• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رات کے بارہ بجے ہیں ۔ کشمیر کے الیکشن کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت سے میدان مار لیا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت میں ہونے کے باوجود رسوا ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے دعوے ، وعدے اور نعرے کہیں پاتال میں دفن ہو گئے ہیں۔ ابھی تک کہیں سے دھاندلی کی آواز سنائی نہیں دی۔ انتخابات کی شفافیت کا یہ عالم تھا کہ ایک جسٹس صاحب کو اپنا اصل شناختی کارڈ پیش نہ کر سکنے کی پاداش میں ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر فوج کا چاق و چوبند عملہ نہایت فعال طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ توقع کے برعکس پولنگ کے دوران امن و امان کی صورت حال قابو میں رہی۔ کہیں کوئی اکا دکا واقعات تو بد نظمی کے سنے گئے مگر مجموعی طور پر یہ مرحلہ خیر و خوبی سے طے پاگیا۔ ان انتخابات کا سب سے بڑا سیٹ بیک پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بیرسٹر سلطان محمود کی شکست رہا۔ بیرسٹر صاحب اس سے پہلے سات دفعہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ کشمیر کے صدر بھی رہے اور کشمیر میں اپنے سیاسی رسوخ کی بنا پر بہت اہمیت کی حامل شخصیت ہیں۔ انکی اس بڑے پیمانے پر شکست لوگوں کو حیران کر رہی ہے۔
لوگ حیران ہوتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ بات کی جائے تو گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔سمجھانے والے کے خاندان بھر کو توم ڈالتے ہیں۔ لفافہ ، سفارشی، لوٹا اور رشوت خورجیسے القابات سے نوازتے ہیں مگر بات سمجھتے نہیں۔ لوگوں کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ تحریک انصاف اب وہ نہیں جو دو ہزار تیرہ میں تھی۔ یہ وہ جماعت نہیں ہے جس نے دو ہزار گیارہ میں مینار پاکستان پر تاریخ کا ایک بہت بڑا جلسہ کر کے روایتی سیاسی پارٹیوں کی مسند اقتدار کو ہلا دیا تھا۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جو تبدیلی کا نعرہ لگاتی تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جو موروثی سیاست اور اقرباء پروری کے خلاف تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں جو انصاف اور ہر سطح پر انصاف کا جھنڈا بلند کرتی تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جو دنوں میں لوگوں کے حالات بدلنا چاہتی تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جس نے کرپشن کو نوے دن میں ختم کرنا تھا۔ یہ وہ جماعت نہیں ہے جس نے کرپٹ سیاستدانوں، پراپرٹی مافیا اور رشوت خور افسروں کا احتساب کرنا تھا۔یہ وہ جماعت بھی نہیں جس نے غربت ، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کو دنوں میں ختم کرنا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ووٹر بدل گئے ہیں ۔ ووٹر وہی ہیں جماعت بدل گئی ہے۔ قیادت کا ذہن بدل گیا، ترجیحات بدل گئی ہیں۔ تو جیہات بدل گئی ہیں ۔ ترغیبات بدل گئی ہیں۔
دو ہزار تیرہ سے لے کر اب تک عوام کی نظر میں تحریک انصاف بہت مختلف ہو گئی ہے، اب تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو انصاف، اصول، اور اعمال کو بالائے طاق رکھ کر ہر قیمت پر برسر اقتدار آنا چاہتی ہے۔ اب تحریک انصاف وہ جماعت بن گئی ہے جو ہر ساعت کسی نادیدہ اشارے کی منتظر رہتی ہے۔یہ تاثر عام ہے کہ عوامی امنگوں کے بجائے کسی کے ایما پر کام کرتی ہے۔ کبھی امپائر کی انگلی سے امید لگائی جاتی ہے ، کبھی مارشل لاء کے آنے پر مٹھائیوں کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، اور کبھی ترکی کے انقلاب کو نشانہ بناتی ہے۔ اب تحریک انصاف وہ جماعت ہو گئی ہے جو اپنی ہی پارٹی کے انتخابات میں شفافیت نہ لا سکی۔ ان انتخابات کو بھی رشوت، اقرباء پروری اور دھونس دھاندلی سے نہ بچا سکی۔ اب تحریک انصاف وہ جماعت بن گئی ہے کہ جس کے پاس ہر چیز کا جواز اور جواب صرف دھرنا ہے۔ امید کی کوئی کرن ، اثبات کا کوئی پہلو، ترقی کا کوئی کارنامہ اس جماعت کے نام ساڑھے تین سال میں نہ ہو سکا۔ بس ایک نفرت کی سیاست ہے جو ہر لمحہ شعار بن گئی ہے۔ اب یہ وہ جماعت بن گئی ہے جو ایک صوبے کے معاملات نہ چلا سکی۔ اسکو غربت سے نہ بچا سکی۔ اس میں ترقی نہ لا سکی۔ اس میں کرپشن کو جڑسے نہ مٹا سکی۔جو اپنے زیر انتظام بلدیاتی انتخابات میں خون خرابے کو نہ روک سکی، اپنے اقلیتوں کے وزیر کو اپنے ہی لوگوں سے نہ بچا سکی۔ اپنی بچیوں کے لئے اسکول کھلوانے میں بھی ناکام رہی، شدت پسند مذہبی گروہوں کو روکنا تو دور کی بات اپنی اسمبلی کو انکے لئے تیس کروڑ کی خطیر رقم دینے سے نہ روک سکی۔خیبر پختونخوا میں تین سو پچاس ڈیم نہ بنا سکی، ایک ارب درخت نہ لگا سکی۔تحریک انصاف اب وہ نہیں رہی جس کے لئے لوگوں نے دو ہزار تیرہ میں ووٹ دیئے تھے۔
کشمیر کے الیکشن میں جو کچھ ہوا یہی ہونا تھا۔ اگر خان صاحب لندن میں میچ نہ دیکھتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر خان صاحب فوج کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والا بیان نہ دیتے تو صورت حال مختلف ہوتی ۔ اگر خاں صاحب صرف آخری دو دن الیکشن کمپین میں شامل ہونے کے بجائے منظم طور پر الیکشن میں حصہ لیتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر پاناما لیکس پر پیپلز پارٹی سے الحاق نہ ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر انڈین چینل پر تیسری شادی کا شوشا نہ چھوڑا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر دھرنوں کے سوا بھی کوئی کام کیا ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر امپائر کی انگلی پر ہی اکتفا نہ کیا ہوتا تو صور ت مختلف ہوتی۔ اگر خیبر پختونخوا کی حالت سنور گئی ہوتی تو صورت حال مختلف ہوتی۔مخالفین کہتے ہیں کہ اگرخان صاحب کی سیاست میں جہاز کی اہمیت اتنی نہ ہوتی تو صورت حال مختلف ہوتی۔
لاکھوں لوگوں نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا، تبدیلی کو ووٹ دیا تھا، نئے پاکستان کو ووٹ دیا تھا۔ امن و امان کو ووٹ دیا تھا۔ موروثی سیاست کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اقربا پروری کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اقلیتوں کے حق میں ووٹ دیا تھا۔خواتین کے حقوق کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تعلیم اور صحت کو ووٹ دیا تھا۔ کرپشن فری پاکستان کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن ہر آنے والے وقت کے ساتھ وہ لاکھوں لوگ اب شرمندہ نظر آتے ہیں ، ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہیں۔ کشمیر کے الیکشن کی طرح ہر الیکشن کے بعد چپ کرجاتے ہیں۔ خاموشی سے اپنی سیاسی کم عقلی پر مر جاتے ہیں۔
تازہ ترین