• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بلوچستان کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں مگر اب ایسا نہیں ہوگا‘‘ وزیر اعظم نے یہ بات گزشتہ روز چار سو میگا واٹ کے اوچ پاور پلانٹ 2کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ا نہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی ترقی اور خوش حالی ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے اور آئندہ چند برسوں میں اس صوبے میں اتنے زیادہ اور اتنے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوں گے جس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکے گی۔ وزیر اعظم نے ترقی اور خوش حالی کے اس عمل کو جمہوریت کے ثمرات سے جوڑتے ہوئے واضح کیا کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے جو احتساب کا خودکار نظام ہے۔بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ جمہوریت میں عوام ملک کا نظام چلانے والے افراد کا خود انتخاب کرتے ہیں اور کسی گروپ کی کارکردگی کی بنیاد پر اسے مزید موقع دینے یا اسے مسترد کرکے دوسرے گروپ کو اقتدار میں لانے کا اختیار انہیں حاصل ہوجاتا ہے۔یوں بتدریج بہتر حکمرانی ، قومی وسائل کے درست استعمال اور عوام کے آئینی حقوق کے تحفظ کی راہ ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ بلوچستان میں آج بہتری کا جو عمل نظر آتا ہے اسے ملک میں2008ء سے بحال ہونے والے جمہوری عمل کا نتیجہ قرار دینا غلط نہیں۔ سابقہ منتخب قومی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر 2013ء کے انتخابات میں عوام نے جو فیصلے کیے ان کے نتیجے میں بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بالعموم پہلے سے بہتر ہے۔ بلوچستان میں بھی ترقیاتی کاموں کی رفتار ماضی کی نسبت خاصی تیز ہے جس میں مزید اضافے کی کوشش وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہے۔ بلوچستان کو وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی شکل میں صوبے کوایک ایسا لیڈر مل گیا ہے جس کی معاملہ فہمی، اخلاص، سوجھ بوجھ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت کا عام طور پر اعتراف کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بلوچستان کے اصل مسئلے یعنی ماضی میں روا رکھی گئی حق تلفیوں کی بناء پر ناراض عناصر سے بات چیت اور انہیں علیحدگی پسندی کی راہ پر جانے سے روک کر قومی دھارے میں لانے کے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے معاملے میں کوئی تسلی بخش پیش رفت اب تک نظر نہیں آتی ۔ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک صفحے پر ہونے کے دعوے تو سامنے آتے رہتے ہیں لیکن بلوچستان کے لاپتہ افراد اور گمنام لاشوں کے معاملات اب بھی الجھے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں بھی انہیں پوری طرح حل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ وزیرستان کے مزاحمت کار عناصر سے بات چیت کا عمل کسی نہ کسی درجے میں شروع ہوگیا ہے مگر بلوچستان میں اس سمت میں بظاہر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جاسکا ہے۔ بلوچستان کے ناراض عناصر کا موقف سامنے لانے کے معاملے میں میڈیا کی آزادی کی جو کیفیت ہے، حامد میر کو بظاہر اسی حوالے سے جرأت اظہار کی سزا دی گئی ہے۔بلوچستان میں ماضی میں حکومتیں جس طرح بنتی رہیں،اور عوام کو جس طرح بے اختیار رکھ کر فیصلے طاقت کے مراکز میں ہوتے رہے، وہ بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی کا اصل سبب ہے۔ بلوچستان میں ترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے عسکری قیادت کے دعووں کے باوجود ناراض عناصر کو اختیارات کے حقیقی وارث اور مستحق کی حیثیت سے اپنا حق نہ ملنے کی شکایت ہے۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر ان کے موقف کا سامنے آنا قومی سلامتی کے منافی تصور کیا جائے۔ ناانصافیوں پر شکایات اور احتجاج ایک گھر میں بھی ہوتا ہے۔ بیٹے والدین سے ناراض ہو کر گھر سے چلے جاتے ہیں۔ حق نہ ملنے پربھائی اور بھائی کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اس اختلاف کو جبر سے ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے سب کو انصاف اور جائز حقوق کا فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان کے چارصوبے چار چھوٹے بڑے بھائیوں کی طرح ہیں۔ ان کے درمیان خوشگوار تعلقات اور بھائی چارہ اسی صورت میں یقینی بنایا جاسکتا ہے جب سب کو یکساں عزت، احترام اور برابری کا درجہ دیا جائے۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل بلوچ عوام کو ان کے تمام جائز آئینی حقوق دے کر اور اس مقصد کے لئے ناراض عناصر سے بامقصد مذاکرات کرکے ، ان کے ساتھ ماضی میں ہونے والی زیادتیوں اور حق تلفیوں کا حتی الامکان ازالہ کرکے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
