• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے ملک کے ممتاز صحافی اور جیو نیوز کے مقبول میزبان حامد میر نے پوری طرح ہوش میں آنے کے بعد اپنے پہلے باضابطہ بیان میں اپنی زندگی کے محفوظ رہنے کو قوم کی دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی’’ کیپٹل ٹاک‘‘ میں لاپتہ بلوچوں کے لئے تحریک چلانے والے ماما قدیر کے لانگ مارچ کے حوالے سے ہونے والے پروگرام پر ناراض تھی۔حامد میر نے ملنے والی دھمکیوں کی تفصیل اور طریق کار کے بارے میں بھی بتایا ہے۔اس بیان سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے کہ حامد میر کو دھمکیاں واقعی ملی تھیں اور ان ہی کی بنیاد پر انہوں نے پیشگی بیانات ریکارڈ کرائے تھے ۔ اس بارے میں آراء کا اختلاف ہوسکتا ہے کہ اس عمل میں کتنی احتیاط ملحوظ رکھی جانی چاہئے تھی۔ تاہم اس پر مخصوص عناصر کی جانب سے جیو نیوز کی جبری بندش کی مہم، جنگ گروپ کے اخبارات کی تقسیم رکوانے کی کوششیں، اور غداری کے الزامات کا ہرگز کوئی جواز نہیں۔ اس تناظر میں وزیر اعظم نے گزشتہ روز بجا طور پر آزادی اظہار کو ہر ایک کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے ملک میں جمہوری روایات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر جناب حمید ہارون نے اپنے ایک نہایت اہم بیان میں صورت حال کی سنگینی واضح کی ہے اور حالات کو بہتر بنانے کے لئے نہایت برمحل تجاویز پیش کی ہیں کہ ’’آئین پاکستان کی دفعہ19 میں درج آزادی صحافت اس وقت گزشتہ دہائی کی نسبت زیادہ شدید خطرات سے دوچار ہے ۔‘‘انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ’’اگر آزادی صحافت کومجروح ہونے دیا گیا تواس سے پاکستان کی جمہوریت اور اس سے وابستہ آئینی حقوق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ‘‘ مالکان اخبارات و جرائد کی تنظیم کے صدر نے اس ضرورت کا اظہار کیا ہے کہ ’’آرمی چیف جنرل راحیل شریف مسلح افواج کے مختلف عناصر کی جانب سے کیے گئے انتقامی اقدامات کے خاتمے کے لئے کارروائی کریں جبکہ وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات فوری طور پر ایک بامعنی ڈھانچے کی تشکیل کے لئے تمام اہم قومی صحافتی تنظیموں سے مذاکرات کریں۔ریاست کے تمام حصے اور سیکوریٹی ادارے اپنے جذبات کو ٹھنڈا کریں اورمیڈیا میں بھی حالات کو معمول کی سطح پر لایا جائے۔‘‘اے پی این ایس کے صدر کی یہ تجاویز اور مشورے وقت کی ضرورت ہیں۔ حکومت، فوج اور میڈیا سب کو ان پر غور کرنا اور انتشار کی موجودہ کیفیت کے خاتمے کے لئے مثبت طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔یہ حقیقت سب کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ دنیا پابندیوں کے دور سے نکل کر زیادہ سے زیادہ جمہوری آزادیوں کی جانب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تاریخ کا سفر پابندیوں کی نہیں آزادی کی سمت میں ہے۔پچاس ساٹھ سال پہلے دنیا میں بڑی تعداد میں فوجی حکومتیں تھیں لیکن آج دنیا کے 166 ملکوں میں جمہوریت اور جمہوری آزادیاں ہیں جبکہ فوجی حکومتیں برائے نام رہ گئی ہیں۔یہ جمہوری آزدیاں ہی قوموں کو متحد رکھنے میں اصل کردار ادا کرتی ہیں۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی درجنوں ریاستوں کو جن اسباب نے متحد کررکھا ہے،ان میں سے ایک اس کی شاہراہوں کا نظام اور دوسرا میڈیا ہے۔ دنیا بھر میں آزاد اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی میڈیا نے ایک عشرے میں عوام کو ملک کے معاملات اور قومی مفاد کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میںکہیں زیادہ باشعور بنادیا ہے جس کی بناء پر اب ایک عام آدمی بھی مختلف قومی اور بین الاقوامی معاملات کا خود تجزیہ کرسکتا ہے۔ کرکٹ میچ ہوں یا ملک کو درپیش کوئی اہم مسئلہ، میڈیا ہی کی وجہ سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں اور بڑے شہروں کے باسیوں میں ایک قومی جذبہ موج زن دکھائی دیتا ہے۔میڈیا کی آزادی بہرحال ملک کے لئے مفید ہے۔ ناپسندیدہ سرگرمیاں ہمیشہ اخفاء کے پردے میں عمل میں آتی ہیں، روشنی مجرمانہ کارروائیوں کو محال بنادیتی ہے۔ میڈیا کی آزادی سے ریاست کے تمام اداروں اور ذمہ داروں کے احتساب کا ایک ہمہ وقتی نظام وجود میں آتا ہے جس سے کرپشن اور قومی مفاد کے منافی افعال کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کا سفر آزادیوں کی سمت میں جاری ہے ، اورتاریخ کا پہیہ الٹا نہیں گھمایا جاسکتا ۔
