• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو بڑے کہہ گئے ہیں، ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں کہ ذرا باہر نکل کر دنیا دیکھو۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کا حال کتابوں سے نہیں کھلتا۔ کانوں سنی بات میں بھی وہ بات نہیں جو کرامات خود اپنی آنکھوں کے مشاہدے میں ہے۔ مجھے یہ شرف کئی بار ملا ہے۔ دنیا کو قریب جا کر نہیں، اس کے اندر جاکر دیکھا ہے۔ اب تازہ واردات کا احوال سنئے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی بلاوا آیا اور سوچئے کہاں سے آیا۔ وہاں سے جہاں انگریز حکمرانی کے خلاف میدانِ جنگ سجایا گیا تھا۔ جہاں غیر ملکی حاکموں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے لوگ اپنے گھروں سے یہ کہہ کر نکلا کرتے تھے کہ وہ اپنے سروں کی قربانی دینے جا رہے ہیں۔ یہ تھی اندرونِ سندھ سانگھڑ کی سرزمین اور یہ علاقہ تھا اس تحریک کا جو حُرتحریک کہلائی اور اب جس کا ذکر سننے میں آتا ہو گا مگر مجھ تک نہیں پہنچتا۔
اپنے دوست راحت سعید کے ساتھ میں ترقی پسند مصنفین کے ساتھیوں خصوصاً منظور ملاح کی دعوت پر سانگھڑ گیا تو ایک بے خبری کے عالم میں گیا۔ اس علاقے اور اس کی تاریخ کے بارے میں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا البتہ حصولِ علم کا عمل شروع ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ یہاں جو علاقہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا، یہ سارا کا سارا کسی زمانے میں سادات کی گدّیوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان سب کے بزرگ عربستان سے سندھ آئے تھے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دے رہے تھے۔ ان میں سید علی مکی بھی تھے جو عباسی خلیفہ معتمد باﷲ کے زمانے میں پہنچے اور سہون کی قریب ڈیرہ ڈالا۔ ایک خلقت ان کی مرید ہوئی۔ ان کے بعد ان کی اولاد سے شاہ صدرالدین کے بے شمار مرید ہوئے۔ ان کا مزار سہون کے قریب لکی شاہ اسٹیشن سے لگا ہوا ہے۔کہتے ہیں کہ مقبرے کا گنبد نادر شاہ کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ انہی کی اولاد میں سید محمد بقا شاہ بھی تھے جن کا نسب پینتیسویں پشت میں جا کر حضرت علی ؓسے ملتا ہے۔ بہت ہی عابد، زاہد اور پرہیزگار تھے۔ انہوں نے ٹھان لی تھی کہ شادی نہیں کریں گے۔ ایک بار ان کے پیر نے شادی نہ کرنے کا سبب پوچھا تو سید صاحب نے کہا کہ معلوم نہیں اولاد نیک اور صالح ہوگی یا نافرمان نکلے گی۔ اس پر ان کے مرشد نے کہا کہ شادی سنت رسول ؐہے۔ شادی کرلو اور یقین رکھو کہ تمہاری اولاد سے قطب اور بزرگ پیدا ہوں گے،یہی ہوا۔ ان کے چار بیٹوں میں اول پیر محمد راشد روضے دھنی تھے جو سترہ سو ستاون میں پیدا ہوئے۔یہ وہی برس تھا جب بنگال میں انگریزوں کو نکال باہر کرنے کی جنگ لڑی جا رہی تھی۔
