• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریڈیو نے مجھ پر ایک بڑا کرم کیا ہے۔ مجھے گھنٹے بھر کی بات سات منٹ اور تیس سیکنڈ میں کہنے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ یوں بھی سوچتا ہوں کہ کہنے کی بات تو چھوٹی ہی سی ہوتی ہے، اب کوئی اسے طول دے دے تو اس میں اور کسی کا ہو یا نہ ہو، موضوع کا قصور نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ اردو زبان اور ادب کہاں سے چلے اور اب کہاں کھڑے ہیں؟ تو یوں کریں کہ پہلے زبان کی بات کریں۔ ہمارے حکیم حضرات نبض سے پہلے زبان ہی دیکھا کرتے تھے۔ اس کا قصّہ یہ ہے کہ میں نے انڈیا آفس لائبریری میں کئی سال لگا کر میرامّن کی باغ و بہار سے لے کر مرزا محمد ہادی رسوا کی امراؤ جان ادا تک سو برس میں شائع ہونے والی سیکڑوں کتابیں پڑھیں۔ کیسے عجیب لوگ تھے۔ ایک ایک لفظ موتی کی طرح ٹانکتے تھے۔ کیا مجال کہ درست عبارت کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ ناممکن ہے کہ کہیں ہجّے غلط ہوں۔ روزمرہ اور محاورہ بھی اس احتیاط سے برتا گیا کہ کسی بھول چوک تک کا امکان نہیں اور تو اور، اور یہ بات میں پورے وثوق سے کہتا ہوں، کہیں کتابت اور پروف کی بھی کوئی غلطی بھولے سے بھی نظر نہیں آتی تھی۔ غالب نے اپنے دیوان کا ایک ایک لفظ پہلے دیکھ لیا تھا۔ ہمارا زمانہ آتے آتے اقبال نے اپنی ساری کتابت خود دیکھنے میں عرق ریزی کی تھی پھر یہ ہوا کہ وہ اہتمام جاتا رہا۔ وہ دھیان، وہ توجہ اور وہ صحت کی خاطر مشقت اٹھانے کی رسم ہی اٹھ گئی۔ لوگ دھڑلّے سے غلط سلت زبان لکھنے لگے اور شکایت کی جائے تو سارا الزام کاتب کے ناتواں کاندھوں پر رکھنے لگے۔ اس زوال کا آغاز اٹھارہ سو ستاون کی بغاوتِ ہند کے بعد ہی ہو گیا تھا۔ لوگ کمتر درجے کا ادب لکھنے لگے۔ اُس استاد کا تصور ہی جاتا رہا جس کا فرمایا ہو مستند ہوا کرتا تھا۔ زبان کو دوسرا جھٹکا برصغیر کی تقسیم کے ساتھ لگا۔ یہ پودا ایک بار اکھڑا اور جب دوبارہ لگایا گیا تو یہ پہلے جیسا نہال نہ ہو سکا۔ ہم اُسی دور میں جی رہے ہیں۔اس دور میں لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والے اخبار کا زمانہ آ گیا۔ میں کہا کرتا تھا کہ اب زبان کاجو بھی حال ہوگا، اس کا فیصلہ گھر گھر پڑھے جانے والے روزنامے کریں گے لیکن ہوا یہ کہ سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ ٹیلی وژن اپنے بینڈ باجے بجاتا ہوا آگیا۔ پہلے پہل تو رات کے کسی معقول لمحے میں یہ ٹی وی قومی ترانہ بجا کر بند ہو جایا کرتا تھا۔اب یہ چوبیس گھنٹے چلتا ہے اور آپ چاہیں، نہ چاہیں، یہ آپ کے کانوں میں الّم غلّم انڈیلتا جاتا ہے۔اوپر سے انگریزی الفاظ اور ہندی ترکیبوں کی بھرمار ہے۔ یہاں یہ کہنا فضول ہے کہ تصویر دکھانے والے اس بکسے کو زبان کے نکھارنے اور سنوارنے سے رتی برابر دلچسپی نہیں۔ دو چار قابل پیش کار نہ ہوتے تو ہماری زبان اسی بکسے میں بند کر کے وقت اس میں آخری کیل ٹھونک دیتا۔ ہم نے اچھے دنوں کی آس میں جینا سیکھ لیا ہے کہ شاید ہماری بے بسی دیکھ کر لوٹ آئیں۔
