• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستانی انڈر ورلڈ ڈان دائودابراہیم کے حوالے سے متوقع بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے طرح مصرعہ پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جو گرہ لگائی ہے وہ پاک بھارت تعلقات کے مدروجذر سے آگاہ تجزیہ نگاروں کے لئے چشم کشا ہے مگر لوڈشیڈنگ نے عوام کی مت مار دی ہے، دہشت گردی نے حکمرانوں کو بدحواس کر رکھا ہے اور میڈیا کو آپس کی تو تو، میں میں سے فرصت نہیں اس لیے کسی نے اس دوطرفہ بیان بازی پر توجہ نہیں دی۔
ہماری وزارت خارجہ ان دنوں فل ٹائم وزیر خارجہ سے محروم ہے۔ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی تانگے کے دو گھوڑے ہیں اور مخالف سمت میں دوڑنے کے شوقین وزیراعظم نوازشریف وزیر خارجہ بھی ہیں مگر بھارت کے باب میں انہیں صرف تجارت سے دلچسپی ہے اور نریندر مودی کے حوالے سے ان کا خیال ہوگا کہ وقت آنے پر اٹل بہاری واجپائی کی طرح ’’جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ کا راگ الاپنے لگیں گے اس لیے حالیہ بھارتی عام انتخابات کے دوران نریندر مودی کے پاکستان مخالف بیانات کو کسی نے درخوراعتنا نہیں سمجھا حتی کہ حالیہ دنوں میں کنٹرول لائن پر کشیدگی کو بھی۔
رہ سہہ کر مسلم لیگی حکومت کا امرت دھارا نثار علی خان ہی بچتے ہیں جو کبھی طالبان سے مذاکرات کی وکالت کرتے ہیں، کبھی آئی ایس آئی کی مدافعت اور گاہے نریندر مودی کے بیانات کی مخالفت۔ نریندر مودی کے بیان کو انہوں نے غیر دوستانہ قرار دیا، حقائق کے منافی اور متوقع بھارتی وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ ازراہ کرم یہ تو معلوم کرلیں کہ ابراہیم دائود ہیں کہاں؟
دائودابراہیم پاکستانیوں کے لیے محض ایک مافیا ڈان ہے جو ممبئی کے انڈر ورلڈ کو اپنی مرضی سے چلاتا ہے مادھوری اور ایشوریا رائے جیسی مقبول اداکارائوں کو اپنے اشاروں پر نچاتا ہے مگر بھارتیوں بالخصوص کانگریسی غیر کانگریسی حکمرانوں کی نظر میں پاکستان کا اہم مہرہ، انتہا پسند، عسکریت پسند اور ہندو توا کے حامی بھارتیوں کے اسلام دشمن، پاکستان مخالف ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ اور ’’را‘‘ کے لئے خطرہ ہے۔ ممبئی کے مسلمان انتہا پسند ہندوئوں، ٹھاکرے ٹائپ جنونیوں کے مقابلے میں اسے اپنا پشتی بان سمجھتے ہیں جو ہر مشکل وقت میں ان کی دستگیری اور اشک شوئی کرتاہے۔
جس بھارتی نیوز ایجنسی سے انٹرویو میں نریندر سنگھ مودی نے دائود ابراہیم کو پاکستان سے واپس لانے اور اس ضمن میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی کا ذکر کیا اسی نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1993ء میں ممبئی پولیس نے کراچی میں دائود ابراہیم کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا جو بوجوہ ناکام رہا۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت کے پولیس کمشنر اے ایس سمرہ کی قیادت میں ایک پانچ رکنی دستہ جعلی پاسپورٹ پر کراچی بھیجا گیا۔ دستے نے ایک درگاہ پر ڈیرہ ڈالے جہاں دائود ابراہیم کی آمد متوقع تھی مگر دائود ابراہیم مبینہ طور پر حاضری دینےنہ آیا یوں آپریشن ناکام رہا۔ اس رپورٹ میں شکیل چھوٹا کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں ’’دائود بھائی حلوے کی پلیٹ نہیں جسے جو چاہے اٹھا کر لے جائے‘‘۔
دائود ابراہیم کو پاکستان سے واپس لانے کے بیان پر بھارت میں خوب بحث مباحثہ چل رہا ہے۔ بھارتی پریس کے علاوہ نریندر کے حامی اور مخالف سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ برسراقتدار آکر بھارت کا یہ عظیم سپوت ایبٹ آباد طرز کی فوجی کارروائی کرسکتا ہے کیونکہ یہ خطرات مول لینے کا عادی ہے اور یہ سوچنے سے عاری کہ پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا اور خطےکے مستقبل پر اس کارروائی کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
