• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلا نقارہ بج چکا، اگرچہ زیادہ زوردار نہیں، لیکن جیسا کہ توقع تھی، قوم کے دائمی احتجاجی رہنما ، عمران خان نے سات اگست سے پاناما لیکس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کردیاہے ۔رمضان ختم، وقفہ پورا ہوچکا، چنانچہ سیاسی درجہ حرات بڑھ رہا ہے ۔ تاہم دیکھنایہ ہے کہ عمران خان کو اس راہ پر کس قسم کی مدد ملنے کی توقع ہے؟ وہ کتنی عوامی حمایت اپنے ساتھ کرسکتے ہیں؟ فی الحال یہ کہنامشکل ہے ۔ ایک بات طے کہ یہ تحریک پی ٹی آئی نے اپنے طور پر شروع کی ہے ۔ پی پی پی کے سامنے کچھ دیگر مسائل ہیں، اور جہاں تک جماعت ِاسلامی کا تعلق ہے تو وہ ڈرامہ کھیل رہی ہے ۔ دل سے حکومت مخالف تحریک کے حق میں نہیں ہے ۔اس کے رہنما، سراج الحق عمومی بات کرتے ہیں کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا چاہئے، وغیرہ ،لیکن جماعت کے تیر ِ نیم کش کے سامنے کوئی قطعی ہدف نہیں ہے ۔ تو سوال اپنی جگہ پر کہ پی ٹی آئی پھر لاہور سے تحریک کا آغاز کیسے کرے گی؟
علامہ طاہرالقادری کے پاس اسٹریٹ پاور ہے ، لیکن کیا وہ اپنے کارکنوں کا رخ جاتی امرا کی طرف موڑیں گے ؟اس وقت تک علامہ صاحب مشاورت کررہے ہیں ۔ چنانچہ عمران خان کی تحریک کا دارومدار اس بات پر ہے کہ لاہور میں کس قدر گرما گرمی پیدا ہوتی ہے ۔ جب ایک مرتبہ کارواں چل نکلا تو پھر دیگر مسافر اس میں شامل ہوتے جائیں گے ، لیکن اصل مسئلہ اسے شروع کرنے کا ہے ۔اس کے باوجود حکمران جماعت پر دبائو موجود ہے ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری نے چپ کی چادر تان لی ہے ؟کیا اُنہیں کوئی ہدایت ہے یا اُن کا مورال ڈائون ہوچکا ہے ؟
یہ صرف وزیر ِاعظم ہی نہیں جو علیل ہیں، اس وقت تمام حکومت بیمار دکھائی دیتی ہے ۔ ہر کوئی بمشکل اپنی سانسیں قائم رکھنے کی کوشش میں ہے ۔ اس دوران اسلام آباد کے امور کون چلا رہا ہے ؟ ایک بھاری بھرکم بیوروکریٹ اور وزیر اعظم کی صاحبزادی، اور ان کی توجہ کا ارتکاز بھی میڈیا مینجمنٹ پر ہے ۔ دیگر اہم توجہ طلب امور ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اسلام آباد ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کررہا ہے کہ کسی طور یہ بحران خود بخود ختم ہوجائے ۔ اس دوران عوام مضطرب ہیں۔ جہاں بھی جائیں لوگ ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’اب کیا ہوگا‘۔ کچھ دیگر سوالات بھی ہیں لیکن فی الحال ان کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ بے شک سیاسی طبقہ اور مبصرین حال سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے مستقبل میں پلٹے جانے والے اوراق کا مطالعہ کرنے کی سعی میں ہیں۔ ہر کوئی دیکھنا چاہتا ہے کہ اگست میں کیا ہوگا۔ حتی کہ نجومی بھی ستاروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی خدمات مستعار لینے کا وقت قریب آتاجارہا ہے۔ ان کے مطابق ستارے کہتے ہیں کہ اگست بہت اہم مہینہ ہے ۔ ایک غیر یقینی ماحول میں اعدادوشمار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔
میرا اندازہ ہے کہ اس وقت تک فوج کی ہائی کمان بھی واضح نہیں ہے ۔ وہ موجوہ حکومت کی کارکردگی سے تو نالاں ہے لیکن یہ بات طے نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے؟چنانچہ بہت سے مفروضے، التباسات اور توجیحات گردش میں ہیں۔ کچھ بھی واضح اور دوٹوک نہیں۔ آرمی چیف کی مدت ِ ملازمت میں توسیع کی بحث گزشتہ جنوری میں دم توڑ گئی جب اُنھوں نے خود ہی اعلان کردیا کہ وہ توسیع لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ تاہم کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ فی الحال یہ معاملہ اتنا بھی طے نہیں ہواجتنا دکھائی دیتاہے ۔ پاکستان کی صورت ِحال کا غیر یقینی پن اس حد تک ہے کہ دوٹوک معاملات بھی مبہم دکھائی دیتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ فرد ِ واحد کی رائے کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے ، لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ آرمی چیف کی مدت ِ ملازمت میں توسیع تباہ کن ہوگی، کیونکہ اُنھوں نے کراچی، فاٹا اور دیگر علاقوں میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ سب رائیگاں چلی جائیں گی اور ن لیگ کے جتھے کو خوشی سے شادیانے بجانے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جنرل راحیل شریف کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ان کے جانشین جنرلوں کو بھی انہی خطوط پر سوچنا ہوگا۔