لوڈشیڈنگ کا کچھ کریں؟
موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نے خاصی تشویشناک صورتحال اختیارکرلی ہے اورشہروں میں 8اور دیہات میں 15گھنٹے تک بجلی غائب رہنے لگی ہے جس کی وجہ محکمہ بجلی کے حکام کی جانب سے یہ بتائی جارہی ہے کہ بجلی کا شارٹ فال 3000میگا واٹ تک جا پہنچا ہے جس کے باعث ان کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
موجودہ حکومت انتخابات میں حصہ لینے کےلئے پرتول رہی تھی تواس کے ذمہ داران یہ بلندبانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ اقتدارمیں آتے ہی عوام کو لوڈشیڈنگ سے ممکن حد تک نجات دلا دیں گے لیکن اقتدارمیں آنےکے بعد جلد ہی ان کو اندازہ ہو گیاکہ فوری طور پر ایساکرناممکن نہیں اس لئے انہوں نے پچھلے وعدے بھول کر یہ کہناشروع کردیا کہ یہ سارے مسائل انہیں ورثے میں ملے ہیں اور ان کے پاس جادو کی کوئی چھڑی موجود نہیں جس سے وہ چشم زدن میں انہیں حل کردیں تاہم عوام کومطمئن کرنے کے لئے ایک طرف تو انہو ںنے کوئلے، سولر انرجی اورونڈ پاور سے بجلی پیدا کرنے کےلئے مختلف ممالک سے اتنے ایم او یوز پر دستخط کئے کہ شاید پاکستان کی پوری تاریخ میں مفاہمت کی اتنی یادداشتوں پر دستخط نہ کئے گئے ہوں اور دوسری طرف عوام کو یہ یقین دہانی کرائی جانےلگی کہ اس سال گرمیوں میں 6گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی لیکن ابھی اپریل کے اواخر میں سورج آنکھ ابھی دکھانے ہی لگا ہے کہ لوڈشیڈنگ 6سے 15گھنٹے تک جا پہنچی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ مئی جون میں لوڈشیڈنگ کیا رنگ دکھائے گی؟ ان حالات میں حکومت کو لاہور اوردوسرے بڑے شہروں میں کم از کم ٹیوب ویلوں کو جنریٹروں سے چلانے کا بندوبست تو ضرور کرنا چاہئے تاکہ لوگ بجلی کی روشنی اور پنکھے کی ہوا کے ساتھ پانی سے تو محروم نہ ہوں۔ عوام کی بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنا کسی بھی حکومت کی اولین اوراہم ترین ذمہ داری ہے اس لئے اسے پوراکرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں۔

پاکستان اور انسانی حقوق کی رپورٹ!
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ 2013 کے دوران پاکستان میں 56خواتین کو بیٹی پیدا ہونے کے جرم میں قتل کردیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال گمشدگی کے 90سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ جبری لاپتہ میں سے 129 کی مسخ شدہ لاشیںبرآمد ہوئیں۔ 11 صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کراچی میں 3218 افرادٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنے۔ 45خودکش حملوں میں 694 جبکہ 31ڈرون حملوں میں 199اور 200 سے زائد فرقہ وارانہ حملوں میں کل 687افراد لقمہ ٔ اجل بنے۔رپورٹ کے مطابق قتل کے 14ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے۔ 800 خواتین نے خودکشی کی، 869 خواتین کو غیرت کے نام پرقتل کیا گیاجبکہ مبینہ پولیس مقابلوں کی تعداد 357 رہی۔ اس رپورٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔خصوصاً خواتین کے حقوق کوبری طرح پامال کیا جارہا ہے جبکہ اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی لیکن غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اس سال 2013میں 14ہزار قتل کےمقدمات درج کئے گئے ۔اگر بروقت اور جلد فیصلے کئے جائیں تو قتل جیسی سنگین وارداتوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ملک کے مختلف صوبوں میں 11 صحافی قتل ہوئے۔ کمیشن کی رپورٹ اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ایسی مؤثر اورمضبوط حکمت عملی مرتب کی جائے جس سے قتل و غارت گری میں کمی آ سکے کیونکہ کسی ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک میں امن اور چین ہو۔ حکومت تمام تر اداروں کے تعاون واشتراک سے اگر ایسی پالیسی مرتب کرے کہ بلاتفریق تمام جرائم پیشہ عناصر کو کچلا جاسکےتو کوئی وجہ نہیں کہ ملک امن کا گہوارہ بن جائے۔
تازہ ترین