• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت نے ٹیکسوں اور توانائی کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کرنے اور بچتوں میں اضافہ کرنے کے بجائے بیرونی قرضوں، امداد، تحفے تحائف، منفعت بخش اداروں کی نج کاری، مہنگی شرح سود پر خود اپنی توقعات سے چار گنا رقوم کے یورو بانڈز فروخت کرنے اور روپے کی قدر میں مصنوعی طور سے بہتری لانے کی پالیسیاں اپنائی ہیں۔ ان کے نتیجے میں حکومت کو کچھ عرصے کے لئے تن آسانی میسر آگئی ہے، بیرونی قرضوں کا ملکی کرنسی میں حجم کم ہوگیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوگیا ہے مگر یہ بہتری صرف عارضی ہی ثابت ہوگی۔ گزشتہ 10ماہ میں ٹیکسوں کے ضمن میں اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے تحفظ کے لئے موجودہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، ان سے قومی خزانے کو کئی ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ یہ امر تکلیف دہ ہے کہ ان نقصانات کو پورا کرنے کے لئے بیرونی وسائل پر بے تحاشہ انحصار بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کی بھاری قیمت 20کروڑ عوام اور معیشت کو آنے والے برسوں میں چکانا پڑے گی۔ اندازہ ہے کہ 2014ء میں حکومت کو بیرونی وسائل بشمول نج کاری و ترسیلات وغیرہ سے تقریباً 28ارب ڈالر مل سکتے ہیں جبکہ 19کروڑ عوام سے ٹیکسوں کی مد میں صرف تقریباً 25 ارب ڈالر وصول ہونے کی توقع ہے۔ حالیہ تاریخ میں پاکستان جیسے بڑی آبادی والے کسی دوسرے ترقی پذیر ملک میں ملکی وسائل کے مقابلے میں بیرونی وسائل پر اتنا زیادہ انحصار کی شاید ہی کوئی اور مثال موجود ہو۔ امریکی سفارش پر بیرونی قرضے لیتے چلے جانے کے صلے میں آخرکار دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ کے امریکی مطالبات کو حکومت پاکستان کو ماننا پڑ سکتا ہے جس کے نتائج کا سوچ کر خوف آتا ہے۔
پائیدار معاشی ترقی کے لئے مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں، بچتوں اور سرمایہ کاری کی شرحیں بڑھانا بنیادی شرط ہوتی ہے۔ موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے 150؍ارب روپے کم رہ سکتی ہے جبکہ جولائی سے مارچ 2014ء کی مدت میں سرمایہ کاری کا حجم مایوس کن حد تک کم رہا۔ داخلی بچتوں کی طرف حکومت اور اسٹیٹ بینک کی توجہ ہے ہی نہیں۔ چند روز قبل وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی نے توانائی کے شعبے میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ سرکلر قرضوں کا حجم ایک مرتبہ پھر 400؍ارب روپے تک پہنچ رہا ہے۔حکومت پاکستان امریکہ سے اتحادی امدادی فنڈ کے تحت 3400 ملین ڈالر (تقریباً 340؍ارب روپے کی رقم سے دستبردار ہوچکی ہے اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کو بھی غلط حقائق بتائے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے 7.25فیصد اور 8.25فیصد سالانہ شرح سود پر دو ارب ڈالر کے یورو بانڈز فروخت کئے ہیں۔ اس سے چند روز قبل سری لنکا نے 5.125 فیصد سالانہ اور یونان نے جس کی کریڈٹ ریٹنگ پاکستان سے دو درجے نیچے ہے 4.95 فیصد سالانہ شرح سود پر 5برس کی مدت کے لئے یورو بانڈز فروخت کئے تھے۔