نریندر مودی کاماضی اس بات کا گواہ ہے کہ وہ مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں اپنے جذبات چھپا کر رکھتے ہیں نہ عزائم۔ گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں مسلمانوں پر جو گزری وہ محض انتہا پسند غیر سرکاری، غیر ریاستی عناصر کی کارستانی نہ تھی، مودی حکومت کا کردار سب تسلیم کرتے ہیں۔ ہندو بلوئیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جن میں مرد، خواتین، نوجوان، بوڑھے، حاملہ عورتیں اور شیرخوار بچے شامل تھے۔
2007ء میںتہلکہ ڈاٹ کام نے انکشاف کیا کہ انتہا پسند بلوائیوں نے گھروں میں گھس کر نوجوان دوشیزائوں کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اور حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کیے۔ نریندر مودی اندرون و بیرون ملک بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنا مگر اس نے گجرات کے واقعات سے لاتعلقی کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ وقتاً فوقتاً جلتی پر آگ ڈالتا رہا۔ یوں عوامی سطح پر اس کی مقبولیت بڑھی اور بی جے پی کی صفوں میں وہ ہیرو قرار پایا۔ حتی کہ اس نے ایل کے ایڈوانی کو پیچھے دھکیل دیا اور وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد ہوا۔
پاکستان کے برعکس ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان انتخابی مہم کا مرغوب موضوع ہوتے ہیں اور کانگریسی غیر کانگریسی سب پاکستان کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ ہندوستانی عوام بنیاد پرستی کے الزامات سے گھبراتے ہیں نہ پاکستان دوستی کا راگ الاپنے والوں کو پسند کرتے ہیں اس لیے نریندر مودی نے عوام کے مزاج کے مطابق اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں کی پاکستان سے ایمانی وابستگی اور پاکستان کی بھارت دشمنی پر خوب تبرا کیا اور دائود ابراہیم کا ذکر بھی اسی پس منظر میں ہوا۔ جس کا جواب نثار علی خان نے دیا۔
نریندر مودی سے انٹرویو کے دوران ’’رائٹر‘‘ کے نمائندے نے پوچھا ’’سانحہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کےلقمہ اجل بننے پر آپ کو افسوس ہے؟‘‘ مودی نے کندھے اچکائے اور جواب دیا ’’اگر آپ گاڑی چلا رہے ہوں یا کوئی ڈرائیونگ سیٹ پر ہو، آپ ساتھ بیٹھے ہوں اور کتے کا پلا (Puppy) گاڑی کے نیچے آکر کچلا جائے تو آپ کو افسوس کیوں نہ ہوگا بطور انسان‘‘
پاکستان میں جن سیاسی احمقوں اور صحافتی مجذوبوں کا خیال ہے کہ راج سنگھاسن پر براجمان ہونے کے بعد نریندر مودی اٹل بہاری کی طرح مینار پاکستان پر آکر پاکستان کو بطور حقیقت تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے وہ نریندر مودی کوجانتے ہیں نہ بھارتی عوام کے دل و دماغ میں راسخ کیے گئے اس خوف سے واقف کہ حکومت طالبان مذاکرات کی کامیابی کے بعد عسکریت پسندوں کی اگلی منزل بھارت ہوگی جہاں حق خودارادیت کی کئی تحریکیں انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب ہیں۔
بھارتی سیاستدان، عسکری ماہرین، ’’را‘‘ کے کرتا دھرتا اور ممبئی پولیس کے افسران دائود ابراہیم کو پاکستان کے خفیہ اداروں کا اہم اثاثہ سمجھتے ہیں جس کااندرون بھارت نیٹ ورک خفیہ کارروائیوں میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے اس لیے نریندر مودی دل کی بات زباں پر لائے ہیں مگر مسلم لیگ کی حکومت کے سر پر تجارت کا بھوت سوار ہے اور وہ بابربہ عیش کوش کے عالم دوبارہ نیست کی شاہانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے معلوم نہیں وزیر داخلہ بھی کیوں بول پڑے۔ وزیر خارجہ، مشیر خارجہ اور وزیر دفاع تو خاموش ہیں۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کی حکمت عملی پر کاربند۔
حتی کہ کسی نے یہ معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ اے ایس سمرہ کی قیادت میں جو خصوصی دستہ دائود ابراہیم کو گرفتار کرنے کراچی آیا تھا وہ ناکامی کے بعد واپس چلا گیا یا تاحال منی پاکستان میں براجمان اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں مصروف ہے؟ دائود ابراہیم کا انتقام پاکستانی عوام سے لے رہا ہے؟
تازہ ترین