گیس نادہندگان۔ آپریشن درست
وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے گیس نادہندگان کے خلاف کارروائی کے احکامات کے بعد سوئی ناردرن گیس کے ارباب اختیار نے جمعہ کے روز ملک بھر میں واجبات ادا نہ کرنے والے سینکڑوں افراد کے کنکشن کاٹ دیئے اور صرف لاہور ریجن میں لاکھوں روپے کی عدم ادائیگی پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سمیت 4صوبائی وزراء، کمشنر ہائوس لاہور اور ڈی آئی جی سول لائن آفس سمیت کئی دفاتر اور افسران کے کنکشن منقطع کر دیئے۔ فیصل آباد میں بھی 9نادہندہ سرکاری اداروں کے گیس کنکشن کاٹ دیئے گئے ہیں۔
ہمارے ملک میں بااثر افراد اور اداروں کی طرف سے اپنے سرکاری واجبات ادا نہ کرنا ایک روایت بن گیا ہے اور اسے ایک قسم کا ’’اعزاز‘‘ سمجھا جاتا ہے جس پر مستزاد یہ بنیادی انسانی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کے حکام بھی سیاسی شخصیات اور اہم سرکاری مناصب پر فائز افراد سے باز پرس کرنے سے کتراتے ہی نہیں برملا پہلوتہی اور گریز کرتے ہیں یہاں تک کہ یہ واجبات لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں کی حدود کو چھونے لگتے ہیں اور کوئی ادارہ اتنے بھاری خسارے کا شکار ہو گا تو نہ تو عام صارفین کو کوئی سہولت مہیا کر سکے گا نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہی شروع کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنا پر وزارت پٹرولیم و گیس اور اس کے تحت کام کرنے والے کمپنیاں ملک میں مختلف جگہوں پر موجود ذخائر کو تلاش کرنے کا کام موثر طریقے سے کر پاتی ہیں نہ صارفین کوگیس کے نرخوں میں کمی، مسلسل سپلائی کو برقرار رکھنے اور لوڈشیڈنگ سے نجات ایسی کوئی سہولت دے سکتی ہے۔ اور ان کا سارا زور گیس کی قیمت میں اضافہ کر کے اپنے معمولات انجام دینے پر ہی مرکوز رہا ہے۔ ہماری پوری تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال کر ان کے گیس کنکشن منقطع کئے گئے ہیں۔ اگر گیس کے علاوہ دوسرے اداروں کے واجبات وصول کرنے کا کام بھی اسی تسلسل اور اسی انداز میں کیا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت کے چہرے پر نکھار آ سکتا ہے بلکہ عوام کو بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی دبائو قبول نہ کیا جائے۔

اب دھماکے کیوں؟
شہر قائد میں دوسرے روز ہونے والے بم دھماکے میں خاتون سمیت 6؍ افراد جاں بحق اور 30؍ زخمی ہو گئے۔ تین سرکاری گاڑیوں سمیت 10سے زائد گاڑیوں، 5رکشوں، موٹر سائیکلوں، رہائشی اور زیر تعمیر عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ جمعرات کو ایک خودکش دھماکہ میں ایک سابق پولیس افسر اور تین دوسرے افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ شہر قائد ہی نہیں ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کے بعد خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں خاصی کمی آئی تھی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھی کہا جا رہا تھا کہ اب اس سے نجات مل جائے گی۔ لیکن کراچی شہر گزشتہ روز ایک بار پھر دھماکہ کی آواز سے گونج اٹھا۔ ایک دھماکہ میں ایک ماں اور اس کا بیٹا بھی جاں بحق ہوئے ہیں جو امتحان دے کر اپنی ماں کے ساتھ واپس گھر جا رہا تھا۔ سندھ کے آئی جی کا کہنا ہے کہ حملہ کا ٹارگٹ ایک بس تھی جو امام بارگاہ سے نمازیوں کو لے کر واپس جا رہی تھی ۔ ان بم دھماکوں کی اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار کسی بھی دہشت گرد گروپ نے ابھی تک اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی پر الزام عائد کیا گیا ہے۔ کراچی میں دہشت گردوں اور دوسرے جرائم کے خاتمے کے لئے ایک بھرپور آپریشن جاری ہے۔ دو روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس پر اطمینان کا اظہار کیا تھا اور سندھ حکومت کی جانب سے یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ کراچی میں حالات تیزی سے بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور جلد ہی اس شہر کو اندھیروں سے نکال کر ’’روشنیاں ‘‘ بحال کر دی جائیں گی۔ لیکن زمینی حقائق ان دعووں کی تصدیق نہیں کرتے۔ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اب دو دھماکے بھی ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اب دھماکے کیوں؟ سندھ ہی نہیں وفاقی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے اہم ترین صنعتی شہر میں امن بحال کرنے کے لئے موثر اقدامات کریں۔
تازہ ترین