• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان سے مذاکرات کی کامیابی امن کی امید ہے۔ طالبان کی اندرونی جنگ کی وجہ سے امید نا امیدی میں بدلنے لگی تھی۔ مقام شکر ہے جنگ تھم گئی ، جنگ کی وجہ سید خان سجنا کی جنوبی وزیرستان کی امارت پر قبضہ بتائی جاتی ہے۔یقینا تازہ ترین وجہ یہی ہو گی مگرتحریک طالبان میں گروہی اختلاف کی تاریخ پرانی ہے۔ 1994کی خانہ جنگی کے بطن سے تحریک طالبان افغانستان نے وجود پایا۔ 1996 میں طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں حکومت بنائی جسے 2001 میں نیٹو افواج نے بزور طاقت ختم کردیا ۔عبداللہ محسود خانہ جنگی میں شمالی اتحاد کے خلاف لڑتے ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے مگر معذوری ان کے ارادوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی ۔ 2002میں ازبک لیڈر رشید دوستم نے انہیں گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا ۔ 2004میں گوانتا ناموبے جیل سے رہائی کے بعد عبداللہ نے 5000جنگجوئوں پر مشتمل طالبان کی حمایت میں گروپ ترتیب دیا اور نیٹو افواج پر حملے شروع کر دیئے۔پہلے ڈرون حملے میں کمانڈر نیک محمد مارے گئے تو عبدللہ محسود اور بیت اللہ محسود میں قیادت پر اختلاف ہوا ۔ بیت اللہ ہمیشہ عبداللہ پر ڈبل کراس کا الزام عائد کرتا۔ عبداللہ حکومت پاکستان کواسلام آباد ہوٹل میں بم دھماکے اور چینی انجینئروں کے اغوا برائے تاوان میں مطلوب تھا ۔ پاکستانی ایجنسی نے مخبرکی اطلاع پربلوچستان کے علاقے ژوب کے ایک مکان پر چھاپہ مارا جہاں عبداللہ دیگر ساتھیوں سمیت روپوش تھا ۔ فرار کے راستے مسدود پاکر عبداللہ نے خود کو گرینیڈ سے اڑا لیا اور گرفتاری نہ دینے کا وعدہ پورا کر دیا ۔2007میں بیت اللہ محسود نے طالبان کے حامی کچھ گروپوں کو اکٹھا کرکے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی ۔عبداللہ محسود کے کزن قاری زین نے بیت اللہ پہ الزام عائد کیا عبداللہ کے ٹھکانے کی اطلاع آئی ایس آئی کو بیت اللہ نے دی ۔قاری زین نے عبداللہ محسود کے نام سے اپنا گروپ بنا لیا ۔ اختلافات کی شدت بڑھتی گئی ،بیت اللہ نے قاری زین کے والد سمیت بہت سے رشتہ دارقتل کروا دئے ۔قاری زین کو بیت اللہ کے مخالفین اور پاکستانی ایجنسیوں کی بھی تائید حاصل رہی مگر وہ پھر بھی بیت اللہ کی سازش کا شکارہو گئے ۔قاری زین الدین پر قاتلانہ حملہ اس کے باڈی گارڈ گلبدین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کیا ،حملے کے دن بیت اللہ بھی ڈیرے میں موجود تھے ۔گلبدین کے متعلق ولی الرحمٰن نے بعد میں انکشاف کیا وہ ہمارا داخل کردہ آدمی تھا ۔