اب ہم آتے ہیں ادب کی طرف۔ہمارا شعر ایران سے آیا اور عرصے تک اُسی رنگ میں رنگا رہا۔ غالب اور اقبال جیسے شاعروں نے اعلان کردیا کہ شعر کہنے کے لئے سخن کے خدا نے فارسی زبان اتاری ہے لیکن جب گفتگو عوام سے کرنی پڑی تو ان کی اردو شاعری ہی کو دوام حاصل ہوا۔ اردو نثر محض قصّے کہانیوں تک محدود رہی اور کیسی عجیب بات ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بیسویں صدی میں بہت سے برس ایسے آئے جب خوب خوب نثر لکھی گئی۔ جیسے اب لوگ کہتے ہیں کہ غزل اردو زبان کی آبرو ہے، اُس وقت یہ اعزاز افسانے کو دیا جاتا تھا۔ اچھے برے سب ہی قسم کے ناول بھی خوب لکھے گئے، بے مثال ترجمے ہوئے، ادبی رسالے کا بڑا احترام ہوا ۔ ساتھ ہی غزل اور نظم کی بھی آبیاری ہوئی اور مشاعرے کی روایت میں کبھی خلل نہیں پڑا۔ تحقیق میں مشقت بڑی تھی، وہ غریب پیچھے رہی۔ تنقید کی راہ میں بزرگوں نے ایک نئے میدان میں قدم رکھا اور اپنی روایت کی بنیاد رکھتے ہوئے مقدمہ شعر و شاعری جیسا سنگِ میل نصب کیا۔ اس کے بعد کی داستان مجھے ستاتی ہے۔ ایک تو ادب نے یک لخت اپنا چولا بدلا۔ اچانک کہیں سے تجربے کی ہوا چلی۔ خصوصاً فکشن نے بھانت بھانت کی بولیاں آزمانی شروع کیں اور بات کہنے کے نئے نئے اسلوب نکالے۔ ابھی ہم تجربے جیسی عام فہم اصطلاح ہی میں الجھے تھے کہ کہیں سے اصطلاحوں کا ایک سیلاب آن پہنچا۔ لوگ پکارے ’جدیدیت‘ اور ابھی ہم سنبھلے بھی نہیں تھے کہ مابعد جدیدیت وارد ہو گئیں۔ اس کے بعد نہ صرف ساختیات بلکہ پس ساختیات نے تنقید کی دنیا میں دھوم مچائی اور یہ انکشاف ہوا کہ ادب تخلیق کرنے والے کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اس نے کتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔اچھے بھلے لوگ اچانک میلان کوندیرا اور کافکا بن گئے۔ بہت آگے نکلے ہوئے مغرب اور لاطینی امریکہ کی نئی تنقید ہمارے بالکل ہی جدا معاشرے میں رواج پانے لگی اور پھر کیا ہوا؟ وہ جو گفتگو عوام سے ہوا کرتی تھی اس کا سلسلہ منقطع ہوا۔ کتاب اور مصنف دونوں ہی عام قاری سے دور ہوتے گئے۔ کتاب ’ریڈر فرینڈلی‘ نہیں رہی۔ کتب بینی کا وہ دور سمٹ گیا۔ ادب دوستی کا وہ زمانہ سکڑ کر رہ گیا۔ اب ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیوں مقبولِ عام ادب نہیں لکھا جارہا ہے کہ جس کے معیار پر بھی حرف نہ آئے اور جس کی تفہیم میں بھی فرق نہ آئے۔ ہر ریلوے اسٹیشن کے بُک اسٹال پر چُنی ہوئی وہ کتابیں کیا ہوئیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ شخص جو ساقی کا ایک شمارہ بھی خرید لیا کرتا تھا وہ کس طرف کو سدھار گیا؟اب کیا کریں۔ کیا ڈائجسٹوں پر بدذوقی کا الزام دھریں اور کیا قسط وار چھپنے والے ناولوں کی مصنّفاؤں کو کبھی برا کہیں اور کبھی بھلا؟ اسلام آباد کے ادبی میلے میں کسی نے کہا کہ آج کل کے نقاد ادیبوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس پر اس دور کے بہت بڑے ادیب انتظار حسین نے برجستہ کہا کہ مجھے پروا نہیں،میں نقّادوں کو گمراہ کر رہا ہوں۔
آج کل ایک شعر ہر شخص کی زبان پر ہے
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیاناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اب میرے سامنے دو امکان ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ شعر کو ساختیات کی کسوٹی پر پرکھنے کے لئے اس کے کل پُرزے کھولوں۔ بات نہ بنے تو اس کو پس ساختیات کے ترازو پر تولوں پھر بھی اس کی پرتیں نہ کھلیں اور اس کی تہوں میں چھپے ہوئے مطالب وا نہ ہوں تو کسی مابعد جدیدیت کے استاد کے پاس لے جاکر کہوں کہ وہ شعر کو ذرا پرکھ کر بتائے اور دوسرا امکان یہ ہے کہ اسی شعر کو آہستہ سے اپنے شعور میں اترجانے دوں یہاں تک کہ ذہن میں یہ شعر دھیمے سے ایک تار چھیڑ دے اور بالکل ویسی آواز آئے جیسے کسی لڑکی کی پائل میں پڑا ہوا چھوٹا سا تنہا گھنگرو بولتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کون سی راہ اختیارکروں؟
تازہ ترین