• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خرابیٔ صحت کے باوجود میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ کراچی جانے پر آمادہ ہو گیا۔ غالباً قدرت مجھے کچھ اہم واقعات کا گواہ بنانا چاہتی تھی۔ چوہدری رحمت علی میموریل سوسائٹی جو استحکام پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت اور قومی ہیروز کی یاد تازہ رکھنے کے لیے قائم ہے ٗ اُس کے سرپرست ِ اعلیٰ سردار شیر باز خاں مزاری ہیں جو ایک صاف ستھرے قومی لیڈر کی شہرت رکھتے ہیں۔ چوہدری الٰہی بخش اُس کے صدر ہیں جو معروف سماجی حیثیت کے مالک ہیں۔ اِس میموریل سوسائٹی نے ’’قائداعظم کا پاکستان اور چوہدری رحمت علی کا اعزاز‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کیا تھا۔ وقت چھ بجے شام کا تھا۔ ہم لاہور کے چاروں دوست پانچ بجے سہ پہر سیمینار میں جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ اچانک عالمی شہرت کے پاکستانی صحافی جناب حامد میر پر قاتلانہ حملے کی خبر جیو ٹی وی پر نشر ہوئی اور ہم سب سکتے میں آ گئے اور ہماری زبانوں سے بے اختیار اُن کی زندگی کے لیے دعائیں جاری ہو گئیں۔ہم بوجھل دل کے ساتھ آرٹس کونسل روانہ ہوئے۔ راستے میں عام آدمیوں کے چہروں پر اُداسی صاف نظر آ رہی تھی جو ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ بڑے شوق سے دیکھتے اور جناب حامد میر کی ذہانت ٗ بے باکی اور حاضر دماغی کی داد دیتے تھے۔ مغرب کی نماز کے بعد آڈیٹوریم کچھا کھچ بھرا ہوا تھا اور چوہدری رحمت علی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے علم و تحقیق اور صحافت کا ایک گلزار کہکشاں کھلا ہوا تھا۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل پروفیسر شریف المجاہد اور پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد وہاں موجود تھے۔ بلند پایہ محقق ڈاکٹر طاہر مسعود کے علاوہ لاہور سے معروف دانش ور ٗ کالم نگار اور وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف بھی کشاں کشاں آئے تھے جن کے خاندان اور قبیلے نے 1947ء میں ریفرنڈم کے ذریعے صوبہ سرحد کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا۔ سیمینار میں بڑی فکر انگیز باتیں ہوئیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو آزاد وطن دلانے میں جو جو فکری ٗ سیاسی ٗ دینی اور تحریکی اکابرین اور مجاہدین مختلف ادوار میں سرگرم رہے۔ وہ نکتۂ نظر میں اختلاف کے باوجود ایک ہی قافلے کے راہ رو تھے۔ وہ مردانِ حق جو کالا پانی کی جاں لیوا آزمائشوں سے گزرے ٗ وہ تحریکیں جو ریشمی رومال ٗ مجلس احرار اور خاکسار کے نام سے وجود میں آئیں ٗ اُنہوں نے انگریزوں کی ہیبت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اِسی طرح دیوبند کی درس گاہ نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ مزاحمت کی روحانی اور علمی غذا فراہم کی۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے دو قومی نظریے کی حمایت میں فکری فضا تیار کی اور سرسید احمد خاں کی علی گڑھ یونیورسٹی نے پاکستان کا نظم و نسق چلانے کے لیے افرادی قوت کا اہتمام کیا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں اپنے کتابچے ’’اب اور پھر کبھی نہیں‘‘ میں جو پاکستان کے حق میں دلائل پیش کیے اور جو الفاظ استعمال کیے تھے ٗ وہی دلائل اور وہی الفاظ حضرت قائداعظم نے 1940ء میں مسلم برصغیر کے عظیم اجتماع سے خطاب میں استعمال فرمائے تھے۔ چوہدری رحمت علی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نام تخلیق کیا تھا۔میں نے اپنی تقریر میں جناب حامد میر پر حملے کو آزادیٔ صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اِس کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ جناب نصیر احمد سلیمی کی تجویز پر سیمینار میں یہ قرارداد منظور ہوئی اور اُن کی صحت یابی کے لیے دعا بھی کی گئی۔
