• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کا محاورہ ان دنوں موجودہ حکومت پر صادق آتا ہے۔ دائیں ہاتھ کو علم نہیں کہ بایاں ہاتھ کیا کررہا ہے۔ مثلاً حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد حکومت کا طرز عمل کیا اس بات کا آئینہ دار نہیں کہ مختلف وزارتوں کے مابین کوئی تال میل ہے نہ وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں میں کسی قسم کی فکری ہم آہنگی۔
وزیراعظم نے حامد میر کی عیادت کی اورایک لحاظ سے اظہار یکجہتی بھی، وفاقی وزیر اطلاعات نے بیان داغا کہ حکومت دلیل والوں کے ساتھ ہے، غلیل والوں کے ساتھ نہیں اور ایک شخص پر الزام آئی ایس آئی کے ادارے پر الزام نہیں مگر وفاقی وزیر داخلہ کی سوچ قطعی مختلف ہے وہ دفاعی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کو تشویش ناک اور قابل مذمت سمجھتے ہیں اور وزارت دفاع پیمرا سے جیو گروپ کا لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست کرتی ہے جس کے انچارج میاں صاحب اورحامد میر کے جگری دوست خواجہ آصف ہیں۔ من چہ می سرزئم و طنبورئہ من چہ سی سرائل۔
جلد بازی میں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹربیونل بنانے کا مقصد کیا تھا اور لائسنس منسوخی کی درخواست دائر کرنے کا مدعا کیا ہے؟ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ عام آدمی حیراں ہے کہ وزیروں کی منڈی میں سے کس کی بات پر یقین کرے اور کسے محض شلجموں سے مٹی جھاڑنے کی سعی نامشکور سمجھے۔
کس کا یقین کیجئے، کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
کون نہیں جانتا کہ حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد اہل خانہ بالخصوص بھائی اپنے عزیز از جان بلکہ عزیز جہاں بھائی کی صحت و سلامتی کے حوالے سے کس جذباتی کیفیت کا شکارتھے صرف بھائی عامر میر نہیں حامد میر کے سارے دوست، کولیگ اور جیو گروپ کے مالکان و کارکن ہیجان و اضطراب میں مبتلا اور اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار۔ عزیز بھائی، دوست اور کولیگ موت و حیات کی کشمکش سے دوچار آپریشن تھیٹر میں پڑا ہو تو توازن و اعتدال کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھنا آسان نہیں۔اونچ نیچ بشری تقاضہ ہے۔
حکومت اور اس کی وزارت اطلاعات، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ ابتدائی دو دنوں کے درمیان بھنگ پی کر سوتی رہی، یا پھر ٹی وی سکرینوں پر مرغوں کی لڑائی دیکھنے میں مصروف۔ کسی کو صحافتی حدودوقیود برقرار رکھنے کا خیال آیا نہ قومی اداروں کی عزت و احترام کے حوالے سے رگ حساسیت پھڑکی۔ جیو گروپ کی مقبولیت سے خائف عناصر نے جب مخالفانہ مہم کا آغاز کیا اورپوری دنیا میں آئی ایس آئی پر الزامات کی گونج سنائی دی تو حکومت شانت رہی شائد وہ میڈیا کی باہمی لڑائی کے علاوہ آئی ایس آئی کی کردار کشی کو بھی اپنے لئے مفید خیال کرتی تھی ورنہ تین روز کی خاموش کا موقع تھا نہ جواز؟
اب حکومت نے انگڑائی لی ہے کہ انتہائی بھونڈے انداز میں دلیل والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ اورجیو گروپ کا لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست۔ اک معاملہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانےکا۔ اپنے آپ کو جیو پر چاند ماری کرنے والوں کی صف میں کھڑا کرنے کے بعد پرویز رشید سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ کیا یہ حکومتی صفوں میں انتشار ، اختلاف اور کھینچاتانی کا شاخسانہ ہے یا کوئی نئی واردات؟ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
