• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم نصیر سلیمی کا حکم ٹالنا آسان تھا نہ کراچی میں دوست احباب سے ملاقات کاموقع ضائع کرنا تقاضائے دانشمندی، لہٰذا سفری بیگ اٹھایا اور لاہور کو حوالہ ٔ بادو باراں کیا اور کراچی جا پہنچا۔
کراچی آرٹس کونسل میں چودھری رحمت علی میموریل سوسائٹی نے ’’قائداعظمؒ ، پاکستان او ر چودھری رحمت علی کا اعزاز‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کیا تھا اورتحریک پاکستان پراتھارٹی پروفیسر شریف المجاہد کو دعوت خطاب دے رکھی تھی جبکہ پاکستانی سیاست کے ایک نیک نام، دلیر اور بااصول کردار سردارشیرباز مزاری کا نام بھی مقررین میں شامل تھا۔ سردارصاحب سوسائٹی کے سرپرست، چودھری الٰہی بخش صدر، پروفیسر عبدالحمید نائب صدر اور نامورصحافی نصیرسلیمی سیکرٹری جنرل ہیں۔
چودھری رحمت علی مرحوم نےبھی کیا قسمت پائی۔ ذہین اس قدر کہ ٹاٹ سکول اوراسلامیہ کالج کا تعلیم یافتہ یہ نوجوان ایچی سن کالج کااستاد مقرر ہوااور مزاری خاندان کےزیرتعلیم بچوں کا اتالیق۔ جائیداد کے مقدمات میں مزاری خاندان کی قانونی معاونت کے معاوضے سے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیاا ورگریجوایشن کے بعد بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل 1933 میں برصغیر کی تقسیم اور مسلمانوں کی آزاد ریاست کے طورپر ’’پاکستان‘‘کے قیام کی سکیم پیش کی اور ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے عنوان سے پمفلٹ لکھ کربرطانیہ و ہندوستان میں دھوم مچادی مگرجب پاکستان بنا تو نئی ریاست کے لئے رحمت علی اجنبی تھا اور رحمت علی کے لئے اپنے خوابوں کی تعبیر ناقابل قبول۔
الگ ریاست کاخواب جب رحمت علی نے دیکھا تو اقبالؒ خطبہ الہٖ آباد دے چکے تھے۔ مگر مصور ِ پاکستان نے ابھی اپنی تصویر میںر نگ نہیں بھرے تھے۔ رحمت علی کے تصور ہی نہیں ’’پاکستان‘‘ کے منفرد نام نے بھی وہ مقبولیت حاصل کی کہ اپنے بیگانے سب حیران رہ گئے۔ اقبالؒ کو یقین تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد ریاست کا فیصلہ آسمانوں پرہوچکا ہے۔ وہ بار بار اس کااظہاراپنی محفلوں میںکرتے مگر اس کا نام ’’پاکستان‘‘ ہوگا یہ کوئی نہیںجانتاتھا۔ 1940 میں جب مسلم لیگ نے منٹوپارک میں قرارداد ِ لاہور منظور کی توچودھری رحمت علی اجلاس میں موجود تھے نہ اس قرارداد کی منظوری میں پیش پیش مگر اسلامیان برصغیر کے علاوہ ہندو پریس اور سیاسی مہاشوں نے اسے قرارداد ِ پاکستان کا نام دیااوربالآخر مسلم لیگ نے بھی اسے قبول کرلیا۔ ’’پاکستان‘‘ پر یہ اجماع تاریخ کا حیران کن واقعہ ہے۔
لیڈرشپ ابھی فیصلہ نہ کرپائی تھی مگر مسلم لیگ کے جلسوں میں نعرہ یہی گونجتا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ‘‘ اور’’بٹ کےرہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ تحریک ِ پاکستان کا ہر کارکن قائداعظمؒ کی قیادت میں متحد تھا۔ سر دھڑ کی بازی لگانے پر آمادہ مگر اس کی آنکھوں میں نقشہ اس ریاست کا رچا بسا تھا جس کا نام رحمت علی نے ’’پاکستان‘‘ رکھا۔(پنجاب، افغانیہ، کشمیر، سندھ اور بلوچستان) 1971میں بنگستان (بنگالیوں کاملک) الگ ہوا اوربرصغیر کا وہ حصہ پاکستان کے طور پر باقی رہ گیا جس کا تصور خطبہ الہٖ آباد اور چودھری رحمت علی کی سکیم میں تھا۔
اقبالؒ ، چودھری رحمت علی اورقائداعظمؒ میں فرق واضح ہے۔ اقبالؒ نےالگ ریاست کا صرف تصور پیش نہ کیا بلکہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلمانوں کے اتحاد کو ضروری قرار دیا تاکہ ہجوم کے بجائے ایک قوم سیاسی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرسکے اورکامیابی کی بنیادی شرط فعال، با کردار، باشعور اور نہ بکنے نہ جھکنے والی قیادت کے لئے قائداعظمؒ کا انتخاب کیا جبکہ قائداعظمؒ نے قیادت کا فرض بحسن و خوب انجام دیا۔
