• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کم سے کم خواب دیکھ لیتا ہوں
دن سے بہتر تو رات ہے میری
انور شعور کا یہ شعر یوم مئی کے حوالے سے مجھے یاد آیا۔ یکم مئی کو ہم نے 125 واں مزدوروں کا عالمی دن منایا ہے۔ چھٹی منائی ہے۔گھر بیٹھ کر سارا دن اخبارات کا مطالعہ کیا ہے اور ٹی وی کے پروگرام مارننگ شو سے لے کر کھانا پکانے کی ترکیبوں تک بلاوجہ دیکھے ہیں۔یکم مئی کو گرمی بھی کڑاکے کی تھی اور پھر یوم سوگ کی کال نے موسم کی گرمی میں مزید رنگ بھر دیئے اور پلک جھپکتے ہی سارا شہر بند ہو گیا۔ روشنیوں کے اس شہر کو کسی بد نظر کی نظر لگ گئی۔ یہاں ہر روز صبح اٹھتے ہی ہاتھ پائوں بندھی نعشوں کی خبر پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ یہاں نسیم سحر کے جھونکے بھی ڈرانے والی خبریں لاتے ہیں۔ دعائیں بھی کام نہیں آ رہیں۔ مجھے حسب عادت یہاں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک مولوی صاحب نے اپنے نمازیوں سے کہا کہ تم لوگ اتنے گناہ گار ہو گئے ہو کہ اب اللہ تمہاری دعائیں بھی نہیں سنتا۔ ایک نمازی نے بڑی ادب سے کہا کہ مولوی صاحب! دعا تو آپ مانگتے ہیں، ہم تو صرف آمین کہتے ہیں۔ بات مزدوروں کے عالمی دن سے چلی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دن کو ہم بھی پیپلز پارٹی کی پاکستان میںحکومت آنے کےبعد شاید 1973ء سے منا رہے ہیں مگر صرف چھٹی منا رہے ہیں۔ جلسے اور ریلیاں نکال کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں اور ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں سیمینار کر کے مزدوروں کا غم غلط کرنے کے مقالے پڑھتے ہیں۔ جب میں مزدور کو بھٹی میں پھینک دینے کے قصے سنتا ہوں تو روح کانپ جاتی ہے۔ ہم کس دور میں رہ رہے ہیں۔ یہ تو 125 سال سے پہلے کا دور ہے۔اس وقت بھی مزدوروں کے حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے ہمارے معاشرے میں آج ہیں۔ وہ مزدور جن کو سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نوکریاں مل گئی ہیں، وہ خوش قسمت ہیںکیونکہ انہیں قانون میں دی گئی تمام مراعات مل گئی ہیں اور کام بھی نہیں کرنا پڑتا کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یونین ہے، مضبوط یونین ذرا سی بات پر ہڑتال کروا سکتی ہے۔ تالہ بندی ہو سکتی ہے۔ مالک کا گھیرائو ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بات کریں ان بدنصیب مزدوروں کی جو 42 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں سڑک پر تعمیراتی کام میں مصروف ہیں۔ وزن اٹھائے ہوئے جوڑیا بازار اور فروٹ منڈی میں پرائیویٹ نوکریاں کر رہے ہیں۔ وہ ہاری جو 48 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں کھیتوں میں کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں دور دور تک نہ تو کوئی سائباں ہے اور نہ پینے کے پانی کا انتظام۔ حکومت نے مزدوروں کی فلاح بہبود کے لئے ان گنت محکمے کھول رکھے ہیں۔ ان محکموں کے افسران کے پاس بڑی بڑی جیپیں ہیں اور ان کی ڈیوٹی مل مالکان پر کڑی نظر رکھنا ہے۔ وہ اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں اس قدر مستعد ہیں کہ بیشتر مل مالکان ان کی وجہ سے ملیں بندکرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اب وہ اپنے سرمائے سے اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا سٹہ کھیلتے ہیں اور شام تک اپنے سرمائے میں جمع تفریق کر کے انڈکس کا اتار چڑھائو دیکھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔ بہت لوگ تو صرف کرکٹ میچوں پر شرطیں لگا کر اپنے لئے نفع نقصان اوپر نیچے کر لیتے ہیں۔ جن کے ذمے مزدوروں کی فلاح کا کام تھا وہ اپنی فلاح میں اس قدر مگن ہو گئے کہ مزدور جہاں تھا وہاں سے بھی پیچھے چلا گیا۔ میں اس تحریر سے کسی خاص طبقے پر تنقید نہیں کر رہا، میں تو صرف اپنا محاسبہ کر رہا ہوں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم یوم مئی منا کر کس حد تک کام کرنے والے بے بس پسے ہوئے مزدوروں کی مدد کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں۔ اب تو مزدوری کی بات چھوڑیں۔ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ مزدوری تو ملتی ہی نہیں۔ بیروزگاری ہے، مزدوری ملے گی تو مراعات کی بات کریں گے۔ یہاں تو روزگار ہی نہیں ہے اور بے شمار بے روزگار لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے قارئین نے تھر میں ہونے والی قحط سالی کے مناظر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر دیکھے ہیں اور یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک طرف کھانے کو نہیں ہے اور دوسری طرف بد ہضمیاں ہو رہی ہیں۔ ضیافتیں اڑائی جا رہی ہیں۔ یہ سب باتیں اب پرانی ہو گئی ہیں۔ ہم ان چیزوں کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اب ان کا ذکر دل و دماغ پر کوئی اثر ہی نہیں کرتا۔ اور بقول فراز۔ دل وہ بے مہر کے رونے کے بہانے مانگے۔
شمس الغنی کا ایک شعر ہے
اس شہر ہراساں میں جو چند اہل صفا تھے
ہیں دست بہ زنجیر ! دعا کون کرے گا
آج صبح ہی میں اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ ہاریوں اور کاشتکاروں کے سلسلے میں قانون میں ترمیم کر کے اخراجات ان کے ذمے ڈالے گئے ہیں۔ میں نے اس ترمیم کو پڑھا نہیں۔ اگر واقعی ہی ایسا ہے تو اس ترمیم کو عدالت میں چیلنج ہونا چاہئے کیونکہ یہ مفاد عامہ کے خلاف ہے۔ اور اس سے ہاریوں پر مالی بوجھ بڑھتا ہے جو کہ اس مہنگائی کے دور میں تکلیف دہ ہے۔ آج کل پھر لوڈشیڈنگ کا واویلا ہے اور سخت گرمی میں لوڈشیڈنگ قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام گھروں سے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جو بعض اوقات پُرتشدد احتجاج میں تبدیل ہو جاتا ہے اور لوگ بجلی کے ٹرانسفارمروں اور سسٹم کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں جہاں لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے کی مذمت کرتا ہوں وہیں اپنے ذی شعور عوام اور خاص طور پر نوجوان طبقے سے درخواست کرتا ہوں کہ احتجاج ضرور کریں مگر تنصیبات کو نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ ایسی صورت میں بجلی کی فراہمی میں مزید تاخیر کا امکان ہے۔اگرچہ بجلی والوں نے لوگوں کو ناجائز بل دے کر اتنا تنگ کیا ہوا ہے کہ لوگوں کا تمام تر غصہ ان ہی پر نکلتا ہے۔ اس ادارے کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کا مقصڈ ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا، مگر کارکردگی تو بہتر نہ ہو سکی، وصولی بہتر ہو گئی۔ لوگ بجلی کے ناجائز بلوں سے پریشان ہیں اور جب وہ شکایت کے مرکز پر جاتے ہیں تو وہ شکایت کا ازالہ کرنے کے بجائے بل میں دیئے ہوئے ناجائز پیسوں کی قسطیں بنانے کی پیشکش کرتے ہیں جسے لوگ مجبوراً قبول کر لیتے ہیں۔ بل میں لگائے گئے زائد پیسوں کا نہ تو کوئی حساب دیا جاتا ہے نہ وجہ بتائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ خاص طور پر بجلی کے محکمے کے لئے ایک محتسب مقرر کرے جو کہ ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہو اور وہ فوری طور پر عوام کی شکایات سن کر محکمہ بجلی کو حکم جاری کرے۔خصوصی طور پر بلوں کے مسئلے پر عوام بے حد پریشان ہیں اور محکمے کا رویہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو صرف بجلی کے محکمے کی وجہ سے حکومت کے خلاف کوئی تحریک چل سکتی ہے جو کہ اقتدار کے ایوانوں کو ہلا دے گی۔ اور سیاسی تبدیلی لانے والوں کو عوام کا بھرپور ساتھ مل جائے گا کیونکہ عوام بےانتہا تنگ ہیں اور مایوسی کا شکار ہیں۔ ارباب اختیار جو کہ خود دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور مزید محکموں کو پرائیویٹائز کرنے کے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پہلے سے پرائیویٹائز کئے ہوئے بجلی کے محکمے کی کارکردگی دیکھیں اور اس کی روشنی میں مستقبل کے فیصلے کریں۔ آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ خدا اس ملک کو سلامت رکھے اور امن و سکون عطا کرے کالم کا اختتام کرتا ہوں۔ آخر میں حفیظ ہوشیار پوری کا شعر پیش خدمت ہے
دِلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی!
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
تازہ ترین