• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سیانوں، دانشوروں، علماء، عاملین، سینئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان چاہے کسی ہنر میں خودکفیل ہو یا نہ ہو، پاکستان عاقلوں اور بالغوں میں خودکفیل ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو کسی روز صبح سویرے سے رات دیر گئے تک اور اگر آپ چاہیں تو آدھی رات میں جاگ کر پچاس ٹیلی ویژن چینلوں کا جائزہ لیں۔ ہر چینل پر ایک ذہین ترین ہوسٹ اور ہوسٹس سننے اور دیکھنے کو ملیں گے۔ ان کے سامنے بیٹھے ہوں گے، سینئر اور جونیئر تجزیہ نگار یا تجزیہ کار،دانشور، عالم، فاضل اور سیاسی دانشور...ان کی سیر حاصل گفتگو سننے کے بعد آپ سیر پر نکل جائیں گے اور خود کو خوش نصیب محسوس کریں گے۔ آپ کو اپنی لاعلمی پر افسوس نہیں ہو گا۔ ان حقائق کے باوجود آپ کو پاکستان کے چپّے چپّے پر مجھ جیسے بونگے، جھلے، آگاہی اور ادراک سے محروم مجہول ملیں گے جو دن میں لالٹین لئے ایسے اساتذہ کی کھوج میں خاک اڑاتے پھرتے ہیں جو ان کو چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھائیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تو چکرا جاتے ہیں، چکرا کر گر پڑتے ہیں۔ بے ہوش ہونے کے بعد کوما میں چلے جاتے ہیں اور جب ہوش میں آتے ہیں تب کئی صدیاں گزر چکی ہوتی ہیں۔ میں چونکہ ان میں سے ایک ہوں اس لئے ان کی بپتا اچھی طرح بیان کر سکتا ہوں۔
ہم یہ جاننا نہیں چاہتے کہ(Antaractic)کی برف میں رہنے والے اسکیمو کب کپڑے بدلتے ہیں اور کب نہاتے ہیں۔ سورج نہ کہیں جاتا ہے اور نہ کہیں سے آتا ہے۔ زمین کی گردش ہمیں کبھی اندھیروں اور کبھی اجالوں میں لے آتی ہے اس کے باوجود ہم کیوں Sunset غروب آفتاب اور Sunrise طلوع آفتاب کہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں جاننا چاہتے۔ ہم کچھ اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جاننا چاہتے کہ حرام کی کمائی سے حلال چیزکھانا جائز ہے۔ کھردری چٹائیوں پر برسہابرس سجدہ ریز ہونے والے ہمارے آبائواجداد کے ماتھے پر محراب کیوں نہیں بنتی تھی اور ہم مخملی قالینوں پر سجدہ ریز ہونے والے ماتھے پر دور سے نظر آنے والی محراب کیسے بنا لیتے ہیں! ہم نہیں جاننا چاہتے۔ یہ بھی ہمارے لئے دلچسپی کا موضوع نہیں ہے۔ ہم کچھ اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ کوئی ہمیں سمجھائے۔تقسیم ہند سے پہلے ہم ہندوستان میں ہندوئوں، سکھوں، عیسائیوں، یہودیوں، پارسیوں، جین اور بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ رہتے تھے، تب مسلمان ایک دوسرے کو بے دریغ مارتے نہیں تھے، ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کو اجاڑتے اور برباد نہیں کرتے تھے۔ ہاں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنا، ایک دوسرے کا تختہ الٹنے کیلئے منصوبے بنانا، ہندوستان کے مسلمان حاکموں میں عام روایت تھی۔خاص طور پر سپہ سالار اپنے بادشاہ سے حکومت چھین لیتے تھے۔ شیرشاہ سوری نے ہمایوں کا نہ صرف تختہ الٹا، اسے آل اولاد سمیت ملک بدر کر دیا،ان دنوں رانی صاحبہ امید سے تھیں۔ ہمایوں نے پڑوسی ملک سندھ میں پناہ لی، وہیں جلاوطنی کےدوران تھرپارکر کے ایک علاقے امرکوٹ میں رانی نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ وہ بیٹا ہندوستان کا سب سے بڑا سیکولر شہنشاہ بن کر جلال الدین اکبر اعظم کے نام سے دنیا کی تاریخ پر ابھر آیا تھا اور اس نے باون برس ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کافی تھی۔ انگلیوں پر گننے کے جتنے نہیں تھے، اس سے کہیں زیادہ تھے۔ اکبراعظم کے مدبرانہ رویّے کی وجہ سے ہندو خاص طور پر نچلی ذات کے ہندو یعنی شودر Untouchables بڑی تعداد میں مسلمان ہو رہے تھے۔ ہم اپنے علماء اور تاریخ دانوں سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ تب ہندوستان میں رہنے والے عام مسلمان کیاکرتے تھے؟ وہ کیا بہت ہی مصروف ہوتے تھے؟کیا ان کے پاس ایک دوسرے کو مارنے،قتل کرنے اور برباد کرنے کیلئے قطعی وقت نہیں ہوتا تھا؟ مانا کہ نو مسلموں کو مغلوں نے بڑی بڑی رعایتیں دے رکھی تھیں، وہ چھوٹے موٹے کاروبار کرتے تھے، کھیتی باڑی کرتے تھے، مغلوں کی فوج میں سپہ گری کرتے تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ نو مسلم مغلوں کیلئے ملک بھر میں جاسوسی کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا دب دبہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، تب تک تاریخ میں ہمیں شواہد نہیں ملتے کہ نو مسلم اور ارغونوں، ترخانوں، غزنویوں، غوریوں اور تغلقوں کے ساتھ آئے ہوئے مسلمان آپس میں لڑے ہوں، ایک دوسرے کو قتل کیا ہو، ایک دوسرے کو برباد کیا ہو۔ اپنے والد شاہ جہاں کو قید میں رکھنے اور بھائیوں دارا، مراد اور شجاع کو قتل کرانے کے بعد اورنگزیب نے تقریباً چھپن برس ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ لگاتار چھپن برس وہ مرہٹوں اور راجپوتوں سے برسر پیکار رہے جو اپنے وطن کو غیرملکی تسلّط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اس دوران نومسلم ہندوستانیوں نے اصلی ہندوستانیوں کو اپنے تابع رکھنے میں مغل فوجوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ تب بھی تاریخ میں گواہی نہیں ملتی کہ مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوئے ہوں یا ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوئے ہوں۔ آخر کیوں؟ یہی بات ہم دانشوروں سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ آخری خانہ جنگی میں انگریز نے ہندوستان پر مکمل قبضہ کر لیا۔ مغلوں کے اقتدار کا عبرت ناک انجام ہوا۔ انگریز بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ انہوں نے اصلی ہندوستانیوں کے سر پر ہاتھ رکھا، تب ہندوستانیوں کو سانس لینے کیلئے ماحول ملا جس کو انگریزی میں Breathing Space کہتے ہیں۔ انہوں نے مسلمان حکمرانوں کے ساتھ آئے ہوئے اور ہندوستان میں ہمیشہ Settle رہائش پذیر ہونے والے مسلمانوں کو نہیں چھیڑا لیکن اپنے اندر سے اپنا عقیدہ چھوڑ کر مسلمان بننے والے ہندوستانیوں کو انہوں نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا، ان کو اقتصادی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مفلوج کر دیا۔ ان حالات میں بھی مسلمان ایک دوسرے کو مارتے اور قتل نہیں کرتے تھے۔ دو عظیم جنگوں (World Wars) کے بعد عالمی حالات یکسر بدل گئے۔ ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ انہیں ہندوستان کو آزاد کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس سے پہلے کہ انگریز ہندوستان چھوڑتے آل انڈیا مسلم لیگ نے انگریزوں کے سامنے اپنا کیس رکھا اور واضح کر دیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ اقوام ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ خان عبدالغفارخان کی قیادت میں پٹھانوں نے اس نظریئے کی مخالفت کر دی۔ انگریزوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بات مانتے ہوئے ہندوستان کا وہ حصّہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک الگ مسلم ریاست ’’پاکستان‘‘ بنا دیا۔
ایک الگ تھلگ مسلم ملک بننے کی دیر تھی، روز اوّل سے پاکستان میں مسلمانوں نے ایک دوسرے کو مارنا اور قتل کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔آخر مسلمانوں کا مسئلہ کیا ہے؟ جب وہ کسی کے ماتحت ہوتے ہیں تب ایک دوسرے کو خون میں نہیں نہلاتے، جیسے ہی ان کو ایک الگ ملک ملتا ہے، ان کی اپنی حکومت ہوتی ہے تب وہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کوئی تو ہم جھلوں کو کچھ بتلائے! تاریخ میں مسلمان قدرتی آفات میں اس قدر نہیں مارے گئے جتنے مسلمان، مسلم ممالک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں مارے گئے ہیں، پچھلے چودہ سو چالیس برسوں میں۔ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہؓ شہید ہوئے۔ ناواقف نابلد تصحیح چاہتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں خالد بن ولید طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر جس نے افریقہ فتح کیا تھا اور محمد بن قاسم اپنے ہی دور میں اپنے ہی ملک میں اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں زندانوں میں اذیت دے کر نہیں مارے گئے تھے؟ اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم جھلے نابلد سمجھتے ہیں، ہماری تاریخ کا تسلسل ہے۔
تازہ ترین