• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ سال قبل کی بات ہے ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے احمد بلال صاحب نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا تھا ،جس میں خاص طور پر ریٹائرڈ جرنیلوں اور فوجی افسروں کی تنظیم ’’ایکس سروس مین سوسائٹی‘‘ کے سرگرم رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ان دنوں یہ ریٹائرڈ جرنیل جمہوریت کے بہت بڑے پرچارک تھے اور شاید اب بھی ہیں ۔اس مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا استحکام کیسے ممکن ہے ۔تقریب میں موجودہ وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ،سابق گورنر سندھ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر ،سابق گورنر پنجاب میجر جنرل (ر) شاہد حامد ،ممتاز دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر)طلعت مسعود اور دیگر ریٹائرڈ جرنیل موجود تھے ۔وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی قیمتی آراء سے مباحثے کے شرکاء کو نواز رہے تھے ۔ان کے لہجے میں جرنیلی اعتماد اور آواز میں فوجی دھنوں والی گھن گرج تھی ۔ان کے دلائل کے آگے ہتھیار ڈالنے کو جی چاہتاتھا ۔تقریب میں ہمارے بزرگ اور مہربان دوست غلام مصطفی خان ،مشتاق احمد فریدی اور دیگر’’ سویلین‘‘ بھی موجود تھے ۔اسی دوران راقم کی باری آئی تو میں نے جمہوریت کے علمبردار ریٹائرڈ جرنیلوں کو ایک واقعہ سنایا ۔یہ واقعہ 1996ء کا ہے ۔میں کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا ،جب بھارتی سرکاری ٹی وی چینل دور درشن لاہور میں دکھائی دیتا تھا ۔دیوگوڑا بھارت کے وزیر اعظم بنے تھے ۔انہوں نے اپنی کابینہ میں سماج وادی پارٹی کے رہنما اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادیو کو وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کیا تھا ۔ملائم سنگھ یادیو کا قد عام لوگوں سے قدرے چھوٹا ہے ۔وہ اکثر چادر اور کرتے والا روایتی لباس زیب تن کرتے ہیں ۔ایک چادر ان کے کاندھے پر ہوتی ہے ۔وزیر دفاع کی حیثیت سے وہ پہلی دفعہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے دورے پر گئے ۔ان کے دورے کا یہ منظر میں نے لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹی وی پر دیکھا ۔تمام سروسز چیفس ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے موجود ہیں ۔فوجی وردیوں میں ملبوس بلند قامت ،اسمارٹ ،چاک و چوبند جرنیل سلامی دینے کے لیے بت بنے ہوئے تیار کھڑے ہیں ۔یہ جرنیل بھی یقینًاامریکی یا برطانوی لہجے میں فرفر انگریزی بول سکتے ہوں گے ۔ان کے پاس بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فوجیوں کی کمان ہوگی ۔انہیں بھی قدم قدم پر ’’سلیوٹ‘‘ پڑتے ہوں گے ۔ان کی بغلوں میں بھی چھڑی ہے ۔وزیر دفاع کی ایک عام سی گاڑی آکر رکتی ہے ۔ایک جرنیل آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولتا ہے ۔گاڑی میں سے ایک پستہ قامت شخص برآمد ہوتا ہے ،جس کا گیٹ اپ اور جس کی شخصیت جرنیلوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔وہ شخص سفید چادر اور کرتے میں ملبوس ہے لیکن وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست بھارت کے وزیر دفاع ملائم سنگھ یادیو ہیں ،جن کا سیاسی قد بہت بلند ہے ۔جیسے ہی وہ گاڑی سے باہر آتے ہیں ،سارے جرنیل انہیں ’’سلیوٹ‘‘ کرتے ہیں لیکن ملائم سنگھ یادیو اس سلیوٹ کا جواب نہیں دے سکتے کیونکہ انہیں اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ چادر گاڑی کے اندر رہ گئی ہے، جو ہمیشہ ان کے کاندھے پر ہوتی ہے۔ وہ دوبارہ گاڑی میں گھستے ہیں اور اپنی چادر اٹھاکر کاندھے پر ڈالتے ہیں۔ اس کام میں انہیں تھوڑا وقت لگ گیا ۔چادر کاندھے پر ڈالنے کے بعد وہ فوجی افسران سے ہاتھ ملاتے ہیں ۔
