• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرزند ِ اقبال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی نشست سے اُٹھے، باریش بزرگ کا مصافحے کے لئے بڑھایا ہاتھ تھاما، فرط ِ عقیدت سے چوما اور پھرآنکھوں کو لگالیا۔ دل کے بجائے دماغ سے سوچنے اور لوگوں کو عقل و منطق سے رہنمائی لینے کی تلقین کرنے والے لبرل عالم و فاضل کویہ کیا ہوا؟ پچھلی نشست پربیٹھا تھاڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں جھانک نہ سکا مگر اس پذیرائی پربوڑھے کی آنکھیں بھر آئیں اور شہید کےباپ ہونے پرفخر ووقار کے مزید جذبے سے سرشارآگے بڑھ گیا ؎ اللہ اکبر یہ لوٹنے کی جائے ہے۔
یہ یوم شہدا کی پانچویں سالانہ تقریب تھی۔ یادگار ِ شہدا کے سامنے سٹیج سے اتر کر فرزند ِ اقبالؒ کی دست بوسی کا خواہشمند بوڑھا کیپٹن ضرارشہید کا والد تھا اور ساتھ ان کی بیوی، ضرارشہید کی ماں جو پاک بحریہ میں خدمات انجام دینےوالے دوسرے بیٹے کے لئے بھی شہادت کی آرزو کرتی ہے اور فرمانبرداربیٹا اپنے چھوٹے بھائی کی قسمت پر رشک کرنے کے ساتھ اس بات پر نازاں کے ضرار مجھ سے آگے بڑھ گیا۔ لوگ اب مجھے ضرا ر کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ کاش یہ اعزاز میں بھی حاصل کرتا۔
ضرارشہید اگست 1999میں غیرجنگی اٹلانٹک طیارے میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھاجب بھارتی فوج نے پاکستانی سرحد کے اندر اس قیمتی طیارے پر میزائل داغا اور پندرہ دیگر ساتھیوںسمیت ضرارشہید لقمہ اجل بن گیا۔ اس وقت کرگل معرکہ ختم ہوئے ایک ماہ گزرا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی فرمائش اور اٹل بہاری واجپائی کے دبائو پر ہم نے کرگل آپریشن کو اپنی غلطی مان لیا تھا اور کنٹرول لائن کاتقدس برقرار رکھنے کا وعدہ ہیوی مینڈیٹ میاں نوازشریف نے بھارت اور امریکہ دونوں سے کرلیاتھا مگر بھارت نے اٹلانٹک جہاز کی تباہی اور پندرہ پاکستانیوں کی شہادت سے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔
بھارت سے معرکہ آرائی اور لاہورسے فاٹا تک دہشت گردوں سے پنجہ آزمائی کے دوران شہادت کی سعادت حاصل کرنے والے سرفروشوں کے ورثا پنڈال میں داخل ہوئے تو مرد وزن حاضرین نے کھڑے ہو کر عقیدت و احترام سے استقبال کیااور جب تک یہ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے اپنی نشستوں پربیٹھ نہیں گئے لوگ انہیں رشک آمیز نگاہوں سے دیکھتے، محبت بھرے جذبات نچھاور کرتے رہے۔
گورنر پنجاب چودھری محمدسرور، ممبر قومی اسمبلی حمزہ شہباز، شفقت محموداور کور کمانڈرلاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان سمیت ہر مہمان اورمیزبان ہمہ تن گوش تھا اور شہداکےماںباپ اپنے پیاروں کاذکر ہمت، حوصلے، پیار و محبت سے کر رہے تھے ۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو تھی اور چہروں پر یک گونہ فخر کااحساس کہ وہ مادرِ وطن پر اپنی عزیز ترین متاع قربان کرکے ثابت قدم ہیں اور جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار۔
ایک بیوہ نے جب کہا کہ اب میں اپنے چار سالہ بیٹے کو جو فوجی وردی میں ملبوس ساتھ کھڑا تھا اپنے باپ کی طرح مادر ِ وطن کا محافظ بننے کے لئے تیار کروں گی تو پنڈال میں سسکیوں کاطوفان امڈا اور آنسوئوں نے ہر ایک لب ورخسار تر کردیئے۔ عائشہ ثناسے شدت جذبات کے سبب بولا نہیں جارہا تھا اور طارق عزیز (نیلام گھر فیم) برملااپنی عجز بیانی کااعتراف کرنےلگے۔ عائشہ ثنا نے تومتاسفانہ لہجے میں یہ تک کہہ دیا کہ میں ایک ناکام ماں ہوں جو اپنے بیٹے کو فوج میں بھرتی ہونے کےلئے تیار نہ کرسکی۔ حاضرین ابھی ایک ماں، باپ، بھائی اوربیوہ کی بات سن کر آنسو پونچھ نہ پاتے کہ نئی داستان جرأت، ہمت، شجاعت، جذبہ ایثار و قربانی ان کی آنکھوں میں ساون بھادوں کی جھڑی لگا دیتی۔
