• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوشیار پور کی گڑھ شنکر تحصیل میں چنکوعہ نام کا ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ ہندوئوں اور سکھوں کی اکثریت والی اس بستی میں مسلمانوں کے چند ہی گھر تھے۔ گامی شاہ نے اسی گائوں کی سادات میں جنم لیا تھا۔ اصل نام تو غلام محمد تھا جو کہیں سرکار دربار میں ہی درج ہوگا، ورنہ سب ہی گامی شاہ کہتے تھے۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، چھریرا بدن، تیکھا ناک نقشہ، گتکے اور کبڈی کا نامی کھلاڑی، مسلمان آبادی کی آنکھ کا تارا، مگر غیر مسلموں کو کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ پاکستان اور قائد اعظم پر فدا ہوگیا۔ یہ تبدیلی بھی بس اچانک ہی آگئی۔ مارچ 1940ء میں ذاتی کام سے لاہور آیا ہوا تھا کہ کسی عزیز کے ہمراہ قرارداد پاکستان والے جلسے میں چلا گیا۔ گائوں پلٹا تو کایا کلپ ہوچکی تھی۔ آتے ہی چھت پر سبز پرچم لہرا دیا اور اپنے گھر کو پاکستان قرار دے دیا۔ عجب ڈائیلاگ ہوتے تھے۔ گھر سے آرہا ہوتا تو کوئی پوچھ لیتا، گامی شاہ کہاں سے آرہے ہو؟ جواب ملتا پاکستان سے۔ دھیرے دھیرے پاکستان کی حدود پھیلتی گئیں۔ اردگرد کے مسلمان گھرانوں کو بھی اس میں شامل کرلیا اور مسلمانوں کا محلہ پاکستان کے نام سے موسوم ہوگیا۔
پھر 1943ء کے ساون میں وہ کہیں سے میلہ دیکھ کر آرہا تھا کہ راستے میں کسی نے ایک خاکسار کے ہاتھوں قائد اعظم پر قاتلانہ حملے کی خبر سنا دی۔ بس پھر کیا تھا، گامی شاہ بے قابو ہوگیا۔ خبر دہندہ کو گلے سے پکڑ لیا کہ تم ہمارے لیڈر کے بارے میں غلط افواہیں اڑاتے ہو۔ اتنے میں کسی نے اخبار دکھا دیا تو گامی شاہ کو گویا چپ سی لگ گئی۔ گھر جانے کی بجائے بمبئی روانہ ہوگیا اور پوچھتا پچھاتا قائد اعظم کی رہائش گاہ مائونٹ پلیذنٹ پہنچ گیا۔ جہاں چند روز قبل کے واقعہ کی وجہ سے سیکورٹی سخت تھی۔ اہلکاروں نے پکڑ لیا، مبادا کوئی اور بدنیت ہو اور گامی شاہ چلائے جارہا تھا۔ وللہ مجھے غلط نہ سمجھو۔ میں تو قائدؒ کا فدائی ہوں۔ مجھے ادھر ہی رہنے دو۔ سائے کی طرح ان کے ساتھ رہوں گا اور اپنے قائد کی خود حفاظت کروں گا اور اگر پھر کسی نے ان کی طرف میلی آنکھ لئے دیکھا تو بچ کر نہ جاسکے گا۔ تاہم لوگوں نے سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا۔ گامی شاہ کیلئے بمبئی کا یہ سفر زندگی کا ماحصل تھا اور اس کا ذکر بڑے فخر سے کیا کرتا تھا۔ بعد میں اپنے طور پر قائد پر حملہ کرنے والے شخص رفیق صابر کے کوائف جمع کرتا رہا کہ کہیں مل گیا تو چھوڑوں گا نہیں۔
آزادی ملی تو گامی شاہ کا پاکستان سرحد کے اس پار رہ گیا۔ قافلہ روانہ ہوا تو ہمسایوں، عزیزوں، رشتہ داروں نے بہت زور لگایا مگر گامی شاہ ہجرت پر آمادہ نہ ہوا۔ تن تنہا میدان میں ڈٹ گیا۔ غیر مسلم جتھے تو موقع کی تلاش میں تھے۔ ایک شام اس کے گھر پر حملہ کردیا، وہ سینکڑوں اور یہ اکیلا۔ یوں تو ایک کمسن بیٹا اور بیوی بھی تھے، مگر محض پائوں کی زنجیر۔ سم چڑھی ڈانگ لیکر مقابلہ میں نکل آیا لیکن برچھوں، تلواروں اور نیزوں کا مقابلہ کب تک کرتا؟ بے دم ہوکر گرا، ایک ناہنجار چھاتی پر بیٹھ کر بولا، اب کہو کدھر ہے تمہارا پاکستان؟ گامی شاہ نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے نعرہ لگایا۔ ’’پاکستان زندہ باد! قائد اعظم زندہ باد! اور چھاتی پر بیٹھے سکھ کے منہ پر تھوک دیا۔ دوسرے ہی لمحے گامی شاہ کا سرتن سے جدا تھا۔ پھر بلوائی کونے میں سہمی کھڑی اس کی بیوی کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک ہی جھٹکے میں اس کی گردن بھی اڑا دی۔ بیٹا بچ گیا کہ دم سادھے کپڑوں کی پیٹی میں چھپا بیٹھا تھا۔ بلوائی چلے گئے تو باہر نکلا۔ سامنے ماں باپ کے سرکٹے لاشے تھے۔ کیا کر سکتا تھا؟ کواڑ بند کیا اور گلی میں نکل آیا۔ پھر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گیا۔ یہاں لائل پور کی ملوں میں مزدوری کرتا رہا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں نائب قاصد بھرتی ہوگیا۔ اسی عہدہ سے ریٹائر ہوا اور کینسر کے عارضے میں مبتلا رہ کر راہی ملک عدم ہوگیا۔