سید محمد بقا شاہ کی علم دوستی کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی سفر پر جاتے، کتابوں کی گٹھڑی سر پر رکھ لیتے تھے۔ ایک بار گڑھی یاسین کے قریب کہیں سستانے کے لئے لیٹے اور کتابوں کی گٹھڑی کا تکیہ بنا لیا۔اتفاق سے ادھر سے کچھ چور گزرے جنہوں نے یہ سوچ کر گٹھڑی میں دولت ہوگی، سید صاحب پر حملہ کرکے انہیں زخمی کردیا۔ جب گٹھڑی کھولی گئی تو اس میں علمی کتابوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسی دوران چوروں نے انہیں پہچان لیا اور معافی مانگنے لگے۔ سید صاحب نے کہا کہ اس میں تمہارا قصور نہیں، تم مجھے میرے گھر والوں کے پاس پہنچا دو تاکہ میں انہیں گواہ بنا کر تمہیں معاف کر دوں۔ سید صاحب کی شہادت دس محرم سترہ سو اناسی کو ہوئی۔
سید محمد راشد روضے دھنی نے زندگی دین اور علم و ادب کی ترویج کے لئے وقف کردی۔ یہی سبب ہے کہ خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں ایک چیئر ان کے نام سے منسوب ہے۔ پیر محمد راشد کی اولاد راشدی کہلائی۔ انہی میں پیر سید صبغت اﷲ شاہ راشدی خانقاہ کے سربراہ کی حیثیت سے گدی نشین ہوئے اور پگارا اوّل کہلائے پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ ان کے بھائی ناراض ہوئے تو مریدوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک مرشد کی اطاعت کریں گے اور صبغت اﷲ شاہ کا ساتھ نبھائیں گے۔ اس جذبے کی وجہ سے پیر صاحب نے مریدوں کو حُر کا لقب دیا ۔ وہی حضرت حر جو کربلا میں آخر دم تک امام حسینؓ کے وفادار بن کر رہے۔ پیر صاحب سندھ پر انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف جہاد شروع کرچکے تھے جسے حروں نے گوریلا جنگ کی شکل دے دی۔ یہ جنگ انگریزوں کے سو سالہ دور تک جاری رہی۔ ان کی پرانی درگاہ سے لگا دریا بہتا تھا جو اپنا رخ بدلنے لگااور باپ دادا کی قبریں زیر آب آنے لگیں تو پیر صاحب کے والد اور دادا کی قبریں کھلوائی گئیں اور ان کے تابوت اونٹوں پر لاد کر موجودہ درگاہ پیر جو گوٹھ لائے گئے۔ یہ کام ان کے بڑے بیٹے علی گوہر شاہ نے کیا جو باکمال شاعر تھے۔ انہوں نے اصغر تخلص کیا اور کافیاں کہیں۔ یہی سچل سرمست کا زمانہ تھا۔ اصغر سائیں بتیس سال کے تھے کہ انگریز اپنی چال چل گئے اور اپنے جاسوسوں کے ہاتھوں انہیں زہر دے دیا۔ پگارا خاندان کا یہ پہلا فرد تھا جو سازش کا شکار ہوا پھر یہ سلسلہ برسہا برس چلا۔ اسی دوران سندھ کے ٹالپر حکمران تخت نشینی کے جھگڑے میں الجھ گئے جس سے فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے کئی معاہدوں پر دستخط کرالئے اور دریائے سندھ میں جہازرانی کا حق حاصل کرلیا۔آزادی کی خاطر میدان میں اترنے والے سیاہ فام ہوش محمد شیدی نے لاکھ چاہا کہ روٹھے ہوئے شہزادے انگریزوں سے معاہدے نہ کریں لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ آخر مارچ اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر اپنی فوجیں لئے لڑائی کے لئے نکلے۔ گھمسان کا رن پڑا۔ جب کبھی میں اُس علاقے سے گزرتا ہوں، لوگ ہمیشہ بتاتے ہیں کہ اس جگہ ہوش محمد شیدی اور ان کے ساتھی لڑتے لڑتے شہید ہوئے تھے۔اب سندھ انگریزوں کا تھا۔اس کے بعد حروں اور انگریزوں کی جنگ جاری رہی۔نئے حکمرانوں نے حروں کا جینا حرام کردیا اور ان کو اذیت دینے لگے۔