جنرل پرویز مشرف غداری کیس سے لے کر حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے معاملے تک حکومت نے ہر معاملے میں جلد بازی، ژولیدہ فکری اور حماقت کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ ناقدین جب یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت نے حامد میر پر حملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا تو انہیں مطمئن کرنا آسان نہیں۔ ناقدین اس بدگمانی کا شکار ہیں کہ حکومت فوج اورآئی ایس آئی کو دبائو میں لا کر اپنا مخصوص ایجنڈا مکمل کرنا چاہتی ہے۔ گیم پلان یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی جیسے دفاعی ادارے سول حکومت کو اپنی تابعداری، وفاداری اور اطاعت گزاری کی یقین دہانیاں کراتے رہیں۔ اپنے اعمال و افعال کے حوالے سے وضاحتیں پیش کرنے میں مصروف اور اپنی عزت و وقار کے تحفظ کے لئے تگ و دو پر آمادہ جبکہ اس دوران حکومت بھارت سے تجارت، طالبان سے مذاکرات اور اہم قومی اداروں کی نج کاری، چہیتوں میں بندربانٹ کے معاملات اپنی مرضی اور منشا کے مطابق طے کرے۔ کوئی اس کی گھاتوں اور وارداتوں سے باخبر ہو نہ ہاتھ روکنے کے قابل۔ مگر اخلاقی جرأت اور بلند تہی کا یہ عالم کہ پتا بھی ہلے اور جھینگر کی آواز بھی آئے تو اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں اور یہ معذرت خواہانہ وضاحتوں پر اتر آتی ہے۔
دفاعی اداروں کو فرمانبردار بنانے کا عزم، میڈیا کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کی خواہش اور اپنی مرضی سے معاملات چلانے کے ارادے مگر اہلیت و صلاحیت اس قدر بھی نہیں کہ ایک میڈیا گروپ اور دفاعی ادارے کے مابین چپقلش و تنازع کو آمنے سامنےبٹھا کر حسن تدبر سے حل کیا جائے اور اہانت ِ قانون کا کوڑا اور پیمرا قواعد کو استعمال کرنے تک نہ بچے۔ جیوگروپ کے خلاف حکومتی درخواست دفاعی اداروں کو خوش کرنے کی تدبیر ہے یا عالمی میڈیا اور برادری کے سامنے اس کا سفاک چہرہ مزید نمایاں کرنےکی سوچی سمجھی سازش؟ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی یہ حرکت بالآخر کس کے گلے کا پھندا بنے گی؟ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
آزادی ٔ صحافت پرحملے کو کاروباری رقابت، گروہی بغض و عناد اورپیشہ وارانہ حسد کی بھینٹ چڑھا کر ہمارے صحافی بھائی، حکمران اور دانشور کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ہر ایک کو سوچنا ضرور چاہئے۔ یہ عشروں کی جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی آزادیٔ صحافت کو پلیٹ میں رکھ کر حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کے سپرد کرنے کے مترادف ہے اور صاف گوئی اور جرأت اظہار سے ہمیشہ کے لئے دستکش ہونے کی سعی نامشکور۔ ورنہ جمہوری حکومت معاملہ فہمی او ر رنجشوں کے خاتمے پر توجہ دیتی۔ آئی ایس آئی کی درخواست کو فرد ِ جرم میں تبدیل کرنے میں پیش پیش نہ ہوتی۔
حامد میر کو صورتحال کا علم ہوا تو سوچیں گے ضرور کہ ان کے دوست میاں نوازشریف، خواجہ آصف اور پرویز رشید نے خوب حق دوستی ادا کیا۔ دعوے پہاڑوں سے ٹکرا جانے کے تھے۔ سول بالادستی کے خواہشمندوں کو بانس پر چڑھا کر اپنا الّو سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر مشکل وقت پڑا تو غلیل والوں کے ساتھ کھڑا ہونے میں ذرا بھر دیر نہ لگائی؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفانِ آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آگئے
یابآں شورا شوری یا بایں بے نمکی یہ جری اس ملک کو سول بالادستی سے ہمکنار کریں گے!
تازہ ترین