• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ویک اینڈ سے ترکی میں فوجی مداخلت کی ناکا م کوشش کے بعد سے پاکستان میں بہت جوش وخروش پایا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم اور ترک قوم تحریک ِخلافت کے وقت سے بھائی چارے کے اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں،اور ہم پریشان تھے کہ ہمارے بھائی کس طرح آمریت تلے زندگی گزاریں گے ۔ پاکستان اور ترکی، دونوں ماضی میں طویل عرصے تک فوجی آمریت کی تاریخ رکھتے ہیں، اور اس دوران کبھی ہمارے تعلقات میںکوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف موجودہ دور کے کسی بھی پاکستانی حکمران سے زیادہ ترکی میں مقبولیت رکھتے تھے ۔
ہم میں سے زیادہ تر نے ترکی میں رونما ہونے والے واقعات پرتشویش نگاہوں سے دیکھے اور خدشہ محسوس کیا کہ ان کا پاکستان کے حالات پر بھی اثر ہوسکتا ہے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ’’نجات دہندہ کی آمد‘‘ کا خدشہ سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح منڈلاتا رہتا ہے، خاص طور پر جیسے ہی کسی نئی قائم ہونے والی حکومت کا ہنی مون پیریڈ خیر سے ختم ہوتا ہے ۔ جی ایچ کیو میں آرمی چیف کی تبدیلی سے کچھ عرصہ پہلے بھی اس خدشے میں شدت درآتی ہے ۔ یہ بات واضح تھی کہ ترکی میں حکومت کو ہٹائے جانے کی کسی بھی کوشش کا ارتعاش پاکستان میں محسوس کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کسی فوجی جنرل کو موجودہ آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کی سی پذیرائی نہیں ملی ۔جب پاکستان بھر میں آرمی چیف کو مداخلت کرنے کی دعوت دینے والے بینرز لگے ہوں ، جبکہ حکمران خاندان پاناما پیپرز سے اٹھنے والے طوفان کی زد میں ہو اور اپوزیشن پی ایم ایل (ن) کی حکومت کو چلتا کرنے کے لئے احتجاجی تحریک شروع کرنے والی ہو تو ترکی میں فوجی مداخلت کی کامیابی نے نہ صرف شریف فیملی بلکہ پورے ملک اور اس کے آئینی ڈھانچے کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دینی تھیں۔ تاہم ترکی میں اس کی ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں طالع آزمائی کا جوش سرد پڑجائے گا، اور مہم جوئی کی دعوت دینے والے مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے ۔
ترک شب خون کی ناکامی پر پی ایم ایل (ن) اور اس کے حامیوں کا جوش اور خوشی اپنی جگہ پر ، تو شب خون کی ابدی ضرورت محسوس کرنے والوں کی تلملاہٹ بھی دیدنی ہے ۔ وہ وضاحتیں کرتے چلے جارہے ہیں کہ شب خون کی ناکامی کی وجہ اس کے لئے مناسب تیاری اور پلاننگ کا نہ ہونا تھا۔وہ باغی دستے کو غائبانہ طور پر شب خون مارنے کے نستعلیق طریقے سمجھاکر ثواب ِ دارین کمارہے ہیں۔ طرفین اپنی اپنی سوچ کے زاویے کے مطابق اسے پاکستان کے حالات پر منطبق کرکے دیکھ رہے ہیں۔ ٹیم پی ایل ایل (ن)کی خواہش ہے کہ ترکی کے فیل شدہ شب خون کو پاکستان میں ایک ڈیٹرنس کے طور پر دیکھا جائے ، جبکہ ٹیم نجات دہندہ کا اصولی موقف ہے کہ اگر یہ کارروائی اس پاک سرزمین پر ہوئی ہوتی تو ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔
اس مخالف رائے کے دو حصے ہیں۔ پہلا اگر پاکستان میں ایسی صورت حال ہوتی تو نچلے درجے کے افسران کی بجائے اعلیٰ قیادت شب خون کی کمان اپنے ہاتھ رکھتی، چنانچہ یہ کامیاب ہوجاتا۔دوسرا یہ کہ عوام فوج کے سامنے مزاحم ہونے کی بجائے اسے خوش آمدید کہتے ۔ گویا کہنے کا مطلب یہ کہ پاک فوج کے بہترین جوان ادھورا کام کرتے اور نہ بے دلی سے ہاتھ ڈالتے ۔ یہ بات درست ہے کہ عام لوگ اُنہیں خوش آمدید کہتے ۔یہ ہمارے ہاں کی ایک غیر متنازع حقیقت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر پاکستانیوں کو ترکی میں رونما ہونے والے مناظر، جیسا کہ عوام کی فوجی دستوں کے سامنے بغاوت، ٹینکوں کے سامنے لیٹ جانا، پولیس کا فوجی افسران کو گرفتار کرنا وغیرہ انتہائی انوکھے اور قابل ِرشک لگے تھے ۔ کم وبیش ہر کوئی جو ہماری فوج کے اندرونی ڈھانچے اور قواعد سے واقف ہے ، اسے پتہ ہے کہ پاکستان میں شب خون صرف آرمی چیف ہی مارسکتا ہے ۔ ماتحت افسران ایسا نہیں کرسکتے،اوراس بات پر ہمیں خدا کا شکرا دا کرنا چاہئے ۔ اپنی کتاب ’’ دی ریپبلک ‘‘ میں افلاطون پوچھتا ہے’’محافظوں کی حفاظت کون کرتا ہے ‘‘ سیموئل فینر ’’دی مین آن دی ہارس بیک‘‘ میں معنی خیز انداز میں کہتا ہے کہ ’’’حیرت اس بات پر نہیں کہ فوج سویلین ماسٹر سے بغاوت پر کیوں اتر آتی ہے، مقام حیرت یہ ہے کہ وہ ان کا حکم کیوں مانتی ہے ؟‘‘ چنانچہ آمریت سے قانون کی حکمرانی کی طرف سفر کرنے والے معاشرے، آئین کی سربلندی، اداروں کا ارتقا، سیاسی استحکام اور سماجی آزادی، سب کچھ سفر مکمل ہونے سے پہلے کچھ افراد کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔کیا ہم جنرل راحیل شریف سے اپیل نہیں کررہے کہ وہ آئیں اور آکر معاملات کو درست کریں؟
پاکستان میں نجات دہندہ کا منتظر طبقہ طیب اردوان اور ان کی حکومت کے حوالے سے بہت سی وضاحتیں کررہا ہے کہ آخر وہاں شب خون ناکام کیسے ہوگیا؟ایک بات تو طے ہے کہ مسٹر اردوان آمرانہ رویہ رکھنے والے سویلین حکمران ہیں۔ اُن میں صبر، برداشت اور تحمل کی کمی ہے ۔ اُنھوں نے اختلاف کرنے والے جنرلوں، ججوں، دانشوروں ، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی ہے ۔ وہاں میڈیا پر سنسر شپ ہے ۔ گزشتہ پندرہ برس کے دوران ترکی کی معاشی ترقی ایک طرف، مسٹر اردوان ملک کے لئے کوئی ایسا ’’مسیحا‘‘ نہیں ہیں جس کی آمد کا پاکستان میں انتظار کیا جارہا ہے ۔ تاہم ان کی آمرانہ پالیسیوں اور مخالفین پر سختی کے باوجود ترکی میں ان کے بدترین مخالفین نے بھی فوجی بغاوت کے سامنے مزاحمت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی کو سمجھ آچکی ہے کہ ایک متنازع سیاسی رہنما کو منصب سے ہٹانے کے لئے بھی فوجی بازو درست آپشن نہیں ہے۔
افسوس یہ بات ہمارے ہاں عمران خان کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ وہ بدستورفوج کی آمد کو قابل ِ قبول کہتے رہے ۔قانون نافذ کرنے کے لئے اداروں کی طرف سے طاقت کا استعمال ایک بات ہے ، لیکن جو ٹینک ، طیارے اور ہتھیار قوم نے اُنہیں دشمنوںسے لڑنے کے لئے دئیے ہیں، ان سے قوم کو ڈرا کرمن مانی کرنا دوسری بات ہے ۔ اپنے ہی ہتھیاروں سے اپنا گھرفتح کرنے کی کوشش کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی، اور نہ ہی قانوناََ اس کا کوئی جواز نکلتا ہے ۔ تاہم قانون کی حکمرانی کی بات ہمارے ہاں اجنبی بیانیہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ دلیل کہ فوجی حکومت کا خیر مقدم اس لئے کیا جائے گا کیونکہ سویلین رہنما نااہل ہیں ، انتہائی بودی اور عقل کے منافی ہے ۔ اس وقت برطانیہ ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس وقت سیاست دان اسے حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں لیکن شاید ہی کسی ذہن میں نیم مدہوشی کے عالم میں بھی فوج کو مداخلت کی دعوت دینے کا خیال آیا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کا صدر بننا امریکہ کے لئے ایک ڈرائونے خواب کے مترادف ہو لیکن مجال ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے ذہن میں واشنگٹن میں اقتدار سنبھالنے کا خیال بھولے سے بھی آسکے ۔ یہ درست ہے کہ ہم نہ تو برطانیہ ہیں اور نہ ہی امریکہ ، اور ہمارے ادارے بھی ارتقا کے مختلف مراحل طے کررہے ہیں۔ اسی طرح ہماری آگاہی اور سیاسی بصیر ت بھی ترقی کے مختلف مراحل میں ہے۔ ہم فوج کی تعریف کرتے ہیں، لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فوج کی طاقت کا انحصار ایک فرد کی طاقت پر نہیں ہے ۔ یہ ایک ادارے کی طرح اپنے قوانین پر عمل کرتی ہے۔ اس میںکسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ جب جنرل راحیل شریف کی مدت پوری ہوجائے گی اور نئے آرمی چیف منصب سنبھالیں گے تو فوج کی فعالیت ایسی ہی رہے گی۔ فوج کی کارکردگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ قوانین پر من و عن عمل کرتی ہے ، لیکن ستم یہ ہے کہ پاکستان کاقانون اس کے رحم وکرم پر رہتا ہے ۔اگر فوج کا سربراہ خراب ہو تو بھی یہ ادارہ اسے مدت ختم ہونے سے پہلے نہیں جانے دیتا، چاہے اس کی وجہ سے ادارے کا نقصان ہورہا ہو۔ تو پھر سویلین رہنمائوں کے حوالے سے یہ منطق کیوں جواب دے جاتی ہے؟
تازہ ترین