چین کے صوبہ سنکیانگ کے گورنر نوربیکری ( Nur Bekri ) نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ انتہا پسند شادیوں پر ہنسنے دیتے ہیں اور نہ موت پر رونے دیتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ شادیوں اور خوشی کے مواقع پر گیت نہ گائے جائیں اور رقص بھی نہ کیا جائے ۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اپنے کسی پیارے کی موت پر گریہ و زاری بھی نہ کی جائے ۔ وہ مسکراہٹ اور آنسوؤں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ گورنر سنکیانگ کی یہ بات اخباروں میں پڑھ کر ہمیں تو بے اختیار ہنسی آ گئی ۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی ہنستا ہوا دکھائی دے تو فرائیڈ کا یہ مقولہ یاد آتا ہے کہ ’’ صرف پاگل ہی ہنستے ہیں ۔ ‘‘
نور بیکری نے اپنے صوبے میں جس ’’ نئے ضابطے ‘‘ کے نفاذ کے لیے ایک حلقے کی کوششوں کا ذکر کیا ہے ، اس
ضابطے سے انہیں خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ چین کے سماج میں ایسے ضابطے کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ چین کے ’’ عظیم دانشمند ‘‘ اور ’’ پہلے معلم ‘‘ کنفیوشس نے کہا تھا کہ ’’ جبرواستبداد کو انسانی سماج پر نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ انسان فطری ضابطہ اخلاق اور رسم و رواج کو مانتا ہے ۔ اسے ہنسنے اور رونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ‘‘ چین کے لوگ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے وارث ہیں ، چینی دنیا کی وہ قوم ہے ، جس کا اپنی تاریخ اور ماضی سے جس قدر گہرا رشتہ ہے ، اس قدر کسی دوسری قوم کا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے عہد قدیم کی نفسیات اور دانش آج بھی ہر چینی باشندے میں موجود ہے ۔ آج کے چینی باشندوں کا ماضی سے رشتہ کبھی نہیںٹوٹا ۔ چین شاید دنیا کا واحد خطہ ہے ، جہاں کے لوگوں کو اپنی زبان ، ثقافت اور شناخت تبدیل نہیں کرنا پڑی ۔ چینی ہزار ہا سالوں سے اپنی اصلیت پر قائم ہیں ۔ ورنہ پوری دنیا میں حملہ آوروں اور سامراجیوں نے ہر خطے کے مقامی لوگوں کے مذکورہ بالا اوصاف تبدیل کردیئے ۔ یہاں تک کہ جرمن اور فرانسیسی بھی ’’ اصل‘‘ نہیں ہیں ۔ چین کی تہذیب آج کی دنیا میں رائج تمام مذاہب سے بھی زیادہ قدیم ہے ۔ انہوں نے تو 8 ویں صدی قبل مسیح ’’ بہار اور خزاں کا عہد ‘‘ دیکھ لیا تھا ۔ یہ عہد چار صدیوں پر محیط تھا ۔ اسی عہد میں ہی چین نے وہ سارے تجربات کیے ، جو باقی دنیا اب تک کر رہی ہے ۔ اس عہد میں چینی سماج نے وہ تمام اتار چڑھاؤ دیکھے ، جن سے گذرتے گذرتے تاریخ میں قوموں کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔ اسی عہد میں ہی کنفیوشس نے جنم لیا ۔ اسی عہد میں ہی کنفیوشس ازم ، تاؤ ازم ، لیگل ازم اور دیگر سیکڑوں مکتبہ ہائے فکر نے چینی سماج میں اپنی جڑیں پکڑیں لیکن استاد کنفیوشس ہی حاوی رہا ۔ ایک دن ان کے ایک طالب علم نے ان سے پوچھا ’’ استاد ! مجھے صرف ایک لفظ بتائیں ، جو ساری زندگی انسان کی رہنمائی کرتا رہے ۔ استاد کنفیوشس نے جو ایک لفظ بتایا ، اس کا ماہرین لسانیات نے انگریزی میں ترجمہ ’’ Reciprocity ‘‘ کیا ۔ اس انگریزی لفظ کا اردو میں ترجمہ ’’ دو طرفہ پن ‘‘ مناسب ہو گا ۔ طالب علم نے اس لفظ کی وضاحت طلب کی تو استاد نے فرمایا ’’ دوسروں پر وہ مسلط نہ کرو ، جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہو ۔ ‘‘ گورنر سنکیانگ نور بیکری کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ نفرت و انتشار اور جبرو استبداد کے خلاف مزاحمت کی جڑیں چین کی تاریخ میں بہت گہری ہیں ۔