مغل بادشاہوں میں جانشینی کے مسئلے پر جنگیں ہوتی تھیں، بیٹے اپنے باپ کی حکومت کے باغی بن جاتے تھے ، بھائی بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار پربیٹھ جاتے تھے ۔ اقتدار کے کھیل میں جذبات کو نہیں ، حریفوں کو دیکھا جاتا ہے ۔ اس وقت جنرل راحیل شریف بہت بلند قامت دکھائی دیتے ہیں، لیکن اگست کے اختتام تک ان کی جانشینی کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ دوسری طرف شریف حکومت کی اقتدار پر گرفت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، ان کی فعالیت جیسی ہے، ویسی ہی رہے گی، گو کچھ اطمینان ضرور نصیب ہوگا۔ نواز شریف اقتدار پر موجود ، لیکن ان کے خلاف احتجاجی تحریک صف آرا ہورہی ہے ۔وہ اپنی داخلی کمزور ی کے ساتھ اس تحریک کا کس طرح مقابلہ کرپائیں گے جب کہ اس کا آغاز پنجاب کے دل، لاہور سے ہورہا ہے ۔ آئین اپنی جگہ پر موجود ہے ، اسمبلیاں فعال ہیں، عدالتیں کام کررہی ہیں لیکن غیر یقینی پن کی دھند چھٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کی بے رحم گردش پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طویل ترین مسافر، نواز شریف کے تعاقب میں ہے ۔ وہ ایک اور دور میں سیاسی اکھاڑے میں اتارے گئے تھے ۔ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب سے بھٹو کے خلاف کسی قابل ِ قبول طاقت کی ضرورت تھی ،لیکن اب مدت ہوئی وہ دور تمام ہوا۔ اب اسٹیبلشمنٹ اُنہیں مشکوک نظروںسے دیکھتی ہے ۔ گزرتے ہوئے ماہ وسال نے ان کی بہت سی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے ۔ پاناما لیکس ان مسائل کو ایک نئی جہت دے رہی ہے ۔
اس تمام رنگ بدلتے ڈرامے کا سب سے غیر اہم پہلو حکمران جماعت کے ارکان ِ اسمبلی ہیں۔ وہ بے چارے کچھ جانتے ہی نہیں اور نہ ہی اُنہیں کچھ بتایا جاتا ہے ۔ کیا کسی نے اُن سے مشاورت کرنے کی ضرورت محسوس کی؟ اُن کی اس صحرا میں کوئی صدا ہی نہیں،تو وہ نہائیں کیا، نچوڑیں کیا ؟وہ اپنے اپنے حلقوں میں فخر سے چلتے پھرتے ہیں، لیکن اسلام آباد کی راہداریوں میں وہ چلتے پھرتے سایوں جیسے ہیں۔ فی الحال ہماری پارلیمانی جمہوریت کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے ۔ میں یہ نہیں سوچتا کہ کوئی طالع آزما کمر کس رہا ہے ۔ میر انہیں خیال کہ یہاں بھی کوئی جنرل السیسی مصری ماڈل کو دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ درحقیقت فوج سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ، اور یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ۔ لیکن فوج نے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے اُسے تو دوام ملنا چاہئے۔ سیاستدان ہوائی قلعے بھی تعمیر کرنے کے قابل نہیں، پی ایم ایل (ن) بطور جماعت تھکاوٹ کا شکار اور نئے تصورات سے تہی داماں ہے ۔
تو کیا سویلین یا فوج کے گروہوںسے کوئی صاحب نگاہ دکھائی دیتا ہے ؟کیا یہ قوم اتنی بانجھ ہوچکی ؟کیا ہم کسی لق دق صحرا کے طلسم کے اسیر ہوچکے؟ چند روز پہلے خادم ِ اعلیٰ فرما رہے تھے ۔۔۔’’اس گرمی میں کھڑے ہوکر میں سوچتا ہوں کہ ہمیں صحت کی سہولتوں پر توجہ دینی چاہئے۔‘‘ اﷲ اکبر، یہ خیال تین دہائیاں حکومت کرنے کے بعد موصوف کے ذہن میں آیا ہے ۔ ستاروں پر نظر جمائے رکھیں، یہ فاصلہ کم ہوہی جائے گا۔ دانائی آتے کوئی دیر لگتی ہے؟ تین دہائیوں جیسے قلیل عرصے میں اسپتالوں کی ضرورت تو محسو س ہوئی۔ خدا ہم پر رحم کرے، ہم اتنے بھی بے دست و پا نہیں۔
تازہ ترین