• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں چار گھروں کو سیاست کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ لکھنو میں راجا صاحب محمود آباد کا ٹیلر ہائوس، الہ آباد میں پنڈت موتی لال نہرو کا آنند بھون، حیدرآباد دکن میں سروجنی نائیڈو کا گولڈن تھریش ہولڈ اور میرٹھ میں نواب محمد اسمٰعیل خان کا مصطفیٰ کیسل جہاں ہندو اور مسلمان لیڈر نہ صرف قیام کرتے تھے بلکہ سیاسی معاملات طے ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے سلسلے میں راجا صاحب محمودآباد نے اپنی تمام جائیداد اور دولت لٹا دی۔ جب وہ پاکستان آئے تو ان کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا گیا کہ وہ دلبرداشتہ ہو کر لندن چلے گئے اور اسلامک سینٹر کے مہمان خانے میں زندگی کے باقی دن گزارے۔ جب ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس سے راجا صاحب کی وفات کی خبر نشر ہوئی تو ریڈیو کے انجینئرنگ کے شعبے کے ایک سینئر رکن نے دریافت کیا ’’یہ راجا صاحب محمودآباد کون تھے؟‘‘ سید محمود خاور جو پاکستان کے ان گنے چنے افراد میں شامل ہیں جنہیں ٹیپو سلطان شہید سے بڑی عقیدت ہے اور انہوں نے انجمن یادگار ٹیپو سلطان شہید بنا رکھی ہے جس کے اکثر سالانہ جلسے ہوتے رہتے ہیں اور شہید پر کتاب بھی لکھی اور یادگار شیلڈ بنائی۔ انہوں نے ایک اور کارنامہ انجام دیا کہ تحریک پاکستان کے ایک بے باک رہنما کی خدمات کو ایک مختصر کتاب میں سمو دیا، ورنہ کل کو کوئی نوجوان یہ سوال کر سکتا تھا کہ یہ نواب محمد اسمٰعیل خان کون تھے؟
نواب محمد اسمٰعیل خان، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے پوتے تھے جو 1884ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ گئے۔ بی اے کی ڈگری لے کر کیمبرج یونیورسٹی سے بیرسٹری کی سند لی اور واپس آ کر تحریک خلافت میں حصّہ لیا اور جلد آل انڈیا خلافت کمیٹی کے چیئرمین ہو گئے۔ 1926ء میں میرٹھ سے مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ مسلم لیگ کے خزانچی بھی رہے۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ لیگ کی متعدد اہم کمیٹیوں کے رکن رہے، ساتھ اپنی مادر علمیہ کو نہیں بھولے۔ مسلم یونیورسٹی کے خازن، عارضی اور مستقل وائس چانسلر رہے۔ الہ آباد کے شوریٰ اجلاس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ علامہ اقبال کی غیر حاضری میں اجلاس کی صدارت کی اور لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان کی تائید میں تقریر بھی کی۔
نواب صاحب کے قائداعظم کے علاوہ نوابزادہ لیاقت علی خان، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، علامہ اقبال، مولانا حسرت موہانی، مولانا آزاد، راجا صاحب محمودآباد، چوہدری خلیق الزماں، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، گاندھی جی، پنڈت نہرو، سروجنی نائیڈو سب ہی سے تعلقات تھے مگر قائداعظم سے خصوصی راہ و رسم تھی۔ قائد اپنے ساتھیوں کو ان کے ناموں سے مخاطب کرتے تھے مگر ان کو نواب صاحب اور بیگم محمد علی کو بیگم صاحبہ کہا کرتے تھے۔لیگ کے لکھنو کے اجلاس میں شرکت کیلئے جب نواب محمد اسمٰعیل خان وہاں آئے تو ان کے سر پر سیاہ سمور کی ٹوپی تھی۔ قائداعظم نے اس کی تعریف کی تو نواب صاحب نے ٹوپی اتار کر قائد سے درخواست کی کہ ذرا اس کو پہن کر دیکھئے۔ قائد نے خوش دلی سے پہن لی۔ قائدین نے اس کی بڑی تعریف کی اور کہا آپ یہی ٹوپی پہن کر جلسے کی صدارت کریں۔ قائد نے یہ درخواست منظور کر لی۔ جب حاضرین نے قائد کو شیروانی اور خوبصورت سیاہ ٹوپی میں دیکھا تو بڑی مسرت سے آپ کا استقبال کیا۔ جلسے کے بعد قائد نے ٹوپی واپس کرنا چاہی مگر نواب صاحب نے اس کو لینے سے انکار کر دیا۔ قائد جلسوں میں ہی ٹوپی استعمال کرتے تھے ادھر لیگ میں اصلی اور مصنوعی سمور کی ٹوپی جناح کیپ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ ابتداء میں پاکستان کے وزراء حلف برداری کی تقریب میں سیاہ شیروانی اور یہی ٹوپی استعمال کرتے تھے مگر اب اس کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔مسلم لیگ کے دو زعماء ایسے تھے جو پاکستان نہیں آئے۔ پہلے مولانا حسرت موہانی اور دوسرے نواب محمد اسمٰعیل خان البتہ ان کے تینوں بیٹے پاکستان آ گئے اور سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔ جب قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تو میرٹھ بھی ان کی زد میں تھا۔ ان کے بڑے صاحبزادے جی ایم مدنی میرٹھ گئے اور والد کو پاکستان لانے کی کوشش کی۔ رات کے بارہ بجے تک پورا خاندان اصرار کرتا رہا۔ آپ تنگ آ کر یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے ’’اچھا میں تمہارے پاس آ جائوں گا، تم میرے لئے گھر کا انتظام کر دو لیکن یہاں جو لاکھوں مسلمان خطرے میں گھرے ہوئے ہیں، کیا تم ان کیلئے بھی گھروں کا انتظام کر سکو گے؟‘‘
نواب صاحب کی زندگی بے غرضی اور ان تھک محنت سے عبارت تھی۔ ایماندار، غیر جذباتی، سوچ بچار کے عادی، عمر بھر قومی اور عوامی خدمت کی، فیصلہ کن طبعیت کے مالک اور اصول کے پابند ، جب حکومت ہند نے ہزار روپے کا نوٹ منسوخ کر دیا تو میرٹھ کے ایک مسلمان سوداگر کلیم الرحمن خان شیروانی کے پاس آئے جن کے پاس ہزار نوٹوں کی شکل میں چار لاکھ روپے تھے اور کہا ان کو لیگ کے فنڈ میں جمع کر لیا جائے، دو لاکھ میں واپس لے لوں گا اور دو لاکھ مسلم لیگ کے فنڈ میں رہنے دوں گا۔ مسلم لیگ کو اس وقت رقم کی سخت ضرورت تھی چنانچہ میں نے نواب صاحب سے اجازت چاہی کہ کیا میں رقم لے لوں۔ نواب صاحب نے سختی سے انکار کر دیا کہ یہ ہندو بنیوں کی سازش ہے جو لیگ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں حالانکہ کانگریس ایسی رقوم برابر وصول کر رہی تھی۔
نواب صاحب 1910ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور پورے 48؍سال اس سے وابستہ رہے۔ لیگ کے ساتھ مادر علمیہ کے خازن عارضی اور مستقل وائس چانسلر رہے۔ تقسیم سے قبل اور بعد میں مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ آپ کو حکومت پاکستان اور حکومت ہند نے وزارت اور سفارت کی پیشکش کی مگر آپ نے ان کو قبول نہیں کیا۔ وہ کبھی کبھی اپنے نام کے ساتھ ’’ذبیح‘‘ کا لاحقہ لگاتے تھے چنانچہ عیدالاضحیٰ کے دن آپ کا انتقال ہوا اور دلّی میں حضرت نظام الدین اولیاؒء کے احاطے میں خاندانی قبرستان میں تدفین ہوئی۔
جی ایم عرفی سے مجھے قرب حاصل رہا۔ جب وہ پشاور میں کمشنر تھے اور پشاور شہر کو ترقی دینے کے خواہشمند تھے، انہوں نے اس غرض سے ایک کمیٹی بنائی جس کا اجلاس ان کی صدارت میں ہر ماہ ہوتا تھا۔ ترقی دیہات کی اکیڈمی کی فیکلٹی کا رکن ہونے کی وجہ سے خاکسار بھی اس کا رکن رہا۔ انہی کی فرمائش پر اکیڈمی نے اشتمالات اراضی پر ضلع پشاور میں ایک سروے کیا جو Consolidation of land holding کے عنوان سے راقم اور ایس ایم رضوی نے مرتب کیا اور یہ کتاب عرفی صاحب کو پیش کی۔ عرفی صاحب سنجیدہ مزاج کے مالک تھے جبکہ ان کے دوسرے صاحبزادے افتخار احمد عرفی کی حس مزاح بہت تیز تھی۔ یہ جب نیپا کراچی کے ڈائریکٹر تھے تو زکوٰۃ اینڈ عشر کے حوالے سے ٹریننگ کے سلسلے میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت میرا ایک بیٹا خالد سبزواری وہاں ریسرچ ایسوسی ایٹ تھا۔ سندھ زکوٰۃ کے چیف اکائونٹ زاہد سبزواری تھے چنانچہ عرفی صاحب مجھے ’’والد سبزواری‘‘ کہتے تھے اور اپنے افسانوں کی کتاب اسی نام سے مجھے دی۔ ساتھ ہی بزرگی کی بنا پر نیپا کی مسجد کا سنگ بنیاد مجھ سے رکھوایا۔ کتاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، افتخار احمد عرفی، مولانا عبدالحامد بدایونی، سید حسین امام، نواب صدیق علی خان، پروفیسر آفاق صدیقی اور دوسرے مشاہیر کے تاثرات شامل ہیں۔ نواب صاحب کی مختلف تصاویر بھی شامل ہیں۔ سید محمود خاور قابل مبارکباد ہیں کہ ایک فراموش شدہ رہنما کی سرگزشت لکھ کر ایک اہم فرض ادا کیا۔ آخر میں حامد میر کی جلد از جلد صحتیابی کی دعائے خیر۔
تازہ ترین