• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کی انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے اس سنگین صورت حال پر قابو نہ پایا تو پاکستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد میں کٹوتی کی جاسکتی ہے۔ رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ کی وجوہات ملک میں بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری، امن و امان کی بدترین صورت حال اور عدم تحفظ بتائی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ بڑی الارمنگ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور دیگر جرائم کی طرح انسانی اسمگلنگ کا گھنائونا کاروبار بھی اپنے عروج پر ہے۔
حالیہ دنوں ملک میں امن و امان کی بڑھتی ہوئی خراب صورت حال،غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بیرون ملک جانے کی خواہش شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ خاندان کی معاشی بہتری اور آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے خواب سجائے بیرون ملک جانے والے اکثر نوجوان ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں بھاری رقم کے عوض بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر پُرخطر اور غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کے لئے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔900کلومیٹر طویل ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جہاں اسمگلر کافی سرگرم ہیں۔ یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو اسی روایتی راستے سے ایران اور پھر ترکی لے جایا جاتاہےجہاں سےانہیں کنٹینروں اور کشتیوں کے ذریعے یونان بھیجا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ گزشتہ سال انسانی اسمگلنگ کے ایک واقعہ میں کچھ پاکستانیوں کو ایران کے شہر شیراز سے کنٹینر کے ذریعے ترکی لے جانا مقصود تھا مگر کنٹینر مکمل طور پر بند ہونے اور ہوا کا راستہ نہ ہونے کے باعث دم گھٹنے سے 21 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ ان پاکستانیوں میں ایک حمزہ نامی نوجوان بھی تھا جسے ایجنٹ مردہ سمجھ کر جاں بحق ہونے والے افراد کے ساتھ جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ مرنے والے افراد کی لاشیں جنگلی جانوروں نے کھالی تھیں لیکن حمزہ کو ایک کار سوار شخص نے تشویشناک حالت میں اسپتال پہنچایا جو واقعہ کا انکشاف کرنے کے بعد دم توڑ گیا۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل ترکی میں14پاکستانی ایک کنٹینر میں دم گھٹنے اور بھوک و پیاس کے باعث ہلاک ہو گئے تھے جبکہ زندہ بچ جانے والے ایک نوجوان نے اپنی جان پیشاب پی کر بچائی تھی۔
غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک جانے کے خواہشمند نوجوان اکثر اوقات بلوچستان کے سرحدی علاقے مندبلو کے راستے کشتی کے ذریعے مسقط پہنچتے ہیں جو موقع پاتے ہی دیگر ان ریاستوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار جبکہ اومان سے لگ بھگ 7 ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے پاکستان بھیجا جاتا ہے۔کچھ عرصے سے آسٹریلیا میں پناہ لینے کے قوانین میں نرمی کے باعث پاکستانی نوجوان بڑی تعداد میں وہاں کا رخ کررہے ہیں۔تعلیم یافتہ یہ نوجوان تفریحی ویزے پر پہلے تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ ملائیشیا یا انڈونیشیا نکل جاتے ہیں اور پھر پیشہ ور ایجنٹ انہیں کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا اسمگل کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک اذیت ناک سفر ہوتا ہے اور اس دوران بیشتر نوجوان یا تو سمندر کی خونی لہروں کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر گرفتار کرلئے جاتے ہیں جبکہ بہت کم ہی نوجوان اپنی منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔ گزشتہ سال انڈونیشیا سے بذریعہ کشتی آسٹریلیا اسمگل کئے جانے والے200 افراد جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی،کشتی ڈوب جانے کے باعث ہلاک ہوگئے تھے جس پر میں نے ایک کالم بھی تحریر کیا تھا۔ جاں بحق ہونے والے ان افراد میں سے ایک نوجوان عمران کی فیملی کے لوگ آج بھی مجھے فون کرکے عمران کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ شاید اُن کا پیارا ابھی تک زندہ ہو۔ بیرون ملک جانے والے اکثر لوگوں کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائوالدین اور دیگر شہروں سے ہوتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ کسی فیملی کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اس گھر کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں تو وہ بھی اسی لالچ میں اپنی اولاد کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
آج کالم تحریر کرتے ہوئے مجھے کچھ سال قبل مراکش میں پیش آنے والا ایک ایسا ہی واقعہ یاد آرہا ہے جب ایک روز علی الصبح کچھ پاکستانی نوجوان جن کی حالت انتہائی خراب تھی، مجھ سے ملنے میرے دفتر آئے۔ نوجوانوں نے مجھے بتایا کہ ایک پاکستانی ایجنٹ انہیں یورپ بھجوانے کا جھانسہ دے کر جعلی ویزوں پر مراکش لے آیا ہے جس نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں مراکش سے اسپین پہنچائے گا مگر اب اس کا کہیں پتہ نہیں چل رہا۔ نوجوانوں کے بقول وہ کئی دنوں سے بھوکے پیاسے ایک سرائے خانے میں پڑے ہیں اور کسی نے اُنہیں میرے بارے میں بتایا تھا۔ مذکورہ پاکستانیوں نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ میں اسپین بھجوانے میں اُن کی مدد کروں لیکن میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ پاکستان واپس چلے جائیں اور میں اس سلسلے میں ان کی مدد کے لئے تیار ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ وہ اپنا گھر اور خواتین کے زیور بیچ کر یہاں تک پہنچے ہیں اور اب کس منہ سے وطن واپس جائیں۔ کچھ ہی دنوں بعد مراکش کے ایک مقامی اخبار میں ان تمام افراد کی تصاویر خبر کے ساتھ شائع ہوئی کہ مذکورہ پاکستانی چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر سمندر عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ مرنے والے ان افراد کے چہرے کئی روز تک میری آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے۔
انسانی اسمگلنگ سے ایک طرف جہاں بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہوتی ہے، وہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانی یا تو پکڑے جاتے ہیں یا پھر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 2 فیصد خوش نصیب افراد ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے وقتوں میں یہ ایک معاشی بیماری کی صورت اختیار کرجائے گا۔ سمندر میں ڈوب کر مرنے والے اور کنٹینرز میں دم گھنٹے سے ہلاک ہونے والے افراد کی داستانیں اتنی المناک ہیں کہ ان سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مگر اس کے باوجود حکومتی اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ ملک بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسارہے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے بھرپور اقدامات کرے بلکہ اس گھنائونے کام میں ملوث افراد کو بھی عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ وہ پیسے کی لالچ میں لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیل سکیں۔ بیرون ملک جانے والے افراد کے اہل خانہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ کل وہ اُن کی موت کا ذمہ دار اپنے آپ کو نہ ٹھہرائیں۔
تازہ ترین