• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا کی ماڈل گرل، قندیل بلوچ کے قتل نے پاکستان کی سول سوسائٹی کو برانگیختہ کردیا۔چھبیس سالہ نوجوان لڑکی کی بھائی کے ہاتھوں تشدد کے نتیجے میں ہلاکت سے ہمارے سماجی طبقوں ، خاص طور پر شخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنے والی نوجوان، متحرک اورویب کی دنیا کی دلدادہ خواتین میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ۔ قندیل بلوچ نے انٹر نیٹ پر اپنے دھماکہ خیز اور چکاچوند، لیکن مختصر سے کیرئیر کے دوران لاتعداد پاکستانیوں کی رومانوی تخیلات سے سجی دنیا کو متاثر کرنا شروع کردیا تھا۔
ڈیرہ غازی خان کے ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولنے والی قندیل بلوچ کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا، اور اس کے بارہ بہن بھائی تھے ۔ اس کی شادی سترہ برس کی عمر میں ہوئی ، لیکن جلد ہی اُس نے اپنے مبینہ طور پر اذیت پسند شوہر کو چھوڑ کر دارالامان میں پناہ لے لی۔ اس کے بعد اُس نے کئی ایک جگہ ملازمت کی ۔ پھر 2013 میں ایک مقبول ٹی وی شو، ’’Pakistan Idol‘‘ کے لئے آڈیشن دیا۔ اس وقت تک فوزیہ عظیم اسٹیج پر کام کرنے کے لئے ایک جادوبھرا نام، قندیل بلوچ اپنا چکی تھی۔ مذکورہ ٹی وی پروگرام کے لئے آڈیشن دیتے وقت اُسے ایک ’’تباہ کن امیدوار‘‘ قرار دیا گیا۔ اُس کی گائیکی کی کوشش گانو ں کو جج کرنے والے حضرات کے کانوں پر نہایت ناخوشگوار اثرات چھوڑ گئی، اور ایسا لگا جیسے اُس کی بے سری آواز کا بھدا پن دراصل ریکارڈنگ مشین کی کسی خرابی کی وجہ سے ہے ، لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس دوران وہ اسٹیج ڈراموں پر معمولی سے کردار ادا کرتی رہی جس میں اکثرجسمانی طور پر متحرک دکھائی دینے کی کوشش کرتی کیونکہ وہ شوبز کی دنیاکو اپنے سحر میں مبتلا کرنے کے لئے بے تاب تھی۔ اس نے قیمتی ملبوسات زیب تن کرنا ، انگریزی جملے بولنااور کچھ انتہائی بھڑکیلے انداز دکھانا شروع کردئیے۔
کچھ عرصہ بعد قندیل نے بہت ہوشربا انداز میں عوام کے سامنے آنے کی ’’حکمت ِعملی‘‘ اپنالی۔ ٹی وی پر انحصار کرنے کی بجائے اُس نے فیس بک کی دھماکہ خیز دنیا میں قدم کیا رکھا، شہرت کی اپنی سی کہکشاں سجالی۔ اُس نے ایک گھریلو عام لڑکی کی طرح فیس بک استعمال کرنے کی بجائے اپنی دلکشی کے مضراب سے سوشل میڈیا کی دنیا میں سفر کرنے والوں کے جمالیاتی ذوق کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کردی۔ بھڑکیلے لباس، نشیلی آنکھوں کے ساتھ اُس نے اپنے حسن اوربھدی آوازسے ایسی غیر یقینی کشش کا ماحول پیدا کردیا جس کی کچھ جھلک شاید ہمیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں ہی ملتی ہے ۔ اس دوران اُس نے عمران خان کے ساتھ اپنی ’’متوقع شادی‘‘ سے ماحول گرما دیا۔ وہ پی ٹی آئی کے قائد کا نام جان بوجھ کر اس طرح بگاڑ کر لیتی جیسے وہ کوئی مشہور بھارتی اداکارہ ہو۔ اپنی گفتگوکے دوران انگریزی لفظ ’’لائیک‘‘ کا بہت استعمال کرتی جبکہ اس دوران اُس کے چہرے پر ایک مخصوص تاثرات کھیل رہے ہوتے۔ وہ اردو شاعری کواحمقانہ انداز میں پڑھنے میں اپنی مثال آپ تھی۔