حر پھر بھی ڈٹے رہے اور انہوں نے سانگھڑ سرکار کے نام سے خود مختار حکومت قائم کرلی۔ بچو بادشاہ اور پیرو وزیراعظم کی یہ سانگھڑ سرکار آٹھ سال تک قائم رہی۔ادھر حُر گوریلوں نے مکھی بیلا کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ اس علاقے کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہاں سندھ کی دوسری سب سے بڑی قدرتی جھیل ہے۔ اس علاقے میں جنگل اتنے گھنے ہیں کہ وہاں دن میں بھی اندھیرا رہتا ہے۔ مکھی کے ان جنگلوں کو یہ نام شاید اس لئے ملا ہے کہ ان میں شہد کی بہتات تھی۔ کہتے ہیں کہ ہر درخت پر دو یا تین شہد کے چھتے ہوتے تھے جن سے مٹکے بھر بھر کر شہد حاصل ہوتا تھا۔بعد میں آبادی بڑھی تو درخت کٹنے لگے اور علاقے میں کاشت ہونے لگی۔ اس وقت جہاں سانگھڑ شہر ہے یہاں بھی جنگل ہی جنگل تھا۔ یہاں ایک قدرتی نہر تھی جس کے کناروں کو چرواہوں نے آباد کر رکھا تھا۔اس نہر کو سانگ کہا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے شہر کا نام سانگھڑ پڑا۔اس علاقے میں بے شمار جھیلیں اور چراگاہیں ہیں، بعض نہریں بڑی جھیلوں کے اندر اندر بہہ کر آگے نکلتی ہیں۔ ان کے درمیان بہت سارے ٹیلے ہیں جن پر سنا ہے کہ مالداروں کے گھر آباد ہیں اور علاقے کا منظر بڑا ہی دلکش ہے۔سکھر بیراج بننے سے پہلے بھی یہاں ہر طرف نہریں ہی نہریں تھیں۔
اس علاقے کا ایک اور عجوبہ دنیا نے بھلا دیا ہے۔ سانگھڑ سے شمال کی جانب پچیس کلو میٹر دور ایک مقام دُبی ہے۔ یہاں کبھی اسلحہ بنا کرتا تھا۔ یہاں ابو پوٹو قوم کے لوگ آباد تھے جن کے باپ دادا ہتھیار بنانے کے ماہر تھے۔ یہ کاریگر درانتی، کلہاڑی، تلوار، ڈھال، بھالے، خنجر اور چاقو سے لے کر بندوق تک تیار کرتے تھے۔ یہاں سکھ بھی رہتے تھے اور وہ حروں کو اسلحہ بھی فراہم کرتے تھے۔بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ دُبی میں بڑا کارخانہ تھا جس میں بہت سے مزدور کام کرتے تھے۔اس کارخانے میں تیس بھٹیاں تھیں جہاں گندھک اور قلمی شورے سے بارود تیار ہوتا تھا۔ ابو پوٹوں نے یہ مہارت ہندوستان کے سکھوں سے حاصل کی تھی اور خود سکھوں کو یہ ہُنر فرانسیسی اور پرتگالی اسلحہ سازوں نے سکھایا تھا۔ مشہور ہے کہ حروں نے جب علمِ بغاوت بلند کیا تو پہلی گولی دُبی کی بنی ہوئی بندوق سے چلی تھی۔اس سے آگے کی داستان ظلم وستم، جبر اور تشدد اور قتل اور غارت گری کی داستان ہے۔ انگریزوں نے حروں کو جرائم پیشہ گروہ قرار دیا اور ان پر سختیاں توڑیں۔ ہزاروں حروں اور ان کے بیوی بچوں کو کیمپوں میں محصور رکھا جاتا تھا اور اگر کوئی باہر نکلنے کی جرأت کرتا تو وہ مارا جاتا تھا۔ صرف بوڑھوں اور موت کے قریب لوگوں کو رہائی ملتی تھی۔علاقے کے کتنے ہی قبرستان انہی کی قبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔
کیساستم ہے کہ ہم ان لوگوں کو یاد نہیں رکھتے۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اردو زبان میں بہت کم کام ہوا ہے۔ اب پروفیسر محمد مبین وسان کی تحقیق کا اردو ترجمہ ہوا ہے۔ یہ تحریر انہی کی تحقیق پر مبنی ہے جس کے لئے میں شکر گزار ہوں۔
تازہ ترین