ایسا نظر آرہا ہے کہ حکومت نے اونچی شرح سود دے کر ان سیاستدانوں اور دوسرے طاقتور طبقوں کو فائدہ پہنچایا ہے جنہوں نے پاکستان سے ٹیکس چوری کرکے اور قومی دولت لوٹ کر خطیر رقوم ملک سے باہر منتقل کردی تھیں۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت کے 5سالہ بانڈز پر1. 8فیصد سالانہ سود ملتا ہے جبکہ حکومت پاکستان نے 5سالہ بانڈز پر 7.25فیصد سالانہ اور 10سالہ بانڈز پر 8.25فیصد سالانہ سود کی پیشکش کی ہے۔ ہم انہی کالموں میں گزشتہ برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کی میعادی ڈالر ڈپازٹس پر 4.5 فیصد سالانہ سود دیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں روپے کی قدر میں اوسطاً 6 فیصد سالانہ کمی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ عملاً حکومت کو ان بانڈز پر 13.25اور 14.25 فیصد سالانہ سود ادا کرنا پڑے گا جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے مگر اس کا فائدہ ایک چھوٹے سے طبقے کو ہوگا چنانچہ بانڈز کا یہ اجراء خسارے کا سودا ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے منفعت بخش اداروں بشمول او جی ڈی سی کے حصص غیر ملکیوں کو فروخت کرنے کا حکومتی فیصلہ بھی یقیناً خسارے کا سودا ہے اور آگے چل کر اس سے قومی سلامتی کے لئے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، یہ فیصلہ منسوخ ہونا چاہئے۔بیرونی وسائل پر انحصار بڑھانے، منفعت بخش اداروں کی نج کاری کرنے (یا ان کے حصص فروخت کرنے) طاقتور طبقوں کو چھوٹ و مراعات دینے، ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے، معیشت کو دستاویزی بنانے کی حوصلہ شکنی کرنے، غلط حقائق و اعداد و شمار پیش کرنے اور معیشت کے شعبے میں کامیابیوں کے غیر حقیقت پسندانہ دعوے کرنے کی موجودہ حکومت کی پالیسیاں مشرف دور سے گہری مماثلث رکھتی ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں ہم تواتر سے کہتے رہے تھے کہ معاشی ترقی کے دعوے سراب ہیں۔ چند مزید گزارشات یہ تھیں:۔
1۔ ’’بیرونی شعبے میں یقیناً اتنی بہتری آئی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس بہتری کا بڑا حصہ آئندہ برسوں میں برقرار نہیں رہے گا۔‘‘ (جنگ 25 /فروری 2003ء)۔
2۔ ’’اگر انقلابی اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو روپے کی قدر تیزی سے گرسکتی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اُڑ سکتے ہیں چنانچہ اقتصادی معجزہ دکھانے کے حکومتی دعووں کی کوئی حیثیت نہیں‘‘ (جنگ 8 /اگست 2006ء)
3۔ آنے والے برسوں میں معیشت بحران کا شکار ہوسکتی ہے اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑ سکتے ہیں‘‘۔ (جنگ 3/اپریل 2007)۔
4۔ ’’غیر معیاری و پریشان کن بیرونی سرمایہ کاری مہنگی قیمت پر حاصل کی جارہی ہے‘‘ اور ’’منفعت بخش اور حساس قومی ادارے غیر شفاف طریقے سے غیر ملکیوں کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ یہ تباہی کا نسخہ ہے‘‘۔ (جنگ 24/جولائی 2007ء)۔
5۔ ’’بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے قومی اثاثوں کو فروخت کرنا تباہی کا نسخہ ہے‘‘۔ آنے والے برسوں میں معیشت کی شرح نمو برقرار نہیں رہے گی۔‘‘ (جنگ 13/نومبر 2007ء)۔
2003ء اور 2007ء کے پانچ برسوں میں پیش کئے گئے ہمارے مندرجہ بالا خدشات کے عین مطابق پاکستانی معیشت 2008ء میں بحران کا شکار ہوئی، روپے کی قدر تیزی سے گری، زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اُڑ گئے اور پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس گیا۔ ہم نے 9دسمبر 2008ء کو انہی کالموں میں لکھا تھا کہ 2012ء میں بحران کی زد میں آکر پاکستان آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لے گا (یہ قرضہ 2013ء میں لیا گیا)۔ہم نے پھر لکھا تھا ’’آنے والے برسوں میں بھی 5 فیصد سالانہ کی پائیدار شرح نمو حاصل نہیں کی جا سکے گی۔ (جنگ 8/فروری 2009ء)۔ ہماری یہ بات بھی درست ثابت ہوئی ہے۔
اب ہم یہ بات کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ موجودہ حکومت معیشت کو کمزور بنیاد پر استوار کررہی ہے چنانچہ کچھ عارضی بہتری تو نظر آئے گی مگر 2018ء میں معیشت مشکلات کا ہی شکار ہوگی۔ الّا یہ کہ معاشی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔
تازہ ترین