• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بارے میں موافق اور مخالف حلقے کی متفقہ رائے ہے کہ معتدل مزاج اور عملیت پسند انسان ہیں، جماعت کے مخالفین سید منور حسن اور لیاقت بلوچ کے مقابلے میں سراج الحق کی کامیابی کو اسی عملیت پسندی اور معتدل مزاجی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ روز جماعت اسلامی کے امیر نے وفاقی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ملک شدید بحران کی زد میں ہے، ایک مرتبہ پھر مارشل لاء نافذ ہوسکتا ہے۔ مجھے دفاعی امور کے امریکی ماہر سٹفین پی کوہن یاد آئے۔
1997ء میں میاں نواز شریف اور سید سجاد علی شاہ کے درمیان چپقلش کے نتیجے میں اس وقت کے صدر سردار فاروق احمد لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ایوان صدارت و عدالت سے نکلناپڑا تو سٹفین کوہن نے لکھا’’اگلا سول ملٹری بحران شدید تر ہوگا، نواز شریف بلکہ کسی بھی سیاسی متبادل کی نجات اچھی پالیسیوں میں ہے، فریب کارانہ سیاست میں نہیں‘‘۔
1998ء میں کیا گیا سٹفین کوہن کا تجزیہ 1999ء میں درست ثابت ہوا مگر پندرہ سال بعد جبکہ ہر ایک کی رائے ہے کہ سیاستدانوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ،ان کے رویوں، فیصلوں اور اقدامات میں پختگی آگئی ہے اور جرنیلوں کو بھی حالات نے باور کرادیا ہے کہ انہیں سول بالادستی کا کڑوا گھونٹ چارو ناچار پینا بھی پڑیگا کہ رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے، عاصمہ جہانگیر سے لے کر سراج الحق خدشات اور اندیشوں کا شکار کیوں ہیں؟ دیانتدارانہ تجزئیے کی ضرورت ہے خواہشات کے گھوڑے دوڑانے اور ہوا میں تلوار چلانے کی نہیں جو ہمارا عمومی انداز فکر و ا نداز کارہے۔
اگر یہ درست ہے اور قرائن و شواہد اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنرل کیانی نےمیاں صاحب کو جنرل پرویز مشرف کے بارے میں فوجی افسروں ،جوانوں کے عمومی جذبات سے آگاہ کردیا تھا ۔جنرل راحیل شریف طالبان سے مذاکرات اور بھارت سے فدویانہ مراسم کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں اور سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد حکومت آزاد صحافت اور ناراض فوجی جذبات کے مابین توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لئے اپنا فرض ادا نہیں کرپائی بلکہ خاموش تماشائی بنی رہی یا بقول ناقدین زیر لب مسکراتی رہی تو پھر قصور وار کون ہوا؟ اچھی حکمرانی کے بجائے فریب کارانہ سیاست پر اصرار بحران کا سبب نہیں تو کیا ہے؟
پاک فوج کے حق میں اٹھنے والی پسندیدگی کی لہر، پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے آئی ایس آئی کے حق میں بیان بازی اور سول بالا دستی کی آڑ میں فوج و دیگر دفاعی اداروں کو تابع مہمل بنانے کے خواہش مند عناصر کی پسپائی کیا محض’’جیو‘‘ کی ایک مس ججمنٹ کا ردعمل ہے یا ان اندیشوں اور خدشات کا اظہار جو عرصہ دراز سے زیر زمین پرورش پارہے تھے اور 19 اپریل کے واقعہ کے بعد ابھر کر سامنے آگئے کیونکہ ہر ایک کو لگا کہ حکومت کوئی کھیل کھیل رہی ہے اور کبھی ایک اور کبھی دوسرے واقعہ کو حصول مقصد کا ذریعہ سمجھتی ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس، وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیانات اور 19 اپریل کے بعد حکومت کی مجرمانہ خاموشی بلکہ دلیل اور غلیل کی باتوں سے فوج کے رینکس اینڈ فائلز میں یہ احساس شدت سے اجاگر ہوا کہ بہتر طرز حکمرانی جمہوری انداز سیاست اور ذاتی، خاندانی، گروہی مفادات سے بالا تر امتیاز و تفریق کے بغیر قانون کی حکمرانی موجودہ حکمرانوں کی ترجیح اول نہیں بلکہ وہ گھوم پھر کر فوج کو تابع مہمل بنانے کی راہ پر چل پڑتے ہیں جو پہلے ہی امریکہ، بھارت اور اندرون ملک بھارت نواز عناصر کے علاوہ دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور ملک دشمنوں کے دبائو کا شکار ہے اور دہشت گردوں کے بارے میں نرم روی کے ا لزامات کا سامنا کرنے پر مجبور۔
