• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کئے گئے اقدامات پر امریکہ نے ایک بار پھر عدم اطمینان کا اظہار کردیا ہے ۔ یہ بات نہ صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے بلکہ پاکستان کے عوام کے لئے بھی تشویشناک ہے۔ عالمی دہشت گردی سے متعلق امریکی محکمہ دفاع کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کر رہا۔ صرف یہی نہیں بلکہ رپورٹ میں پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ فاٹا اور بلوچستان کے مدارس،افغانستان اور بھارت پر حملوں کا سبب ہیں۔ اس طرح بھارت اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے بھی بالواسطہ طور پر پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قانون اور عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رپورٹ میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں گواہوں ، وکلاء ، ججوں اور پولیس کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے دیگر مندرجات بھی غور طلب ہیں ۔
یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ان لوگوں کے بارے میں دل میں کوئی اچھے جذبات پیدا نہیں ہوئے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آج احساس ہو رہا ہے کہ بحیثیت قوم یہ ہماری سب سے بڑی غلطی تھی۔ امریکی کیمپ میں جانے کے بعد پاکستان کو تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں،اتنی قربانیاں مجموعی طور پر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ لڑنے والے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی نہیں دی ہوں گی۔ صرف نائن الیون کے بعد پاکستان کے ایک لاکھ سے زائد بے گناہ شہری اور سیکورٹی اداروں کے افسران اور جوان شہید ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے پاکستانی معاشرے کو ہیجان اور انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ۔ توانائی کا بحران ہے ۔ ریاستی ادارے اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکے ہیں ۔ پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک ملک بن چکا ہے۔ یہاں کا ہر باشندہ ملک چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ جو لوگ ملک چھوڑ سکتے ہیں وہ اسے چھوڑنے میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں کرتے اور باقی لوگ مجبوری میں یہاں رہ رہے ہیں۔ کرپشن معاشرے کے رگ و پے میں سرائیت کر چکی ہے ۔ حقیقی راج مافیا کے گروہوں ، دہشت گردوں اور کارٹیلز کا ہے۔ کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ ریاستی اور سیاسی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ صرف اور صرف اپنے ’’عظیم تر مفادات‘‘ میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بدترین حالات صرف اور صرف دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے پیدا ہوئے اور بدامنی و دہشت گردی کا بنیادی سبب پاکستان کا امریکی کیمپ میں شامل ہونا ہے ۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران اشرافیہ اس لئے کھل کر بات نہیں کر سکتی کہ پاکستان میں اقتدار اور طاقت کی مشین کے کل پرزے امریکہ میں بنتے ہیں ۔ ہمارے دفاعی نظام بلکہ سیاسی نظام کا انحصار بھی امریکہ پر ہے ۔ سرد جنگ میں پاکستان نے امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادیوں کے مفادات کی جنگ میں بہت آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ۔ سیٹو اور سینٹو کی رکنیت اختیار کرکے اپنے ہاں ایک بڑی فوج بنا لی اور اس خطے میں امریکی مفادات کی رکھوالی کی۔ امریکی مفادات کی اس جنگ کے دوران پاکستان میں اقتدار کے ڈھانچے کی تشکیل ہوئی اور وہی ڈھانچہ آج تک چل رہا ہے۔ امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے ہی پاکستان میں ایک دو سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی دیگر سیاسی جماعتوں، مذہبی گروہوں ، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کی گئی جو امریکی اسکرپٹ کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی ایک دوسرے کے مخالف نظر آتے ہیں لیکن ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ یہ گٹھ جوڑ کا دائرہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے لے کر امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکہ نے ہی القاعدہ ، طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپس کو اس خطے میں اپنی موجودگی کے جواز کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کھیل پر پاکستان کی ہیت مقتدرہ کیوں امریکی زبان بولتی رہی ۔ اس بارے میں بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اب اس بات کا احساس کر لینا چاہئے کہ پاکستان تباہی اور بربادی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردوں کے خلاف مسلح جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ پاکستان کے عوام نے بھی کراچی سے شمالی علاقہ جات تک اپنے لاکھوں پیارے اپنے ہاتھوں سے مٹی کے حوالے کئے ہیں ۔ چاروں صوبوں کی پولیس ، رینجرز ، ایف سی اور دیگر نیم فوجی اداروں اور سیکورٹی اداروں نے بھی بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات نامناسب ہیں۔ پاکستان پر یہ بھی الزام عائد کیا جار ہا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی اس رپورٹ سے ہی یہ عندیہ ملتا ہے کہ پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ ( Do more ) کا نہ صرف مطالبہ کیا جائے گا بلکہ ہمسایہ ملکوں اور خطے میں بدامنی پیدا کرنے کے الزام میں پاکستان کو سزا بھی دی جا سکتی ہے حالانکہ پاکستان اب کسی ڈومور کے مطالبے یا سزا کا متحمل ہی نہیں رہا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ہمارے ان بزرگوں نے قیام پاکستان کے بعد امریکی کیمپ میں جانے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ غلط تھا اور اب ہمیں اس عذاب سے نکلنا ہے۔ ہم ان باتوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائیں یا آپریشن کیا جائے؟ یہ الجھن بھی ہماری اپنی نہیں ہے اور نہ ہی مذکورہ بالا دونوں آپشنز میں سے کسی ایک آپشن پر عمل کر کے ہم کوئی اپنا کام کریں گے۔دونوں صورتوں میں ہی ہمارا نقصان ہے کیونکہ یہ دونوں آپشنز ہمارے ایجنڈے میں کسی اور نے شامل کئے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنا ایجنڈا بنانا ہو گا۔ ہمیں اس حقیقت کو سامنے رکھنا ہو گا کہ پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی بیرونی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ختم ہو کیونکہ اسی پر ہی ان کا سارا کھیل چل رہا ہے۔ پاکستان کے دشمن عناصر بھی اپنے مقاصد کے لئے دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ہمیں ہر اس داخلی اور خارجی مفاد پر ضرب لگانی ہو گی جو پاکستان میں دہشت گردی سے وابستہ ہے ۔ دہشت گردوں کو مالی امداد کی فراہمی ختم کرنا ہو گی۔ دہشت گردی کی بنیاد پر حاصل ہونے والے مالی مفادات کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا۔ یہ دونوں کام مذاکرات اور آپریشن سے زیادہ اہم اور بہت زیادہ مشکل ہیں۔اس کے لئے کسی ایسے بہادر قومی لیڈر کی ضرورت ہے ، جس طرح کے قومی لیڈر 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں تیسری دنیا کے ملکوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان لیڈرز میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ ہمیں عالمی سامراجی جنگ کی جزئیات میں الجھنے کے بجائے اس جنگ کے پس پردہ مفادات کو وسیع تر تناظر میں سمجھنا ہو گا۔ اب بحیثیت قوم ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔
تازہ ترین