• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزادی اظہار کے بنیادی حق کے صریحاًمنافی رویہ اختیار کرتے ہوئے بعض عناصر کی جانب سے ملک کے مقبول ترین ٹی وی چینل جیو نیوز اور جنگ گروپ کے اخبارات کے خلاف آئین و قانون سے بالاتر کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں واقع فوجی چھاؤنیوں میں جیو کی نشریات بند کرادی گئی ہیں اور اخبار فروشوں کو روزنامہ جنگ اور دی نیوز تقسیم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔منظر عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق دھونس اور دھمکی سے کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ، ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان، مری، اوکاڑہ اور پشاور کے فوجی اور شہری علاقوں میںجیو کی نشریات بند کرادی گئی ہیں جبکہ بعض مقامات پر جیو کو آخری نمبر پر ڈال دیا گیا ہے۔جیو اور جنگ گروپ کے خلاف غداری اور ملک دشمنی کے الزامات بھی بڑے زور و شور سے عائد کئے جارہے ہیں۔جیو کے ساتھ یہ سلوک جس بناء پر ہورہا ہے وہ واضح طور پر یہ ہے کہ جیو سے وابستہ ممتاز صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد ان کے وہ بیانات ریکارڈ پر لے آئے گئے جن میں انہوں نے خود کو موصول ہونے والی مسلسل دھمکیوں کی بنیاد پر اپنے قتل کئے جانے کی کوشش کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یقین کی حد تک اس شبہ کا اظہار کیا ہے کہ ایسی کارروائی ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی اور اس کے سربراہ کی جانب سے متوقع ہے۔ حامد میر کے یہ بیانات فی الواقع موجود تھے اور انہیں سامنے لانا ایک حقیقت کا اظہار تھا جبکہ ملک کی خفیہ ایجنسیوں میں شامل بعض عناصر کے اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا تاثر پہلے ہی سے عام ہے۔ملک کے مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد کے لاپتہ ہونے اور ان میں سے بہتوں کی لاشیں سڑکوں پر ملنے کے جو مقدمات ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں پہنچے، ان میں خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ داروں سے کڑی باز پرس کی گئی اور بہت سے لاپتہ افراد ان کی جانب سے عدالتوں میں پیش بھی کئے گئے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے روبروآئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشایہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ماضی میں ’’آئی ایس آئی نے کئی لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے جن میں نیک نام شخصیات بھی شامل ہیں۔‘‘ جنرل مشرف کے ایسے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے آئی ایس آئی میں خراب عناصر کی موجودگی اور ان کی جانب سے غلط کارروائیاں کئے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ان کے علاوہ بھی متعدد فوجی افسر اور سیاستداں آئی ایس آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کے غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات کی نشان دہی اور ان پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ ایبٹ آباد کمیشن نے بھی خفیہ ایجنسیوں میں اصلاحات کی ضرورت کا اظہار کیا تھا مگر اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔معروف صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے بھی آئی ایس آئی کو الزام سے بری نہیں کیا تھا بلکہ قانون سازی کے ذریعے بڑی خفیہ ایجنسیوں کے احتساب کا نظام وضع کرنے کی سفارش کی تھی۔ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے تنقید دنیا کے کسی مہذب جمہوری ملک میں کوئی جرم نہیں بلکہ ملک کے دیگر اداروں کی طرح میڈیا ان کا بھی محاسبہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اخبارات و جرائد کے ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای نے گزشتہ روز اپنے ہنگامی اجلاس میں کسی چینل یا اخبار کی بندش قبول نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے سیمینارمیں دہشت گردی کے خلاف فوج اور ایجنسیوں کی قیمتی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کے حق کا تحفظ کرنے اور کسی خبار یا چینل کی بندش کی صورت میں اس اقدام کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی کسی خفیہ ایجنسی پر کسی غیرقانونی معاملے میں ملوث ہونے کے حوالے سے شبہ کا اظہار کوئی انوکھی بات ہے نہ شجر ممنوعہ۔ اس پر غداری کے فتوے جاری کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس قسم کا ردعمل تاریخ کے دھارے کے خلاف چلنے کے مترادف ہے۔دنیا بھر میں آزادی اظہار کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جارہی ہے۔ اسے محدود کرنے کی مہم چلانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم دنیا کو اپنے دور جہالت کی جانب مراجعت کا پیغام دے رہے ہیں جسے کسی بھی صورت قومی مفاد کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