مسئلہ تو ہمارا ہے ۔ نور بیکری کو ہماری فکر کرنی چاہئے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ہم کون ہیں اور تاریخ میں بحیثیت قوم ہماری شناخت کیا ہے ؟ ایسے ضابطوں کا ہم ہی دنیا میں سب سے زیادہ آسان شکار ہیں ۔ اگر کوئی ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرے گا کہ ہم کون ہیں اور ہماری شناخت کیا ہے تو وہ کافر اور غدار ہو گا ۔ 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب جنوبی ایشیاء میں اچانک ایک ایسی قوم وجود میں آئی ، جو اس خطے کی تاریخ اور ماضی کے ساتھ اپنے رشتے سے منکر ہے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان کے لوگ وادی سندھ کے باشندے ہیں تو وہ بھی واجب القتل ٹھہرتا ہے ۔ یہ قوم 14 اگست 1947ء سے پہلے اس خطے کی تاریخ کو بھی نہیں مانتی ہے ۔ اس لیے وہ تاریخ میں اپنی اصلیت تلاش کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتی ۔ ہم صرف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم وہ قوم ہیں ، جس کا ہر فرد اقبال کا شاہین اور مرد کامل ہے ۔ ہم وہ برگزیدہ قوم ہیں ، جسے دنیا کی امامت کا فریضہ سونپا گیا ہے ۔ دنیا کی رہبری اور رہنمائی کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے ۔ ہمارا فلسفہ ’’ خودی ‘‘ ہے اور یہی فلسفہ صرف ہمارا تاریخ سے رشتہ جوڑتا ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا ظہور ہی اس لیے ہوا تھا کہ انسانی تہذیب اور تاریخ کے فیصلہ کن مرحلے میں پاکستان کے نام سے اسلام کا ایک ’’ قلعہ ‘‘ بنے گا ، جہاں سے دنیا کو راہ راست پر لانے کے لیے حتمی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگا ۔ ہم دین میں جبر نہ کرنے کے قرآنی حکم کو بھی ماننے سے انکاری ہیں ۔ ہم نے اس خطے کے اپنے ہی عظیم بزرگوں کی تعلیمات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے ، جو یہ درس دیتے ہیں کہ ’’ عشق سارو اسلام ، مذہب محبت عین مبارک ‘‘ (مصری شاہ ؒ ) ہم اس بصیرت سے بھی محروم ہو گئے ہیں ، جو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے ’’ مجھ پر آنکھوں نے بڑی مہربانی کی ہے ۔ اگر رقیب کو بھی ان سے دیکھتا ہوں تو وہ محبوب نظر آتا ہے ۔ ‘‘ ( شاہ لطیفؒ ) ۔ ہمارے ہیروز وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے دنیا کو تہہ و تیغ کر دیا ۔ ظلم ، استحصال ، استبداد اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو ہم بد بخت اور گمراہ تصور کرتے ہیں ۔ ہم نے طاقت اور بندوق کی حکمرانی کو اپنا بنیادی فلسفہ حیات بنا لیا ہے ۔ ہم اپنی شناخت سے منکر ہیں ۔ ہم اپنے ماضی سے لا تعلق ہیں۔ ہم اپنی زمین سے رشتہ نہیں جوڑنا چاہتے ۔ ہم ہر بندوق والے کی دلیل کو درست مانتے ہیں ۔ ہم نے خود ہی جبرو استبداد کو اپنے اوپر نافذ کر دیا ہے ۔ ہمارے ہنسنے اور رونے پر پابندی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ ہم روزانہ بے گناہ لوگوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں لیکن ہمیں کوئی دکھ نہیں ہوتا ۔ نور بیکری یہاں پر آ کر ہماری حالت پر ماتم کریں ۔ اگر وہ ہنسنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے اس بات کے بھی مواقع موجود ہیں ۔ ’’ جمہوریت پسندوں ‘‘ کے آزادی اظہار کے خلاف اور جبرو استبداد کے حق میں مظاہرے دیکھ کر انہیں بھی اسی طرح ہنسی آئے گی ، جس طرح ہمیں ان کی بات پر ہنسی آ گئی ۔ عظیم دانشمند اور استاد کنفیوشس کا فکر مندی والا وہ مشہور سوال کوئی ہم سے پوچھے کہ ’’ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی ؟ ‘‘ ہم اس کا یہی جواب دیں گے کہ ہم نہ ہنس سکتے ہیں اور نہ رو سکتے ہیں ۔