• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآن کریم کی سورہ حج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جھوٹی بات سے بہر صورت بچو اور ایک جگہ فرمایا کہ مومنین جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ کارخانہ قدرت کی صناعی پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ ایک خودسر فرعون نے خدا بننے کی ٹھانی اور بنی اسرائیل کے معصوم بچوں کے قتل عام کا حکم صادر کر دیا پھر اسی فرعون کے گھر خدا کی قدرت، سیدنا موسیٰ ؑ پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں جنہیں رب ذوالجلال حکم دیتا ہے کہ جاؤ فرعون خودسر ہو گیا ہے اسے ظلم و تعدیٰ سے روکو۔ نمرود کے سر میں خودسری سمائی تو ایک حقیر مچھر نے اس کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔ کیا کیجئے شکوہ اور حکمرانوں کی تعریف و طرح داری اس عاجز کو پسند نہیں۔ چشمہ فلک نے بارہا دیکھا کہ مملکت خداداد میں ابھی اتنا اندھیرا نہیں کہ دن کو رات اور رات کو دن بنا دیا جائے۔ بیٹھے بیٹھے کوّے کا رنگ سیاہ سے سفید کردیا جائے۔ عمران خان جیسے رہنما کو جوش خطابت کا ہنر میسر ہو تو جب چاہے شرفا کی پگڑی اچھال دیں۔ ایسے ہی رہنماؤں کے بارے میں آغا شورش نے کہا تھا کہ
شب کی تعزیر پھیلی ہے چارسو
تو بضد ہے کہ میں اسے سویرا کہوں؟؟
رہنمائی کا پرچم لئے جو کارواں کو لوٹے
تو اسے کیا کہوں یا خوف سے رہنما مان لو
یا بے خوف ہوکر لٹیرا کہوں…
خطابت میں چھوٹے بڑے ،صاحب عزت ،شریف النفسوں کی عزت سے کھیلنا گویا کارِ طفلان، بچوں کا کھیل بن چکا ہے۔ میڈیا کا عروج سر آنکھوں پر ،حق خطابت بھی مناسب ،مگر جھوٹ ،غلو ،ابتزال اس قدر کہ خوف خدا ہی نہ رہے، جی ہاں یہی کیفیات ہیں جو مجھے آج اس کالم کو لکھنے کا محرک دکھائی دیتی ہیں۔ ایک طرف تلخ سچائی عوام کے سامنے لانے کی پاداش میں جیو ،جنگ گروپ اور اس سے وابستہ محب وطن پاکستانیوں کو غدار کے القاب سے نوازا گیا۔ آج جو لوگ قومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور نیشنلزم کا پرچار کررہے ہیں انہیں شاید نبی آخری الزماںﷺ کی وہ حدیث بھول گئی ہے کہ "ہمیشہ حق اور سچی بات کہو،اگرچہ وہ کڑوی ہو"۔
شاید متحارب قوتوں کو ملک کے سب سے بڑے نشریاتی و اشاعتی ادارے پر سینئر صحافی حامدمیر کی آڑ میں کیا گیا وار زائل ہوتا دکھائی دیا تو اپنے پرانے پیروکار کو میدان میں چھوڑ دیا۔ جن قوتوں نے تقریباً 20سال سے قائم تحریک انصاف کو اکتوبر2012ء میں آکسیجن فراہم کرکے سانس لینے کے قابل بنایا تھا ،آج شاید عمران خان اسی کا احسان اتارنے میں مگن ہیں۔ گو کہ سابق جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھرپور انداز میں حمایت نہیں ہو سکی مگر جو جنرل صاحب نے کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ایک مرتبہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ مجھے کہنے لگے کہ تمہارا یہ کرکٹر سیاستدان قابل اعتماد نہیں ہے اس میں غیرذمہ داری بہت ہے۔ حاجی صاحب کی رائے پر میں نے کبھی دھیان نہیں دیا مگر گزشتہ روز عمران خان کے عدلیہ کے ایک سابق سربراہ اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ پر انتخابات میں دھاندلیوں کے حوالے سے بے بنیاد الزامات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا حاجی صاحب درست فرماتے تھے۔عمران خان کے لب و لہجے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ پس پردہ قوتوں کے اشارے پر ہی اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگارہے ہیں اور ایک مرتبہ انہی کا سہارا لے رہے ہیں جن کی بدولت انہوں نے تحریک انصاف میں صور پھونکوایا تھا۔