• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں عوامی سطح پر’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا باپ اسلام کو اور ماں جمہوریت کو قرار دیا جاتا ہے اور اسی تسلسل میں ان دونوں کے قصیدے بھی خوب پڑھے جاتے ہیں جس کی بنیاد ہمارا یہ مقبول نعرہ ہے’’پاکستان کا مطلب کیا ؟لاَاِلہَٰ اِلاّ اللہ‘‘ یعنی ہم ایسی بہادر اور خوددار قوم ہیں جن کا خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لیکن بالعفل مفاد پرست اور منافق ہر مقام پر حاوی ہیں ،اپنی ضروریات و مفادات کی مطابقت میں خدا تراشتے ہوئے ہم آذر کے بھی استاد ہیں، بت پرستی میں ہنود بھی ہمارا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہندوستان میں تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لوگ مہاتما گاندھی جیسے عظیم الشان بت کو بھی پاش پاش کردیتے ہیں جبکہ وطن عزیز میں نامی گرامی بتان قومی تورہے ایک طرف کوئی تنقید نگار کسی مقامی پر انگلی رکھ کر دکھا دے ایسا کرنٹ پڑے گا کہ ہوش اڑ جائیں گے۔
کہنے کو جمہوریت پاکستان کی ماں ہے کہ وطن عزیز اس کی کوکھ سے نمودار ہوا لیکن یہاں جتنی تذلیل اس ماں کی کی جاتی ہے دنیا میں شاید ہی کوئی ماں ہوگی جسے اس کے ناخلف بچوں کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر اتنا رسوا کیا جاتا ہوگا۔ یہ ماں ہر روز بے عزتی کرواتی ہے ،کڑوے گھونٹ پیتی ہے اور اچھے دنوں کی آس میں آنسو بہاتے جیتی ہے، ہر نئے دن اس کی تذلیل کے لئے جبر کی قوتیں بھیس بدل بدل کر نمودار ہوتی ہیں۔ ہماری اس بات پر جس کو شک ہے وہ جمہوریت کے ساتھ’’حسن سلوک‘‘ کا چھیاسٹھ سالہ ریکارڈ ملاحظہ فرمالے۔ اپنی حالیہ تاریخ میں ہی جھانک لیجئے محترمہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ منتخب ہونے والی وطن عزیز کی ایک جمہوری رہنما تھیں ۔ان کے والد مرحوم بھی ایک جمہوری شخصیت تھے ،آمریت کی جبری قوتوں اور ان کے پروردہ گماشتوں نے ان ہر دو جمہوری قیادتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ نواز شریف جیسے ٹھنڈے مزاج کے صلح جو رہنما کے ساتھ جبر کی نمائندہ قوتوں نے کیا رویہ اپنایا؟ قوم نے تو انہیں اپنے معتمد ا داروں کے ذریعے تین مرتبہ منتخب کرتے ہوئے سرآنکھوں پر بٹھایا ،ایوان اقتدار میں پہنچایا لیکن معلوم ہوا کہ اس ملک میں اقتدار کے مالک و وارث اس ملک کے کروڑوں عوام نہیں بلکہ کوئی اور ماورائی سپر قوتیں ہیں جن کی نظروں میں عوام کی حیثیت رینگنے والی مخلوق سے زیادہ کچھ نہیں۔
منتخب جمہوری قیادتوں کے بالمقابل جمہوریت کو رسوا کرنے والی آمریتوں کو سپاس نامے اور گارڈ آف آنر پیش کئے جاتے رہے ،جس ڈکٹیٹر نے اس مملکت خداداد کو دو لخت کردیا ہماری کوئی بھی عدالت ایسے قومی مجرم کو سزا دینے کی ہمت نہ کرسکی۔ ماضی کو کریدنے کی کیا ضرورت ہے آج کیا ہورہا ہے ؟ جس شخص نے دو مرتبہ آئین کا گلا گھونٹا، منتخب اسمبلیوں کا قتل عام کیا، جمہوریت کو دیس نکالا دیا۔ آج وہ کس کی اوٹ میں چھپا بیٹھا ہے؟ قانون اور پورے عدالتی نظام کا منہ چڑا رہا ہے سکیورٹی کے نام پر چاروں اطراف پھیلا پروٹوکول جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے جب چاہے وہ بیمار کا بھیس دھار لیتا ہے اور جب چاہے نوجوان کمانڈو کی طرح چھلانگیں مارتا ہے۔ بال کی کھال اتارنے والا قومی میڈیا بھی محض اس کی آنیاں جانیاں دیکھ پاتا ہے اور زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ ہم نے تو کچھ نہیں دیکھا، اگر کوئی خود سر بیباکی کا علمبردار بننے کی کاوش کرتا ہے تووہ حامد میر بنایا جاسکتا ہے، مزید زبان کھولنے کی کوشش کی تو سلیم شہزاد کے پاس بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ کون سا طبقہ زندگی ہے جس میں کالی بھیڑیں نہیں ہوتی ہیں۔ حکم دیا جاتا ہے کہ حقائق جب بھی واضح ہونے لگیں اتنی دھول اڑائو کہ وہ عوامی بصارت تک پہنچ جائے تاکہ اصلیت دھندلا جائے یوں منڈا منڈا ڈالنا آسان ہوجائے ویسے بھی جبر اور کنفیوژن کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے جن معاشروں میں آزادی اظہار پر قدغنیں ہوتی ہیں وہاں حقائق کبھی واضح نہیں ہوپاتے البتہ افواہوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے کنفیوژن اور فکری انارکی خوب پھلتی پھولتی ہے ۔ یہی کچھ وطن عزیز میں اس وقت ہورہا ہے، نتیجتاً صحافت کے ساتھ ساتھ جبری قوتوں کے سامنے قومی سیاست اور عدالت بھی بے بس و مفلوج ہے اگرچہ چیف جج صاحب فرمارہے ہیں کہ جوڈیشری آئین کا تحفظ کرےگی، قانون کی بالا دستی منوائے گی لہٰذا تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں لیکن اگر تو آپ آئین شکن ڈکٹیٹر کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تو شاید عام آدمی آپ کی اس بات کا یقین کرلے بصورت دیگر آپ کی بے بسی سب پر عیاں ہے۔ جمہوری سیاست کے لیڈران تک بے بسی کی تصوریر بنے ہوئے ہیں ،اللہ کے مشیروں نے روباہی کو ایک طرف رکھتے ہوئے حق گوئی و بیباکی کے لئے ذرا سا منہ کھولا تو کیا ہوا؟ ایسی منہ کی کھانی پڑی کہ دن میں تارے نظر آگئے۔وقار کے تحفظ جیسا سادہ سا فقرہ ہی تیر و تلوار کی دھار اور شیر کی دھاڑ پر حاوی تھا میثاق جمہوریت کے تحت منعقد ہونے والی ملاقات اور مشترکہ بیانات بھی جب کار تریاقی نہ کرسکے تو جمہوریت کی کاکول تک دوڑ لگ گئی، سہ مرتبہ منتخب ہونے والی لیگ اور اس کے ہر دلعزیز قائد کی بے بسی کس قدر عیاں ہے جسے اپنے ممنون جیسا ممنون بنانے کے لئے میرٹ کو اٹھا پھینکا تھا اب کہنے پر مجبور ہوگئے ،فرمایا’’اے میرے جوانو! اپنے جنرل کے کردار کو مشعل راہ بنالو‘‘ اے میرے پیارے ڈار قوم کے محسن تو نے ڈالر کے بالمقابل روپے کو جو عزت بخشوائی ہے تجھے اس کی قسم میرے ساتھ کھڑے ہو کر عہد کروکہ 709ارب کا نذرانہ قومی پیٹ کاٹ کر بھی پیش کرونگا۔ اے میرے بااعتماد صحافیو! اے وزارت دفاع کے عہدہ بلند پایۂ پر فائز خواجگان کے فرزند اگرچہ تمہارے ساتھ نامناسب سلوک ہوا ہے، آپ ہر دو محترم جمہوری شخصیات کی قدر افزائی نہیں کی گئی بلکہ الٹا بلیک ا ٓئوٹ کیا گیا ہے تو بھی زبان کو دانتوں کے نیچے لے لو جب میڈیا والوں کی طرف سے جملہ معترضہ بولا گیا کہ جس وزارت یا ادارے کی تقریب ہو اس کے متعلقہ وزیر یا وزیر اطلاعات موجود ہوں تو ان کی کوریج لازماً کی جاتی ہے ۔یہ روایتی ضابطہ ہمیشہ سے موجود ہے جواب ملا خاموش رہو جو کہا گیا ہے بس وہی کرو۔ منتخب قیادت کی یہ بے بسی کیا اہل دانش کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے جسے شک ہے وہ پانچ سال پورے کرنے والوں کی داستان بے بسی سن لے۔ ملتان کے محلہ گیلانی کی کتھا تو ریکارڈ پر ہے، گڑھی خدا بخش میں بلاّ بلاّ کا ورد کرنے والوں کو تو آپ چاہے دہاڑی دار یا باز کہہ لیں ’’شرفا‘‘ء پر تو کوئی اس نوع کا الزام بھی نہیں ہے۔ سیاسی صدر اگرچہ سپریم کمانڈر کہلاتا ہے لیکن اس نوع کے ہر عہدہ کیا محض نمائشی ہے؟ آئین جمہوریت اور منتخب اداروں کی یہ بے بسی کیا ان اٹھارہ کرڑو عوام کی توہین نہیں ہے جو اس ملک کے حقیقی وارث ہیں۔ ہماری وطن عزیز کے تمام اہل دانش سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں کہ وطن عزیز میں کس طرح تمام تر مضبوط اداروں پر منتخب پارلیمنٹ کی بالا دستی اور آئین و قانون کی حکمرانی و عملداری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین