• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’گارڈین‘‘ برطانیہ کے مقبول ترین اخبارات میں سے ایک ہے۔ اس نے چند ماہ قبل ایڈورڈ سنوڈن کے تہلکہ خیز انکشافات سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی اور اس کی گونج برطانیہ کے ایوانوں میں بھی سنائی دی کیونکہ اس میں برطانیہ کے خفیہ ادارے MI5 کے کرتوت بھی بے نقاب کئے گئے تھے۔ ’’گارڈین‘‘ کی اس جسارت پر ایم آئی فائیو کے ڈائریکٹر جنرل Andrew Parker نے سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ خبر شائع کر کے دہشت گردوں کو تحفہ دیا گیا ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ حرکت سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ برطانوی وزیر دفاع حساس ادارے کا وقار مجروح کئے جانے کا نوٹس لیتے اور اس اخبار کو شوکاز نوٹس دیا جاتا کہ کیوں نہ آپ کے اخبار کا ڈکلیئریشن منسوخ کر کے اشاعت پر پابندی عائد کر دی جائے مگر ایسا نہ ہوا بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کے رُکن Dominic Raabسمیت کئی سیاستدان خم ٹھونک کر میدان میں آگئے اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کہا کہ کسی ادارے پر تنقید کرنے یا الزام لگانے سے وقار مجروح نہیں ہوتا بلکہ یہ اخبار کا بنیادی حق ہے۔ یوں ڈی جی ایم آئی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ قومی سلامتی کے ادارے جہاں بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں یا انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب ہوتے ہیں،میڈیا واچ ڈاگ کی طرح ان کے جرائم سامنے لاتا ہے ۔ابو غریب جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی کی تصاویر اور ویڈیوز کس نے جاری کی تھیں؟؟ ان تصاویر سے امریکی افواج کی تذلیل و تحقیر ہوئی یہاں تک کہ اس عقوبت خانے کو بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ مجھے تعجب ہے کہ اس حرکت پر واشنگٹن پوسٹ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا۔چلیں یہ تو ترقی یافتہ ممالک ہیں،ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ بھارتی ٹی وی چینلز اور اخبارات اپنے ملک کے حاضر سروس جرنیلوں کے اسیکنڈلز سامنے لاتے ہیں مگر ان کے ہاں کسی ادارے کا وقار مجروح نہیں ہوتا۔ آپ کو یاد ہو گا جب سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکہ ہوا تو پاکستان شک کے کٹہرے میں کھڑا تھا مگر چند ماہ بعد بھارتی میڈیا نے ہی یہ تہلکہ خیز انکشاف کیا کہ اس دھماکے میں بھارتی انتہاپسند جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ کے ارکان ملوث ہیں۔ بھارتی میڈیا کی اس خبر سے ہمارے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو تنقید کا موقع میسر آ گیا ۔بھارت کو سفارتی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی نے خبر بریک کرنے والے چینل پر غداری کی تہمت نہیں لگائی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کی نشریات بند کر دی جائیں کیونکہ وہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جسے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار ہو۔ کوئی ایسا ادارہ نہیں جس پر تنقید سے اس کا وقار مجروح ہوتا ہو۔
کہنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ پاکستان میں میڈیا کو آزادی حاصل نہیں۔ یہاں بھی آزادی ہے۔آپ کسی بھی سیاستدان کی پگڑی اچھال سکتے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو چور اچکّا کہیں یا بدمعاش ،کوئی قدغن نہیں۔ آپ کو پوری پارلیمنٹ کی اہانت کرنے کا حق ودیعت کیا گیا ہے،آپ کو صدر اور وزیر اعظم کے میڈیا ٹرائل کا اختیار دیا گیا ہے،عدالتوں کا احترام واجب تو ہے مگر آپ کو کسی کی سرپرستی حاصل ہے تو بلاناغہ اپنے شو میں حاضر سروس چیف جسٹس کے خلاف بازاری زبان استعمال کی جا سکتی ہے،آپ اپنے ہم عصر ٹی وی چینل کے خلاف بھڑاس نکال سکتے ہیں،کوئی پیمرا نوٹس نہیں لے گا۔ آپ نظریہ پاکستان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیں یا اسلام کو گالیاں دیتے رہیں ،کوئی قانون حرکت میں نہیں آئے گا لیکن جس دن آپ نے دریا میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر کیا،آپ کے پر کاٹ دیئے جائیں گے۔
اس وقت کٹہرے میں موجود جیو نیوز پر الزام یہ ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے ایک حساس ادارے پر الزامات عائد کئے گئے۔ ہمارے ہاں جب بھی کوئی واردات ہوتی ہے تو مضروب پارٹی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ شک و شبہے کی بنیاد پر جس کو چاہے نامزد کر دے۔ وطن عزیز میں ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی، مقدمہ چلا اور اسے پھانسی بھی ہوئی۔ حامد میر کے معاملے پر ان کے اہل خانہ نے حساس ادارے کو مورد الزام ٹھہرایا اور جیو نیوز نے ان کا موقف من و عن نشر کیا تو کس قانون کی خلاف ورزی ہوئی؟ شاید اس غیر مطبوعہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی کہ حساس ادارے کے ضمن میں بے حسی اور خاموشی کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ان دنوں چاپلوسوں، خوشامدیوں اور بھاڑے کے ٹٹوئوں کی چاندی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی تلبیس اطلاعات کی مہم زوروں پر ہے۔ ہٹلر سے منسوب ایک قول پھیلایا جا رہا ہے کہ جس قوم کو تباہ کرنا مقصود ہو اس کی فوج کو عوام کی نظروں میں اس طرح سے گرا دو کہ وہ اپنے محافظوں کو ہی دشمن سمجھنے لگے۔ ہٹلر کو معتبر انسان کے طور پر پیش کرنے والے گوئبلز سے میری گزارش ہے کہ اگر ہٹلر کے اس قول کا کوئی ریفرنس ،کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔
ویسے میرا بھی یہی خیال ہے میڈیا کا گھوڑا کچھ زیادہ ہی بے لگام ہو گیا تھا۔ جب تک اس کی تھوتھنی ڈھکی ہوئی تھی،لاپتہ ہو جانے والے صحافی اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتاتے تھے کہ اتنے دن کس کی میزبانی میں بسر ہوئے۔ کوئی گھائل ہو جاتا تو بھی یہی بتاتا کہ اندھی گولی تھی نہ جانے کدھر سے آئی، کوئی پیشہ ور چور ڈاکو ہوں گے۔ یوں معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔ یہ گھوڑے تو اس قدر شریف اور تابعدار ہوا کرتے تھے کہ جہاں طنابیں کھینچ دی جاتیں وہیں رُک جاتے اور جب باگ ڈھیلی چھوڑ دی جاتی تو سرپٹ بھاگنے لگتے مگر پھر جنرل پرویز مشرف کو جانے کیا سوجھی،اس نے ان گھوڑوں کو اصطبل سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی۔ ہریالی اور آزادی بیک وقت مل جانے سے یہ گھوڑے منہ زور ہو گئے۔ تنومندی نے عقل مندی چھین لی۔ اصطبل سے نکال کر کھلا چھوڑنے والوں کی منشاء تو یہ تھی کہ ان کے سوا یہ سب کو کاٹیں گے مگر وہ جب چاہیں ان پر سواری کر سکیں گے مگر آزادی کے خمار میں ان گھوڑوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب ہر شے ریموٹ کنٹرول ہو سکتی ہے تو ان گھوڑوں کو بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک گھوڑا تو اس دوڑ میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا۔اس کا خیال تھا کہ باقی گھوڑے بھی اس کے پیچھے دوڑ میں شامل ہیں مگر اچانک پیچھے مُڑ کر دیکھا تو سب گھوڑے تھوتھنیاں پہنے سائس کے اشاروں پر ناچ رہے تھے۔سرکش گھوڑوں کو سدھانے والوں کی خواہش ہے کہ باقی سب تو ان کی ٹاپوں تلے مسلے اور روندے جائیں مگر جب جہاں ان کی باگ ریموٹ کنٹرول سے کھینچ دی جائے ،ان کے دوڑتے قدم رُک جائیں مگر اس بار سرکش گھوڑے نے سائس کو ہی روند ڈالا۔ ایوان اقتدار میں بیٹھے وہ لوگ جو تماشائیوں کی طرح تالیاں پیٹ رہے ہیں،انہیں معلوم نہیں کہ یہ حساس لوگ میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سواری کرنے میں کامیاب ہوگئے توان کی جمہوریت ایک بار پھر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندی جائے گی۔
تازہ ترین