جنگ،جیو گروپ واضح انداز میں عمران خان کے بے بنیاد الزامات کا جواب دے چکا ہے،جہاں تک رہی جیو اور جنگ کے بائیکاٹ کی بات،تو شاید عمران خان بھول گئے ہیں کہ آج سے ٹھیک دو سال پہلے برسر اقتدار جماعت پیپلزپارٹی نے بھی جیو کے پروگراموں کا بائیکاٹ کیا تھا مگر ان کے بائیکاٹ کے بعد جیو مزید مستحکم ہوا اور بہتر انداز میں عوامی جذبات کی نمائندگی اور رائے عامہ کو ہموار کرتا رہا ہے۔ جہاں تک رہی سابق چیف جسٹس پر الزامات کی بات تو سونامی خان صاحب! براہ کرم راجن پور کی مشیر سے جان چھڑائیں اور عقلمند مشیر رکھ لیں جو انہیں یہ بتا سکیں کہ پنجاب میں ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری سیشن ججز کو تفویض کی گئی تھی اور تمام سیشن ججز لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ماتحت اور انہیں رپورٹ کرتے ہیں نہ کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عام انتخابات شفاف انداز میں ہوئے۔ معزز و ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان نے نہایت دیانت و ایمانداری کے ساتھ اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا لیکن اگر عمران خان کی بات کو درست ہی مان لیا جائے کہ پنجاب میں دھاندلی ہوئی ہے تو بھلا اس کی ذمہ داری اس وقت کے عدلیہ کے سربراہ پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ اگر عمران خان اس ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کے منصب کی تذلیل پر اتر ہی آئے ہیں تو سنیں، اگر پنجاب میں دھاندلی کرائی جاسکتی تھی تو خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف پر جھاڑو پھیرنا کونسا مشکل تھا؟ یہ سب فضول اور مضحکہ خیز سازشی تھیوریاں ہیں۔ دھاندلی کی بات کرنے والے عمران خان جس انداز میں بغیر ثبوت کے ملک کی عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ پنجاب کے 39اضلاع میں ریٹرننگ افسر کے فرائض سرانجام دینے والے معزز سیشن ججز میں سے 35اس وقت بھی ماتحت عدالتوں میں اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔خدارا عمران صاحب اس ملک کی عدلیہ کی ساکھ پر کیچڑ مت اچھالیں، سابق آمر پرویز مشرف کی روش پر مت چلیں۔
ایک وقت تھا جب ملک میں روزنامہ ’جنگ‘ نے صحافت کی اقدار مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان کا سب سے کثیرالاشاعت قومی روزنامہ بن گیا۔ عوامی تائید کا کوئی بھی سروے اٹھالیں آج بھی ’جیو‘ قومی توقعات پر پورا اتر رہا ہے۔ صد شکر کہ اس نشریاتی ادارے کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کی فضاؤں میں پاکستان کا عَلم بلند کئے ہوئے ہے۔ دکھتے ہوئے عوامی مسائل، ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانااسی کاخاصا ہے۔ تعلیم کے فروغ یا پولیو کے خاتمے کی مہم ہو ’مسٹرجیم‘آپ کی توجہ مبذول کراتا نظر آئے گا۔فارسی میں کیاخوب مقولہ ہے کہ ’ سورج کے اندھا ہونے سے بہتر ہے کہ چمگادڑیں ہلاک ہوجائیں اور اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ حق ہمیشہ غالب آکر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔ جنگ،جیو گروپ کے روح رواں نے جن اصولوں پر اس ادارے کی بنیاد رکھی ان کے مقدم جانشین اسی روش پر کاربند ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے درست کہا ہے کہ میرخلیل الرحمن اور ان کے خاندان سے زیادہ اس ملک کا وفادار کون ہوسکتا ہے۔
عمران خان صاحب کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ میرے محترم’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، فکر پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے۔ ابھی حالات اتنے برے نہیں کہ رات کو دن اور دن کو رات کہہ دیا جائے۔آپ کو اشارہ ملے اور آپ اعلیٰ عدلیہ کے سابق چیف جسٹس اور ماتحت عدالتوں کے ججز کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیں۔اگر آپ ایسا کریں گے تو اقبال نے ہی کہا تھا نہ کہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
تازہ ترین