بھارت میں نریندرمودی اور افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی کامیابی بھی پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں اور مادر پدر آزاد سیاست، جمہوریت اور صحافت بھی دفاعی اداروں کی صلاحیت کار پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے جبکہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، بدامنی، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے شکار عوام میں پیدا ہونے والی مایوسی اور بے چینی بھی رینکس اینڈ فائلزمیں اضطراب پیدا کرتی ہے کہ آخر یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور 11 مئی سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے احتجاعی تحریک کے اعلانات کو حکومت خواہ مقبولیت کے زعم میں مذاق سمجھے مگر جن کے کاندھوں پر دفاع ،استحکام اور سلامتی کی ذمہ داری ہے وہ معاملات کوکچھ اور انداز میں دیکھتے ہیں جبکہ انہیں بالخصوص آئی ایس آئی کو 11 مئی کے ا نتخابات کی ’’شفافیت‘‘ کا مکمل ادراک ہے اور سمجھا یہ جارہا ہے کہ جنرل ظہیر الاسلام اسی بنا پر وزیر اعظم اور وزیر دفاع کی تھپکی کے مستحق نہیں ٹھہرے۔
ان حالات میں حکمران اپنے پائوں پر کلہاڑی ماریں یا جس شاخ پر بیٹھے ہیں اس پر آری یا آرا چلائیں ، مجھ ا یسے کارکن صحافیوں کو فکر آزادی صحافت کی ہے جن کا رزق مضبوط صحافتی اداروں اور پھلتی پھولتی صحافت سے وابستہ ہے۔ آزادی صحافت کسی حکمران کا تحفہ نہیں برسوں بلکہ عشروں کی قربانیوں اور جدوجہد کا ثمر ہے جو سول ملٹری بالادستی کی جنگ میں کولیٹرل ڈیمیج قرار نہ پائے تو اچھا ہے۔
پچاس کے عشرے میں ایک انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے چناب فارمولا شائع کرکے مسئلہ کشمیر پر ریڈ لائن عبور کی ۔جذبہ حب الوطنی سے سرشار بڑے بڑے نام مشترکہ اداریہ لکھ کر اپنے ہاتھ کٹوابیٹھے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ بند ہوگیا مگر پھر تین چار عشروں تک قبیلہ صحافت کو مختلف النوع پابندیوں ،رکاوٹوں اور سزائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پری سنسر شپ، اشتہارات کی بندش،ڈیکلریشن کی تنسیخ، کاغذی کوٹے کی غیر منصفانہ تقسیم، قید و بند اور کوڑے اخبارات و جرائد اور صحافیوں کا مقدر ٹھہرا۔
حکومت کا دفاعی اداروں سے سوتیلی ماں کا سلوک اور میڈیا گروپوں کی کاروباری رقابت بھی کہیں کوئی نیا چاند نہ چڑھائے اور سراج الحق سے لے کر عاصمہ جہانگیر تک جن خدشات ،اندیشوں اور خطرات کا اظہار کررہے ہیں وہ کہیں حقیقت کا روپ نہ دھار لیں۔ سیاستدانوں کا کیا ہے یہ تو اپنے عشرت کدوں میں خود ساختہ نظر بندی کا تمغہ سجا کر بیٹھ جائیں گے ۔بیرون ملک اپنے اثاثوں، بینک بیلنس اور اولاد کی دیکھ بھال میں مصروف ہوجائیں گے۔ صحافیوں کو اپنے علاوہ اہل سیاست آئین و جمہوریت کی بحالی کی لڑائی بھی لڑنا پڑے گی تو کیوں نہ جو نعمت حاصل ہے اس کی ناشکری سے گریز کیا جائے اور اپنی چونچ اور دم گم نہ ہونے دی جائے۔
تازہ ترین