• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خود داریوں کے خون کوارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کونمایاں نہ کرسکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کرسکے
ساحر لدھیانوی کے مندرجہ بالااشعار حسب حال ہیں سوچا قارئین کی نذر کردوں۔ گزشتہ ہفتے معروف صحافی اور دانشور جناب حامد میر پر بزدلانہ قاتلانہ حملے کی خبر نے نشریاتی دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا جس کی موجیں ابھی تک ساحل سے ٹکرا کر واپس جارہی ہیں اور تھمنے کونہیں آرہیں۔ خدا کاشکر ہے کہ جواں سال حامد میر اس حملے میں زندہ بچ گئے خدا انکو صحت کے ساتھ لمبی عمر دے۔ حملے کے فوراً بعد نشریاتی اداروں اور فیملی کاری ایکشن کچھ لوگوں کو بہت ناگوار گزرا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ری ایکشن کچھ زیادہ ہی تھا اور ہمیں اس سلسلے میں فیملی کوکچھ رعایت دینی چاہیے کیونکہ جن کا نقصان ہوتا ہے ان کے جذبات بھی ویسے ہی ہوتے ہیں میں40سال سے بطور وکیل وکالت کررہا ہوں، فلموں کے اندر بھی ماردھاڑ کے سین دیکھتا رہا ہوں اور فوجداری خاص طور پر قتل کے کیسوں کا بہت نزدیک اور غور سے مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے نامعلوم شخص یا اشخاص کے ہاتھوں ہونے والے قاتلانہ حملوں میں مضروب اور فیملی کا پہلا ری ایکشن تو یہی ہوتا ہے کہ فلاں شخص کے ساتھ دشمنی تھی یا لڑائی ہوئی تھی تو ظاہری طور پر اسی کا ہاتھ اس واقعہ میں ہوگا اور بہت لوگ توایف آئی آر میں اپنے دشمنوں یا ایسے لوگوں کوجن کے ساتھ مخاصمت چل رہی ہو نامزد بھی کردیتے ہیں اسطرح نہ صرف تفتیش کارخ غلط سمت میں مڑ جاتا ہے بلکہ اصل واردات کرنے والے کافی کمفرٹیبل ہوجاتے ہیں یعنی کہ سکون میں ہوجاتے ہیں کہ تفتیش دوسری طرف مڑ گئی ہے بطور وکیل میرا مشورہ ہے کہ کبھی بھی ایسے حالات میں جلدی نہیں کرنی چاہئے مجھے یاد ہےجب ہم میاں نواز شریف کاطیارہ ہائی جیک کیس لڑ رہے تھے توہمارے ایک بہت پیارے ساتھی وکیل اقبال رعد پر قاتلانہ حملہ انکے دفتر میں ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ وہ جمعہ کادن تھا۔ وہ گھر سے ہی بارہ بجے کے قریب آئے تھے اور دشمن جو انکی ریکی کررہے تھے وہ بھی آن پہنچے اور ان کو ان کے دفتر میں شہید کردیا گیا تھا مجھے یاد ہے کہ اس وقت بہت جذباتی لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ایف آئی آر میں پرویز مشرف کونامزد کریں۔ لیکن میں نے مسلم لیگ کے اس وقت کے کراچی کے ذمہ داروں کو یہی مشورہ دیا کہ ایسا کرنے سے آپ اصلی قاتل کی مدد کریں گے اور اداروں کی تفتیش کارخ غلط سمت میں موڑ دیں گے یا پھر تفتیش ہوگی ہی نہیں کیونکہ پرویز مشرف تو سربراہ مملکت ہیں ان کے خلاف کون سا پولیس انسپکٹر تفتیش کرے گا ، قصہ مختصر کافی بحث ومباحثہ کے بعد یہی طے پایاکہ نامعلوم افرادکے خلاف ایف آئی آر کٹوائی جائے۔ پھر اس کیس میں ملزم بھی پکڑے گئے اور ان کی شناخت پریڈ بھی ہوئی ۔ موجودہ کیس میں بھی میرا ماہرانہ مشورہ یہی ہے کہ تفتیش کا اختیار تفتیشی افسروں کودیں۔ ان کوپتہ ہوتا ہے کہ قاتل کوکیسے ڈھونڈنا ہے اگر وہ صدق دل سے چاہیں تودنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی اورہماری پولیس کے تفتیش کاروں کاتجربہ اس قدر زیادہ ہے کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور ملزموں تک بھی پہنچ جاتے ہیں پھر آگے بہت سی مصلحتیں، حکم ، احکام، پالیسیاں وغیرہ وغیرہ آڑے آجاتی ہیں اور میں نے کئی دفعہ اچھے تفتیشی افسروں کوافسوس کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ ان کی کوششوں پر پانی پھر گیا وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے تھے کہ تبدیلی کا حکم آگیا اور کاغذات دوسرے افسر کے سپرد کردیئے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کا دوسرا نام مصلحت اور مفاہمت کی حکومت ہے ہر کسی کو اپنا وقت پورا کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات تو بقول فیض
وہ بات سارے فسانے میں جسکا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
موجودہ کیس میں ایسے امکانات کورد نہیں کیا جاسکتا کہ کسی تیسرے شخص کو اس بات کاعلم ہو کہ حامد میر کی کس سے مخاصمت چل رہی ہے اور اس نے موقع دیکھ کر کام دکھادیا ہوکہ نام تواسی کا آئے گاجس سے جھگڑا ہے یاجس کی طرف سے خدشات ہیں ایسے سین میں نے فلموں میں دیکھے ہیں ایک پاکستانی فلم’’راز‘‘ یا ’’ہمراز‘‘ میں نے اپنے بچپن میں دیکھی تھی مجھے آج تک وہ سین یاد ہے کمرے کے اندر دواشخاص آپس میں گتھم گتھا ہورہے تھے وہ خالی ہاتھ لڑرہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے جوکہ کمرے کے باہر اندھیرے میں سارا جھگڑا دیکھ رہا تھا اس نے گولی چلا کران دونوں گتھم گتھا افراد میں سے ایک کو گولی ماردی اور ریوالور کھڑکی سے کمرے کے اندر پھینک دیا اور اندھیرے میں بھاگ گیا۔ کمرے میں موجودہ دشمن نے فوراً بے خیالی میں ریوالور بھی زمین سے اٹھا لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا اور اسطرح اس کے فنگر پرنٹ بھی ریوالور پر آگئے ۔ اب استغاثہ کے مطابق یہ بہت مضبوط کیس تھا کمرے میں صرف دوآدمی تھے۔ ایک مرگیا دوسرا زندہ بچ گیا اور زندہ بچنے والے کے فنگر پرنٹس بھی ریوالور پر مل گئے اور ریوالور بھی برآمد ہوگیا اور گولی بھی میچ ہوگئی مگر چونکہ یہ تو فلم تھی اور وہ دکھا چکے تھے کہ ولن نے گولی کھڑکی سے باہر سے ماری ہے اور اندر والا خالی ہاتھ تھا اور ناظرین کی ہمدردیاں اور فیصلہ کمرے والے شخص کے حق میں تھا مگر حقیقی دنیامیں ایسا نہیں ہوتا اصل قاتل شہادتیں نہ ہونے کیوجہ سے بری ہوجاتا ہے اور بے گناہ ساختہ FABRICATED
شہادتوں کی بنا پر سزا پا جاتا ہے اس لیے میرا مشورہ ہے کہ تفتیشی اداروں کو خود سے تفتیش کرنے دیں وہ آزادانہ اور منصفانہ طریقے پر اپنی ماہرانہ تفتیش کریں اور پھر اسکا نتیجہ عوام کے سامنے پیش کریں۔ مجھے اپنی پولیس کی کارکردگی پر کافی اعتماد ہے اگر ان کو کام کرنے دیا جائے تووہ مشکل سے مشکل کیس حل کرلیتے ہیں۔ آخر میں میں جناب حامد میر پر بزدلانہ قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں اور انکی جلد صحت یابی کے لئے دعاگو ہوں اور شمس الغنی کا ایک شعر قارئین کے لئے پیش کرتا ہوں
کھو جائیں اگر ہم بھی سرحلقہ بگوشاں
اے اہل حکم تم کو خفا کون کرے گا
تازہ ترین