گامی شاہ جیسے گمنام شہید لاتعداد ہیں۔ جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ تج دیا مگر ان کی قربانیوں کا ریکارڈ کہیں نہیں۔ جس کا اہتمام شاید 1947ء کی عظیم ہجرت کی یادگار کے طور پر والٹن لاہور میں زیر تعمیر باب پاکستان کمپلیکس میں کیا جاسکے۔ راقم نے کئی ملکوں میں دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنے ہیروز کی یاد میں وسیع و عریض گیلریاں تعمیر کرکے خوبصورت دھاتی تختوں پر ان کے نام کنداں کررکھے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں دعائے خیر کرتے ہیں۔ کیا ہم بھی آزادی کے شہیدوں کیلئے یہ اہتمام نہیں کرسکتے؟ اس ضمن میں راقم نے کئی لوگوں سے بات کی ہے۔ اکثر کا خیال ہے کہ ہم نے بہت دیر کردی۔ آزادی کے شہیدوں کے نام اور کوائف جمع کرنا بے حد مشکل ہوگا اور ان کی تصدیق تو اس سے بھی زیادہ دقت طلب ہوگی۔ گزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں ان کی تیسری نسل آگئی ہے جو شاید اپنے بزرگوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی۔ گو اس بات میں بھی وزن ہے مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ "It is never too late to start" آغاز تو کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے کوشش کریں تو ابھی بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ %100 تو نہیں، البتہ 70/80 فیصد نتائج ضرور حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بلکہ اگر نصف شہدا کے کوائف بھی آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کرلیں تو بڑی کامیابی ہوگی۔ ورنہ اس تذبذب میں دس بیس برس اور بیت گئے تو پھر واقعی ان کا نام لیوا کوئی نہیں ہوگا۔
یہ کام ارباب اختیار کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ یادگار کمپلیکس میں ایک گیلری میں آزادی کے شہدا کے نام کندہ کئے جاسکتے ہیں۔ اس کام میں خرچے زیادہ ہیں، البتہ محنت ضرور ہے۔ مجوزہ گیلری کی بدولت یادگار کو جذباتی ٹچ ملے گا۔ شہدا کے وارث، عام پاکستانی اور غیر ملکی سیاح اس میں بے پناہ دلچسپی لیں گے۔ یہاں میں آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں واقع وار میموریل کا ذکر کرنا ہے جو دنیا کے چند اہم ترین سیاحتی مراکز میں سے ہے۔ وار میموریل کا قابل دید سیکشن ’’رول آف آنر‘‘ ہے۔ ایک وسیع و عریض برآمدے کی دیواروں میں پیوست جستی چادروں پر دونوں عالمی جنگوں میں کام آنے والے ایک لاکھ دو ہزار آسٹریلوی فوجیوں کے نام کنداں ہیں جو یونٹ کے حساب سے ہیں اور ابجدی ترتیب میں لکھے گئے ہیں۔ ہر روز بے شمار لوگ یہاں اپنے پیاروں کا نام تلاش کرتے ہیں اور ان کے سامنے گل لالہ ٹانگ جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے جد امجد کے رول آف آنر کا سرٹیفکیٹ چاہتے ہیں تو معمولی فیس کی ادائیگی پر اس کا بھی انتظام ہے۔قارئین یقیناً آگاہ ہیں کہ لٹے پٹے مہاجرین واہگہ پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تو والٹن کے وسیع و عریض میدان میں ان کیلئے کیمپ لگا تھا۔ جہاں وہ مہینوں رہے اور پھر مستقل آبادکاری کیلئے ان دیکھی منزلوں کی جانب چلے گئے۔ یوں ہجرت کے حوالہ سے والٹن کا یہ میدان تاریخی حیثیت حاصل کرگیا۔ جہاں باب پاکستان کے نام سے یادگار کی تعمیر کی خبریں نکلتے تو تین دہائیاں بیت گئیں مگر فی الحقیقت ابھی تک وہاں دھول اڑ رہی ہے۔ بے شک اس دوران میاں صاحبان نے لاہور شہر کا حال حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا مگر نہ جانے قومی اہمیت کے اس منصوبہ پر پیشرفت کیوں نہیں ہو پائی۔ یقیناً بہت وقت ضائع ہوچکا۔ اب اسے جنگی بنیادوں پر لینے کی ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آنے والے یوم آزادی یعنی 14اگست 2014ء تک باب آزادی پراجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔ جو سیماب صفت، مرد جنوں جناب شہباز شریف کیلئے کچھ مشکل بھی نہیں کیونکہ آج ہی خبر آئی ہے کہ والٹن کے ہی علاقہ میں ایک کلومیٹر کے لگ بھگ طویل فلائی اوور صرف 62 دنوں میں تعمیر کرکے موصوف حیران کن کارنامہ سر انجام دے چکے۔
تازہ ترین