مجھے اپنا چیک اپ کرانے کے لیے چند روز کراچی میں قیام کرنا پڑا۔ میں اپنے عزیز دوست ڈاکٹر شفیق احمد کے ہاں قیام پذیر تھاجو انتہائی خوبصورت اور جدید سہولتوں سے آراستہ میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں وقت دے رہے ہیں۔ مجھے صحافیوں کے علاوہ سیاست دانوں ٗ دانش وروں ٗ تاجروں ٗ سول سوسائٹی کے نمائندوں سے کراچی کی صورتِ حال پر بات چیت کرنے کے اچھے مواقع ملے۔ جن احباب سے ملاقاتیں ہوئیں ٗ اُن میں سے بیشتر کا احساس یہ تھا کہ آپریشن کی وجہ سے معاملات میں بہتری آ رہی ہے اور عام تاثر یہ تھا کہ رینجرز اور پولیس کی مقامی قیادت خوش قسمتی سے فرض شناس ٗ دیانت دار اور مضبوط اعصاب کی مالک ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی جناب شاہد حیات کے بارے میں عام شہری یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایک سیاست زدہ پولیس فورس کے ذریعے بھی جرائم اور ٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر سے مل کر بہت اطمینان حاصل ہوا کہ وہ ایک بیدارمغز فوجی افسر ہیں اور حالات کی سنگینی کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ حالات میں جوہری تبدیلی لانے اور عام شہری کی حفاظت کو اپنا اوّلین فرض تصور کرتے ہیں۔ اُنہوں نے پولیس کے تعاون سے کچھ مثالی تھانے قائم کیے ہیں جن میں پروفیشنل تحقیقاتی افسر کام کر رہے ہیں۔ اُن کی شبانہ روز کوششوں سے مجرموں کو عدالتوں سے سزائیں بھی ہونے لگی ہیں۔ وہ مجھے بار بار یہ احساس دلاتے رہے کہ تیس برسوں کا گند چند مہینوں میں صاف نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے لیے سیاسی قوتِ ارادی کے علاوہ بروقت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ صحت مند سیاسی ارتقا کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے عسکری ونگ ختم کرنا اور مافیاؤں کی حمایت سے دست کش ہونا پڑے گا۔ وہ بتا رہے تھے کہ لیاری میں امن کی صورتِ حال پہلے سے خاصی بہتر ہے اور بھتہ خوروں کے پشتی بان قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں اور کچھ مقابلوں میں ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ ہمیں غیر معمولی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
کراچی میں حالات قدرے بہتر ہو رہے تھے کہ جناب حامد میر پر قاتلانہ حملے کا سانحہ پیش آ گیا جس کے منفی اثرات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے سرگرمی دکھائی نہ جیو ٹی وی نے اِس احتیاط کا مظاہر کیا جس کا عملی ثبوت جناب کامران خاں نے اگلی رات دیا اور معاملے میں اعتدال پیدا کرنے کی اچھی کوشش کی۔ میں نے جب پہلے پہل آئی ایس آئی کا نام سنا ٗ تو میں نے اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ آئی ایس آئی جیسی پروفیشنل انٹیلی جنس ایجنسی اتنا بھونڈا کام نہیں کر سکتی۔ ہم سب پر ایک ایسے وقت میں لازم آتا ہے کہ جب قومی قیادت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کے لیے کوشاں ہے ٗ ہمیں اپنے دفاعی اداروں کو کسی نئی آزمائش سے دوچار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہیجان سے باہر آنے کا فیصلہ کن لمحہ ہے ٗکیونکہ پاکستان کو ہیجان کی آگ میں دھکیل دینے سے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ ٹی وی اور اخبارات کی تنظیمیں میدان میں اُتریں اور ہیجان پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کریں۔ ایک امر طے ہے کہ آزادیٔ صحافت پر کسی قسم کی ناروا قدغن برداشت نہیں ہوگی ٗ لیکن ذمے داری کے ساتھ پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کا ایک مستحکم نظام بھی جلد وضع کرنا ہو گا ورنہ میڈیا عسکری آویزش پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
تازہ ترین