رحمت علی پرجوش و پرعزم فکری رہنما تھے یہ عملی سیاست کے تقاضوں سے کافی حد تک لاپروا اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر چلنے کےوصف سے عاری۔ سو اپنی سکیم پیش کرنے کے بعد فکری، علمی اورقلبی محاذ پر توجاں فشانی سے سرگرم رہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو انہوں نےمتاثر بھی کیا مگر خود میدان سیاست میں اترے نہ مسلم لیگ کاحصہ بنےاور نہ قائداعظمؒ کی رفاقت پرآمادہ ہوئے۔ کچھ قائداعظمؒ کی جیب میں پڑے کھوٹے سکوں کا قصور بھی تھا مگر چودھری صاحب بھی خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گل کوزہ تھے۔ انتہا درجے کے انفرادیت پسند، خودپرست اور سوداگر خوابوں کے۔
علامہ اقبالؒ سے کسی نے پوچھا آپ نے شاعری کے ذریعے پوری قوم کو وجد و حال کی کیفیت میں مبتلا کردیا مگرخوداس عمل کاحصہ نہیں بنے؟ ’’گفتار کا یہ غازی تو بنا کردارکاغازی بن نہ سکا‘‘ اقبالؒ نے یہ کہہ کر سائل کو لاجواب کر دیا ’’اگر قوال خود ہی وجد کرنے لگے تو لوگ قوالی سے خاک محظوظ ہو ںگے اور وجد کی کیفیت ان پرکیسے طاری ہوگی؟‘‘ رحمت علی کی قوالی پر لوگ سر دھنتے رہے ’’پاکستان‘‘ کو آرزوئوںکا مرکز، جدوجہد کا محور بنایا جو قبولیت کی سند تھی مگر رہبر و رہنماانہوں نےقائداعظمؒ کو سمجھا جس کے سامنےاحرار کاچراغ جلا نہ حسین احمدمدنی کاتقویٰ ٹھہر سکااور نہ ابو الکلام، عطا اللہ شاہ بخاری کی خطابت اثرانداز ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ لفظ پاکستان کے خالق کو تدفین بھی اپنے وطن میں نصیب نہ ہوئی۔
سیمینارکی صدارت سردارشیرباز مزاری نے کی جن کا خاندان چودھری رحمت علی کا احسان مند ہے۔ مقررین میں لاہور کے مہمانوں میں الطاف حسن قریشی،سجادمیراور رئوف طاہر کے علاوہ جناب شریف المجاہد، ڈاکٹر طاہر مسعود، ڈاکٹر ممتاز احمد اور خواجہ رضی حیدر شامل تھے جنہیں دانشور، علما اور تحریک پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے پختہ فکر و پرجوش سامعین نے خوب داد دی۔ سامعین کی اتنی بڑی تعداد کوتین چارگھنٹے تک ذوق و شوق کے ساتھ محو سماعت رکھنا صرف مقررین کا کمال نہ تھا منتظمین کی ریاضت اور حسن انتخاب بھی قابل داد تھا۔ طویل عرصہ بعداس قدر منظم، سخن فہم اورسخن شناس محفل دیکھنے کوملی جو تحریک پاکستان کے مظلوم کردارکی یادمیں برپا ہوئی۔
بدامنی اور لاقانونیت سے دوچار شہرمیں ایک کامیاب علمی، ادبی اورفکری محفل کاانعقاد ہر ایک کے لئے وجہ شادمانی تھا تاہم حامدمیر پرقاتلانہ حملہ کی وجہ سے لوگوں کے دل بجھے تھےاور چہرے افسردہ۔ قاتلوں کی گرفتاری اورکیفر کردار تک پہنچانے کی قرارداد پیش ہوئی توحاضرین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔
دوسری صبح ایک دوستانہ محفل فائیو سٹار ہوٹل میں ناشتے کی میزپر جمی جس کے میزبان ڈاکٹرشفیق احمدتھے اورمہمان ڈاکٹر طاہرمسعود و ڈاکٹر فاطمہ حسن کےسواباقی سارے وہی جو ایک روز قبل نعیم الرحمٰن کے ظہرانے میں مدعو تھے۔ موضوع گفتگو حالات ِ حاضرہ رہے پھرمجید امجد اور منیرنیازی میں موازنہ ہونے لگاا ور دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے سے برتر ثابت کرنےکی بحث چھڑ گئی تو اختتام مناسب تھا۔ سعیدخاور اور اعجاز حسین خلجی کے علاوہ مظفر ہاشمی اور اطہر ہاشمی سے تبادلہ خیال کا موقع ملا اور ہم ہسپتال میں عامر میر، فیصل میر سے برادر عزیز حامد میر کی جلد صحت یابی کے لئے قلبی دعائوں کی رسید لے کر لاہور لوٹ آئے ۔
لذیذ بود حکایت ، دراز تر گفتم
تازہ ترین