اس بار یوم شہدا کی تقریبات خاص ماحول میں ہوئیں۔ فوج اوردیگر دفاعی ادارے دبائو کا شکارہیں۔ حکومت طالبان مذاکرات، جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس، افغانستان اور بھارت کے انتخابی نتائج اور امریکہ کی طرف سے پاکستان پر نئے سرے سے الزامات کی بارش فوجی قیادت کے لئے پریشانی کاسبب ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان کو بھارت اور افغانستان پرحملہ کرنےوالوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کامرتکب گرداناگیا ہے اور حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کا ذمہ دار جبکہ اوباما کے سابق سلامتی مشیر جیمز ڈوبنز نے اعتراف کیا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات سنگین حد تک خراب ہوچکے ہیں مگر سول حکمران اس حوالے سے کسی اضطراب کا شکار نہیں، کافی حد تک لاتعلق اورترجیحات کے تعین میں غفلت شعار، سست رو او ر سہل پسند۔
لاہور میں کور کمانڈر جنرل نوید زمان نے دوران تقریب جب یہ جملہ کہا ’’اندرون ملک کچھ مٹھی بھر لوگ فوج اور عوام کے مابین دوری پیدا کرنے کے درپے ہیں‘‘ تو سامعین نےاسے موجودہ صورتحال سے منطبق کیا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کی بات کی تو یہ آشکار ہوا کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال بالخصوص نریندر مودی کی متوقع کامیابی کے حوالے سے فوج کی سوچ واضح ہے مگر سول حکومت تذبذب کا شکار ہے اس لئے میاں نوازشریف ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں۔ ہمسایو ں کی ریشہ دوانیوں اور طاقت کا توازن نہ بگاڑنے کی تدبیروں سےقوم کو آگاہ نہیں کرتے اور یوم شہدا کی تقریبات میں صدر، وزیراعظم، وزیر دفاع میں سےکوئی نظر نہیں آیا۔
کبھی پاکستانی نوجوان تحریک پاکستان کے جذبوں، ہجرت کی داستانوں اور پھر چھ ستمبر 1965کے سرفروشانہ واقعات سے توانائی حاصل کرتے تھے۔ اب یوم شہدا کی تقریب اپنے دشمنوں اور ان کے اندر ون ملک ایجنٹوں کی شناخت اور ان کے مدمقابل صف آرا غازیوںاور شہیدوں کے اعتراف عظمت کا ذریعہ ہے۔ ضرار شہیدہمیں ہر سال یاد دلاتے ہیں کہ اپنے حقیقی دشمن کو بھولو نہ اس کے عزائم سے ایک لمحہ کو غافل رہو کہ ہمیشہ مدنظر دشمن کی طاقت رکھنی چاہئے نیت نہیں۔ نیت بدلتے تو دیر نہیں لگتی۔
سارہ رضا نے مشیر کاظمی کا نغمہ پیش کیا تو حاضرین کی آنکھوں میں 1965کی جنگ کا منظرسمٹ آیا۔ عزیز بھٹی شہید، سرفرار رفیقی شہید اوران کے کئی دیگر ساتھی یادآئے اور ایم ایم عالم، سیسل چودھری جیسے غازی بھی جو 6ستمبر سے 23 ستمبر تک ڈٹے رہے اور لاہور پر قبضے ، جم خانہ کلب میں مے نوشی کی بھارتی خواہش خاک میں ملا دی ؎
اے راہِ حق کے شہیدو! ، وفاکی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیئے تم نے
بچا لیا یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے بچا لئے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر
رسول پاکﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
علی تمہاری شجاعت پر جھومتے ہوںگے
حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
تقریب کے اختتام پر میں نے ڈاکٹر جاوید اقبال سے پوچھا ’’حضور! آپ بھی جذبات کی رو میں بہہ گئے؟‘‘ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر صاحب گویا ہوتے، ولید اقبال بولے ’’عارف صاحب! میں تو خود حیران ہوں ڈاکٹر صاحب ایسے جذباتی کبھی نہیں ہوئے‘‘
میرے بیٹے شاہ حسن نے سابق گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول، سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور تقریب میں موجود دیگر سربرآوردہ فوجی، غیر فوجی شخصیات سے ملنے، باتیں سننے کےبعد مجھ سے پوچھا ’’پاپا! فوجی جوانوں اورافسروں کی ان قربانیوں، سرفروشانہ جذبوں اور ورثا کے احساسات کا ہمارے سویلین فیصلہ سازوں کو احساس کیوں نہیں؟‘‘ میں کیا جواب دیتا کرنل شاہد عباس کا شکریہ ادا کرکے نکل آیا۔
تازہ ترین