یہ واقعہ سناتے ہوئے بے اختیار میری آنکھیں بھیگ گئیں اور میں نے مباحثے کے شرکاء سے صرف اتنا کہا کہ ’’قومیں اس طرح بنتی ہیں ‘‘ یہ واقعہ تقریب کے شرکاء نے بہت غور سے سنا اور اس کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سناٹا بھی رہا ۔یہ واقعہ سناتے ہوئے اس وقت بھی مجھے کچھ الجھن محسوس ہورہی تھی اور آج اسے ضبط تحریر میں لاتے ہوئے بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے کیونکہ ہم نے جس عہد میں صحافت شروع کی ،اس عہد میں ٹرین کے حادثے پر بھارت کے وزیر ریلوے کے استعفیٰ پر کوئی کالم یا ایڈیٹوریل لکھنا بھی ممکن نہیں تھا ۔ہم پر سیلف سنسر شپ کا ایک ضابطہ لاگو تھا ۔بھارت کی کسی بھی اچھی بات کی تعریف پاکستان سے غداری کے مترادف تصور کی جاتی تھی۔ صحافیوں اور سیاستدانوں میں ہمیشہ یہ خوف رہتا تھا کہ کہیں ان پر بھارتی یا اسرائیلی ایجنٹ کا لیبل نہ لگادیا جائے لیکن اس مباحثے میں کسی نے مجھے غدار قرار نہیں دیابلکہ میری اس بات کو ہی آگے بڑھایا۔ گزشتہ دنوں یہ واقعہ بہت شدت کے ساتھ یاد آیا، جب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ معذرت خواہانہ اور وضاحتی بیان جاری ہوا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر دفاع کی حیثیت سے وہ اپنے آپ کو اس ادارے کا حصہ تصور کرنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ یہ واقعہ اس وقت اور بھی زیادہ یاد آیا ، جب اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آئوٹ پریڈ کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کی ویڈیوز اور تصویریں بنانے سے منع کردیا گیا۔ اس خبر سے یہ پتہ چلا کہ وہ بھی اس تقریب میں موجود تھے، اگر یہ خبر شائع نہ ہوتی تو کسی کو یہ پتہ بھی نہ چلتا کہ یہ دونوں وزراء بھی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں گئے تھے۔ یہ خبر چھپنے سے دو باتیں سامنے آئیں ، ایک یہ کہ انہیں تقریب میں مدعو کیا گیا تھا اور دوسری یہ کہ انہیں جانا نہیں چاہیے تھا۔ یہ واقعہ صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور صدارت کے دوران بھی ہر سال 23 مارچ کو یاد آتا تھا، جب 23 مارچ کی ’’لازمی ‘‘پریڈ منعقد نہیں ہوتی تھی۔ آج بھی ملائم سنگھ یادیو کا یہ واقعہ سناتے ہوئے اپنے سویلین ہونے کا اعزاز الجھن پیدا کررہا ہے کیونکہ آئین توڑنے پر سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا تو بعض حلقوں نے یہ اعتراض کیاکہ فوجی غدار نہیں ہوسکتا۔ ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے تو پرویز مشرف پر بھی اعتراض کردیا کہ انہوں نے یہ بیان کیوں دیا کہ ان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے پر فوج اپ سیٹ ہے۔ حمید گل کے 30 دسمبر 2013ء کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف فوج پر الزام عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل 6- کی خلاف ورزی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حمید گل کے نزدیک آئین توڑنا غداری نہیں بلکہ فوج پر یہ الزام لگانا غداری ہے کہ فوج پرویز مشرف کے ساتھ ہے۔ اس منطق کے مطابق کسی سویلین پر غداری کا الزام لگانا تو شاید کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس صورتحال پر صرف یہ ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ ’’کیا قومیں اس طرح بنتی ہیں؟‘‘ ۔
تازہ ترین