دوسرے الفاظ میںقندیل بلو چ خود کو ایک نئے پاکستان کے فنکار کے طور پر تفریح کی دنیا میں اتار رہی تھی، ایک ایسی فنکارہ جو فیشن کے جادو سے لے کر بے سُری آواز، اوراعضا کی شاعری سے لے کر اردوشاعری تک، ہر صنف سے آمد ختم کرکے من پسند آورد کو جذبات کے پیمانے میں سموتی جارہی ہو۔ جلد ہی اُس کے فیس بک فالوورز کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کرگئی۔ اس کے فیس بک میٹریل پر تبصروں میں جذبات کا اظہار بھی ہوتا، اخلاقیات کی ہدایت بھی، تیز و تند جملے بھی ہوتے اور پیار کا اظہار بھی ۔ یہ سمجھنا آسان تھا کہ اُس کا فارمولہ کام کررہا تھا ۔۔۔’’ محبت کریں یا نفرت، آپ قندیل بلوچ کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔‘‘افسوس سوشل میڈیا، اگرچہ شہرت کو راتوں رات چار چاند لگا دیتا ہے، ٹی وی اور فلم کے برعکس اپنے’’ستاروں ‘‘ کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ اگرچہ اُس نے بہت جلد منفی شہرت حاصل کرلی لیکن وہ اسے رقم میں تبدیل کرنے کا ہنر نہ سیکھ پائی، اور نہ ہی وہ طاقتور سرپرستوں کے ذریعے شوبز کی سنہری دنیا میں آنے کا راستہ ہموار کرسکی ۔
اپنی زندگی کے آخری مہینے میں، قندیل کو سوشل میڈیا پر اپنی راہوں کی تنگ ظرفی کا احساس شدت سے ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اُس نے ان ’’حدود‘‘ کو توڑنے کی کوشش میں ایک ہوٹل کے کمرے میں مفتی قوی ، جو اُس وقت رویت ِ ہلال کمیٹی کے رکن تھے، کے ساتھ کچھ سیلفیاں بنائیں اور ویب پر ڈال دیں۔ اس کے بعد اُس نے ’’بیڈ پر ڈانس‘‘ کی ایک ہوش رباویڈیو بھی اپ لوڈ کردی ۔ توقع کے مطابق یہ ویڈیوسماجی اور اخلاقی اقدار کے منافی قرار دی گئی۔ کچھ نیوز رپورٹس کے مطابق وہ اپنی منفی شہرت سے اپنے لئے دولت کی دنیا میں قدم رکھنے کی امید لگائے ہوئے تھی۔ اس دوران اُسے اپنے خاندان کی طرف سے دبائو کا سامنا بھی تھا۔ وہ پروڈیوسرز کو بتاتی رہتی کہ اُسے اپنے بھائیوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں، حالانکہ وہ اُنہیں مالی طور پر سپورٹ کرتی تھی۔ اس کے بعد اُس نے ایک اور جھول دکھائی اور عید منانے اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔
افسوس، یہاں اُس کا سفر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ وہ سماجی گھٹن سے آزادی چاہتی تھی لیکن اس کا سفر ِ زیست محدود کردیا گیا۔ جب وہ عید پر اپنے والدین سے ملنے ملتان گئی تو اُسے گلا دبا کر ہلاک کردیا گیا۔ قتل کا اعتراف اُس کے ایک بھائی نے کیا جو خود منشیات کا عادی ہے ، لیکن اُ س کا کہنا ہے کہ اُس نے ’’خاندان کی عزت اور بلوچ نام کو پامال ‘‘ کرنے کی پاداش میں اپنی بہن کو قتل کیا۔ گویا بھائی کا نشہ خاندان کی عزت کو چار چاند لگارہا تھا۔ ہمیں اس کے اعتراف اور قتل کے بیان کردہ محرک کو سطحی انداز میں نہیں لینا چاہئے۔ اس دوران ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ قندیل بلوچ اپنی طرز کی پہلی لڑکی تھی جس نے اپنی صلاحیتوں کو منوانے کی ٹھانی لیکن جلد ہی اُسے اپنی کم مائیگی کا احساس بھی ہوگیا۔کتنی رنگین زندگی کتنی افسوس ناک موت کو گلے سے لگا کر اس جہان سے رخصت ہوئی۔ سوشل میڈیا کی دنیا اور حقائق کی دنیا کے درمیان خلا میں معلق قندیل بلوچ معاشرے کو بہت کچھ سوچنے پرمجبور کرگئی ۔
تازہ ترین