم، دونوں بالآخر وہاںپہ رک جائیں گے کہ ہمارا تاریخی ارتقاء ابھی نتائج و اعترافات کی راہوں پر چلنے کے مقام پر نہیں پہنچا۔
’’سیفما‘‘ کے صدر اور مقتدر صحافی امتیاز عالم اس ادارے سے مستعفی ہوگئے جو حامد میر کے تناظر میں ان کے خیالات کے اظہار اور تشہیر میں رکاوٹ تھا۔ امتیاز عالم کے اس اقدام نے حامد میر کے قومی مقدمے کی اخلاقی برتری میں تیز رفتار اضافہ کیا ہے۔
حامد میر نے اپنے انٹرویو کے جواب میں سیاست و صحافت کے طلبہ کو بھٹو کی دو کتابیں پڑھنے کا حسین مشورہ دیا تھا، میں سیاست و صحافت کےطلبا کو اپنے عہد کے جواں سال حامد میر کی کہانی پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں، سیاست و صحافت کے طلبا ء یقین کریں، ان کی مسافت کی یہ ایک جست انہیں منزل کے آخری سنگ میل پر پہنچا دے گی۔ اب آیئے! پھر دعائوں میں مصروف ہو جائیں۔ فرمایا ’’میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں‘‘۔
تازہ ترین