• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی گزشتہ ماہ دی ہیگ میں بین الااقوامی نیو کلیئر کانفرنس میں شرکت کے بعد ان دنوں یورپ کے اخبارات پاکستان و بھارت کے باہمی تعلقات کے حوالے سے مضامین شائع کر رہے ہیں، حال ہی میں لئے گئے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کے ایک انٹرویو کی ہائی لائٹس کو ہالینڈ کے ایک اخبار نے بھی شائع کیا، ہالینڈ ہی کا ایک سنجیدہ اور دانشوروں میں مقبول روزنامہ فوکس کرنٹ بھی گاہے گاہے اپنے مضامین و تبصروں میں برصغیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی کے بارے میں اخبار لکھتا ہے اگر دونوں ملک چاہیں تو ہم (یورپی ممالک) مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ مسائل کا حل دونوں ممالک باہمی طور پر تلاش کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات نہ صرف خطے بلکہ ساری دنیا کیلئے اہمیت رکھتے ہیں، جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسیوں کے تعلقات میں تلخی کے اثرات خطے سے باہر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اخبار آگے چل کر لکھتا ہے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے اپنی تقریروں اور بیانات میں کئی بار اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد برصغیر کے ہندوئوں اور مسلمانوں کیلئے اچھے دوستوں اور ہمسایوں کی طرح رہنا ممکن ہو جائے گا،انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات دیکھنے کے خواہشمند ہیں جیسے تعلقات امریکہ اور کینیڈا یا اسپین اور پرتگال کے درمیان ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں پائیدار امن و استحکام و دوستی بے حد ضروری ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا کا یہ علاقہ اور بھی خطرناک ہوگیا ہے جیسے کروڑوں (صحیح تعداد سوا ارب) انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوں، کسی بھی لمحے جنونی سیاستدانوں اور فوجیوں کا دماغی توازن بگڑ جائے تو بستیاں ویران ہوسکتی ہیں اور بسے بسائے شہر آن کی آن میں قبرستانوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمالیہ کی بلندیاں بھارت اور چین کی دوستی میں حائل نہیں ہوسکتیں تو کیا کارگل یا کشمیر کی پستیاں بھارت اور پاکستان کی دوستی کا راستہ روک سکتی ہیں، ہمارے دانشوروں کو آج اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے۔ یہ طے ہے کہ آج نفرت اور دشمنی کے اندھیروں کی جگہ محبت اور دوستی کی روشنی کی ازحد ضرورت ہے، اس مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے یہ سوچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا۔ یہ بات بھی شک شبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان اور بھارت دو خود مختار ملک ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری تہذیب و تمدن ہماری مشترکہ تاریخ، ہمارا کلچر اور ہماری زبان و ثقافت کے رشتے بہت مضبوط ہیں۔ ہمارے عوام کے جذبات، خیالات اور احساسات ایک ہیں تو ہمارے دل بھی ایک ہوسکتے ہیں، جہاں ہمارے مسائل ایک ہیں وہاں ہمارے وسائل بھی ایک جیسے ہیں، ادب اور شاعری کے موضوعات بھی وہی ہیں اور فلسفہ و فکر و فن کے ہمارے پیمانے بھی وہی ہیں، ہمارا درد و کرب بھی ایک خوشی و غمی بھی ایک سوچنے کا انداز بھی ایک ہے اور ہمارے خواب بھی ایک ہیں ان خوابوں کی تعبیر بھی ایک ہو سکتی ہے اگر ہم اپنے دلوں سے کدورت اور نفرت کا میل دھو ڈالیں۔ ہم دونوں ملکوں، ملکوں کے عوام کی دوستی اس خطہ میں جسے برصغیر کہتے ہیں پائیدار امن و سلامتی کی ضامن ہوگی۔ ذرا ہمارے ہندوستانی بہن بھائی اس بات پر غور کریں کہ نورجہاں، ریشماں اور عابدہ پروین کے نغموں، فیض، فراز اور قتیل کی غزلوں کے بغیر کیا ان کا ادب و فن مکمل ہوسکتا ہے؟ کیا مہدی حسن، غلام علی اور نصرت فتح علی کی آوازوں سے بھارت کا کوئی گھر بچا ہوا ہے؟ کیا پاکستان کی ہر بستی کی ہر گلی کے ہر گھر سے محمد رفیع، طلعت، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، مناڈے، مہندر کپور، جگجیت سنگھ، دلیر مہدی اور اب عدنان سمیع کی آوازیں صبح سے شام اور شام سے رات گئے تک کانوں میں نہیں گونجتیں؟ عدنان نے تو اپنی بقیہ زندگی بھارت میں ہی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کیا یہ دو لازوال فنکار جن کا نام دلیپ کمار اور لتا منگیشکر ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک پل کا کام نہیں دے رہے؟ اور کیا ہندوستان میں نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلم اسی دن پاکستان میں نہیں دیکھ لی جاتی؟ اگر یہ سب کچھ عوام، دونوں ملکوں کے عوام کے ہاتھوں انجام پارہا ہے تو پھر حکومتوں کے درمیان جھگڑا کیسا ہے؟ گزشتہ پچاس برس سے ہم لڑتے بھڑتے رہے ہیں ایک مسئلہ بھی حل کر نہ پائے بلکہ مسائل کے ڈھیر میں اضافہ پر اضافہ کرتے چلے گئے۔ اتنی جنگوں کے بعد اب ’’وقفہ امن‘‘ ضروری ہے تاکہ ہم پھر لڑسکیں جہالت اور بیماری کے خلاف، مفلسی اور محتاجی کے خلاف، تعصب اور تنگ نظری کے خلاف،یہ جنگ ہمیں مل کر کندھے سے کندھا ملا کر کرنی پڑے گی جس کے بغیر ہم لاکھ کوشش کریں کامیابی اور حقیقی ترقی کا ایک زینہ نہیں چڑھ سکتے۔ آج دونوں ملکوں کو بہت سی پیس فائونڈیشن، امن کمیٹی، پریم سبھا، فرینڈ شپ سوسائٹی اور بھائی چارہ پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کو قریب لایا جا سکے کہ ہم شدت پسندی، دراندازی اور تخریب کاری کی راہ چھوڑ کر تعمیر و ترقی اور تعاون، عمل کی راہ اختیار کرسکیں دونوں ملکوں میں انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والوں کو انسانیت کی شمع جلانے والوں کو اعزازات دیئے جانے چاہئیں۔ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جمہوری ملک بھارت کے وزیراعظم اور پاکستان کے وزیراعظم نے جہاں دوسرے محاذ کھول رکھے ہیں اس’’امن کے محاذ‘‘ پر بھی غور فرمائیں گے کہ ہم دوستوں کو دشمن بنانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں لیکن دشمنوں کو دوست بنانے کی اہلیت حاصل نہ کر سکے۔ آج آپ کو ضمیر کی آواز پر توجہ دینی ہوگی۔
تازہ ترین