طالبان سے پھر مذاکرات
وزیراعظم نوازشریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہدایت کی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل جہاں رکا تھا وہیں سے شروع کیا جائے کیونکہ ملک میں امن و امان کا قیام ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
حکومت اور طالبان کے مابین رابطہ کے فرائض ادا کرنے والی کمیٹیوں کے درمیان گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے تعطل کی سی کیفیت نظر آرہی تھی جس سے بعض حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ معاملہ نہ صرف یہ کہ ڈیڈلاک کی طرف بڑھتا نظر آ رہا تھابلکہ اس کے مکمل طور پر بے نتیجہ اور بے ثمرہونے کے امکانات بھی بڑھ رہے تھےکیونکہ طالبان کمیٹی کے بعض ذمہ داران کی طرف سے شکایات منظرعام پر آرہی تھیں کہ حکومتی کمیٹی پورے طور پربااختیارنظر نہیں آتی بلکہ یہ بھی کہ ان مذاکرات کو جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جانا چاہئے اس کی کوئی کوشش ہوتی دکھائی نہیں دے رہی جس سے معاملات کے واپس خانہ ٔ اول میں پہنچ جانے کے خطرات سر اٹھانے لگے تھے کیونکہ طالبان نے جنگ بندی میں توسیع سے انکار کردیا تھا لیکن اس ساری مشکلات اورتحفظات کے باوجود طالبان نے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے حکومت اور طالبان کمیٹی دونوںپرامید تھے کہ طالبان سے بات چیت کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ بند نہیں ہوگا۔سو یہی ہوااور اب وزیراعظم کی جانب سے اس سلسلے میں متعلقہ حکام اور دیگر ذمہ داران سے بریفنگ لینے کے بعد طالبان سے مذاکرات جہاں رکے تھے وہیں سے شروع ہونے کی ہدایت کے بعد باور کیا جاتا ہے کہ اب مذاکرات کا یہ عمل دوبارہ آگے بڑھے گا اور اگر دونوں فریقوں نے تحمل و بردباری سے انہیں بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کی جانب پیش قدمی جاری رکھی تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کامیاب نہ ہوں یہ معاملہ بے حد پیچیدہ اور کٹھن ضرور ہے لیکن اگر خلوص نیت سے قیام امن کے لئے موثر کوششیں کی جائیں تو اس کا حل ضرور نکل سکتا ہے۔

خوشخبری 3G:کلب میں داخلہ
بدھ کے روز پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کے زیرانتظام 3G کے چار اور4G سپیکٹرم کے ایک لائسنس کی نیلامی کاعمل مکمل ہوا جس کے نتیجے میں حکومت کو ایک ارب 11 کروڑ 28لاکھ 20 ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم حاصل ہوگی جس کا پچاس فیصد کمپنیاں ڈائون پے منٹ کریں گی ،5قسطیں اداکریں گی جبکہ 10,10 فیصد کی تین قسطوں میں ادائیگی ہوگی۔ 4Gکے ایک لائسنس کی نیلامی بعد میں ہوگی۔ اس نیلامی میں حصہ لینے اور اس منظر نامے کو ابھرتے ہوئے دیکھنے والوں کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان اب پورے اہتمام کے ساتھ 3Gکلب میں شامل ہو رہا ہے جہاں اس کے باسیوں کو تیزرفتار انٹرنیٹ اور دیگر متعدد سہولتیں موبائل ہینڈ سیٹ پر دستیاب ہوں گی۔ چیئرمین پی ٹی اے نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس نیلامی سے حاصل ہونے والی خطیر رقم بجٹ ٹارگٹ حاصل کرنے کی جانب اٹھایا جانے والا محض ایک قدم ہے جبکہ اس سے تقریباً 9لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور تیزترین سروسز سے ہمارے ملک کو اپنی صحت، تعلیم اور مالی معیارکو بہتر بنانے میں قابل ذکر مدد ملےگی۔
کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 3Gاور4Gکے استعمال سے پاکستان مواصلات کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا اور یہاں ٹیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کی آمد براڈ بینڈکی موجودہ2 فیصد سے بھی کم شرح نفوذ کو تین سال میں 10 فیصد تک پہنچا دے گی جس سے جی ڈی پی میں سالانہ 1180 روپے کا فائدہ ہوگا اورٹیکسوں کی مد میں 23ارب 70کروڑ روپے تک آمدن ہوگی۔ اس مختصر سی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ 3Gاور 4G ٹیکنالوجی کے عہد میں داخل ہونے سے وطن عزیز کوتیزرفتار مواصلاتی سہولتیں ہی حاصل نہیں ہوں گی بلکہ اس سے ہماری قومی معیشت پر بھی نہایت مثبت اثرات مرتب ہوںگے اور باقی معاملات بھی اسی خوش اسلوبی سے طے پاتے گئے تو انشا اللہ ملک کی خوشحالی کی منزل قریب آجائےگی۔
تازہ ترین