بیت اللہ محسود 5اگست2009 کوڈرون حملے میں مارا گیا ۔بیت اللہ کی جانشینی پر حکیم اللہ اور ولی الرحمٰن میں شدید لڑائی ہوئی جس میں اموات بھی ہوئیں ۔ سینئر کمانڈروں کی مداخلت سے لڑائی بند ہو گئی اور مجلس شوریٰ نے حکیم اللہ کو امیر اور ولی الرحمٰن کو نائب امیر مقرر کر دیا ۔ مولوی فقیر محمد نے بطور امیر ایک ماہ سے زائد عرصہ امارت کی اور مختلف چینلز کو انٹرویو دئے ۔ انہوں نے دونوں شخصیات کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی مگر دونوں گروپس انہیں مخالف کے پلڑے میں دیکھتے تھے ۔مولوی فقیر محمد کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے ،باجوڑ کے لوگوں کی عمومی رائے ہے پاکستانی طالبان کو پاکستانی فوج سے بات چیت کرکے اچھے تعلقات بنانے چاہئیں اور اپنی پوری قوت نیٹو افواج کے خلاف استعمال کرنی چاہئے۔ مولوی فقیر محمد بھی ان خیالات سے متاثرتھا جس کا ذکر اس نے حکیم اللہ سےکیا ۔حکیم اللہ نے اسے فوج سے مذاکرات کا زبانی عندیہ دیا ۔2012میں مولوی فقیر محمد نے فوج سے ابتدائی مذاکرات کے بعد جنرل پاشا سے ملاقات کی جس کی اطلاع ’’را‘‘ اور سی آئی اے کو بھی مل گئی ۔ جنرل پاشا اور سی آئی اے کے سربراہ مسٹرپنیٹا جو بعد میں وزیر دفاع بھی بنے، ان کے مابین انہی اطلاعات کی بنیاد پر تکرار ہوئی ۔ایک رائے ہے یہ تکرار جنرل پاشا کی سروس میں توسیع کی سنگِ راہ بھی بنی ۔جنرل پاشا سے مایوس ہوکر سی آئی اے نے افغان ایجنسی کے ذریعے حکیم اللہ پر مذاکرات ختم کرنے کے لئے دبائو ڈالا ۔حکیم اللہ کو مولوی فقیر محمد سے پہلے ہی پُر خاش تھی ۔افغان ایجنسی کے علاوہ پس پشت مہربانوں کو خوش اورفقیر محمد کو رُسوا کرنے کا اچھا موقع ،جسے حکیم اللہ نے خوب استعمال کیا ۔حکیم اللہ نے شوریٰ کا اجلاس بلایا اور فقیر محمد پر شوریٰ سے اجازت اور امیر کو بتائے بغیر پاکستانی فوج کے ساتھ ملاقاتوں کا الزام عائد کیا۔ مولوی فقیر محمد نے الزام کی تردید کی اور واضح بتایا مذاکرات امیر کی اجازت سے کئے ، مذاکرات کی پیش رفت کی پوری کارروائی امیر کے علم میں لائی جاتی تھی ،حکیم اللہ نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا اور فقیر محمد کو جھوٹا ثابت کیا ۔شوریٰ نے فقیر محمد کو مجلس شوریٰ سے نکال باہر کیا اور بطور سزا کمانڈر سے عام فائٹربنا دیا ۔ازاں بعد حکیم اللہ کے مخصوص وفاداروں کی معیت میں مولوی فقیر محمد کو افغانستان میں نیٹو افواج سے لڑنے کیلئے بھیج دیا جہاں وہ گرفتار ہو گیا اور تاحال جیل میں ہے ۔فقیر محمد پاکستان کو بھی مطلوب تھا ،پاکستان نے افغانستان سے حوالگی کا مطالبہ کیا مگر امریکہ کے دبائو کی وجہ سے حامد کرزئی نے انکار کر دیا ۔ولی الرحمٰن اور حکیم اللہ کی تفریق کا پودا اب تناور درخت بن چکاہے ۔ولی الرحمٰن کے جانشین سید خان سجنا گو ہارڈ لائنر ہیں مگر وہ پاکستانی فوج سے معاملات طے کرکے اپنی پوری طاقت نیٹو افواج کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں،شہر یار حکیم اللہ گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں مگر ان کا سجنا سے شخصی اختلاف ہے۔ سجنا کو امیر بنائے جانے کی شہر یار نے کھل کر مخالفت کی تھی۔ متذکرہ گروپوں کے درمیان جنگ جزوقتی ابال نہیں اس کا تاریخی پس منظر ہے۔لڑائی رُک چکی ہے مگر یہ کہنا ہمیشہ کیلئے تھم گئی شائد درست نہ ہو ۔ قابل تحسین فیصلہ فوج کا ہے جس نے کسی بھی گروپ کی حمایت سے اجتناب کیا ۔
تازہ ترین