جرمنی کا شہر آئزن ہوتین شتادت اب بھی اپنے اندر شاہانہ تمکنت لئے ہوئے ہے۔ یہ شہر خاصا کشادہ ہے۔ شہر کی مرکزی سڑک سے ایک بڑی اسٹیل فیکٹری سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے، یہ فیکٹری اس شہر کے عروج و زوال دونوں کیلئے نہایت اہم رہی ہے۔ جرمنی کے مشرق میں پولینڈ کی سرحد کے قریب واقع آئزن ہوتین شتادت 1950ء میں ایک ماڈل سوشلسٹ شہر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ سابق مشرقی جرمنی کے بنائے گئے اس شہر کی کہانی جسے کبھی ستالین ستید کہا جاتا تھا، کئی لحاظ سے خود مشرقی جرمنی کی کہانی ہے۔ 1989ء میں فیکٹری نے 12؍ہزار افراد کو ملازمت دی تھی اور علاقے کا تقریباً ہر خاندان کسی نہ کسی طرح اس فیکٹری سے وابستہ تھا۔ دیوار برلن کے انہدام کے بعد اس فیکٹری کی نج کاری کردی گئی اور اب اس میں صرف 2500؍لوگ رہ گئے ہیں اور اس وجہ سے آئزن ہوتین شتادت میں پہلی مرتبہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو گئی۔ اب اس شہر کے نوجوان روزگار کی تلاش میں شہر سے باہر جارہے ہیں۔ 74؍برس کے کونارڈ بلدزوس 1966ء سے یہاں مقیم ہیں انہوں نے تعلیم کے حصول کے بعد اسی جگہ ملازمت حاصل کرلی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’یہاں جرمنی کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں اچھی تنخواہ ملتی تھی‘‘ وہ ماضی کیلئے آبدیدہ نہیں ہوتے بلکہ جب دیوار برلن گری تو وہ بہت خوش ہوئے کیونکہ اب وہ اپنے بیٹے سے مل سکتے تھے جو مغربی علاقے میں چلا گیا تھا ۔ کونارڈ بلدزوس نے بتایا ’’1989ء سے پہلے یہاں ایک معاشرے کا سا احساس تھا، ہم بہت کچھ مل کر کیا کرتے تھے گو کہ بعض دفعہ ہماری یہ خواہش بھی نہیں ہوتی تھی لیکن اب لوگ اپنے اپنے خاندان اور گھروں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں‘‘۔دیوار برلن کے انہدام کے متعلق رینفینز کہتی ہیں ’’ہمیں یہ واقعہ رونما ہونے کے دوسرے دن تک علم نہیں تھا ،سچ پوچھیں تو گھر میں بیٹھ کر ٹی وی پر خبروں میں لوگوں کو دیوار پر ناچتے ہوئے دیکھنا سب ایک پاگل پن اور عجیب لگا، میں یہ سوچتے ہوئے بڑی ہوئی کہ اس دیوار کو ہمیشہ اسی طرح رہنا تھا‘‘۔چند دن مغربی و مشرقی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی خوشیوں کے بعد آئزن ہوتین شتادت شہر سمیت سابق مشرقی جرمنی کو بے روزگاری کی ایک نئی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ رینیفنز بتاتی ہیں کہ میرے والد ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے 1990ء میں اسٹیل فیکٹری کی ملازمتیں کھوئیں گو کہ انہیں دوسری ملازمت مل گئی لیکن وہ زندگی بھر اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔ مسٹر کیگن کہتے ہیں کہ دوبارہ اتحاد ایسے لگا کہ اچانک لوگوں کو بتایا گیا کہ اب کیا گیا سب کچھ غلط تھا جیسے ان کی ساری زندگی بیکار گئی۔ جرمنی کے وزیر خزانہ ولف گینگ شوئبلا اس اتحاد کے مرکزی منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے اس وقت کے وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے اس کا نفاذ ان کا کام تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ بہت بڑی غلطی ہوتی، ان کے بقول یقیناً غلطیوں کو سدھارا گیا ہے۔ ولف گینگ شوئبلا کے مطابق یہ جرمنی کے آئین میں درج تھا کہ مشرقی جرمنی چاہے تو الحاق کیا جاسکتا ہے اور ان کے بقول وہ جلدی میں تھے، انہیں 40؍سال تک بہن بھائیوں کی طرح رہنے نہیں دیا گیا اور اب وہ ایک دن بھی انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
آخرکار ایسا ہوگیا سب کی توقع سے زیادہ بہتر…! اور یہ سچ بھی ہے، مشرقی جرمنی نے تب سے اب تک خاصی ترقی کی ہے اور مغربی جرمنی کی 45؍فیصد آمدن کے مقابلے میں یہاں کی آمدن 70؍فیصد ہے۔ بی بی سی ویب سائٹ پر دیوار برلن گرنے کی سالگرہ کے عنوان تلے اس کہانی کو پڑھتے ہوئے طالب علم کے چشمِ تصور میں کئی کہانیاں رقصاں و سرگرداں محسوس ہوئیں۔ ایک یہ کہ کسی قوم کو کسی نظام یا انتظام جو جبر سے کس قدر بھی توانا و مستحکم کیوں نہ ہو، تابع مہمل بنا کر نہیں رکھا جاسکتا، جب محکوم قوم کے شعور و ادراک کا جذبہ بے کراں جاگ اٹھتا ہے تو ستم کے آہنی آہنگ، تارعنکبوت بے بسی کے تصویر بنے بکھرتے نظر آتے ہیں۔ باالفاظ دیگر نسلی، لسانی، ثقافتی اور زمینی رشتے ہی پائیدار ہوتے ہیں۔مشرقی جرمنی میں لوگ ایک قوم کے تصور سے آگاہ ہی نہ تھے اور وہ دونوں جرمن کے باہم ملنے پر مغربی جرمنی کے عوام کے اظہار مسرت و جنون کو پاگل پن متصور کرتے رہے لیکن جب ایک ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو ایک ہی جسم کے دو ٹکڑے تھے جنہیں جدا کر دیا گیا تھا... دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ مشرقی جرمنی میں قومیانے میں لئے گئے پیداواری اداروں کی مغربی جرمنی سے مل جانے پر نجکاری کے نتیجے میں آپ ملاحظہ فرمائیں بیروزگاری کا کیا طوفان امڈ آیا تھا لیکن چونکہ وہاں کی حکومت نے نج کاری سرمایہ داروں کو نوازنے کیلئے نہیں کی تھی، مقصد قومی ترقی تھا ملک میں روزگار کے وسیع مواقع دستیاب تھے اس لئے بیروزگاری مسئلہ نہیں بنی ۔ چونکہ مشرقی جرمنی کے اشتراکی مغربی جرمن کے مقابل زیادہ محنت کش تھے اس لئے وہ آج ترقی میں آگے ہیں۔
دنیا کے اقتصادیات کا معروف اصول یہ ہے کہ نج کاری سے ملنے والا سرمایہ قرضوں کی واپسی اور تیز رفتار ترقی کے اہداف کی خاطر استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں نجکاری کے بعد لاکھوں لوگ بیروزگار اور ان سے وابستہ کروڑوں معاشی مسائل کا شکار ہو گئے، انہیں کہیں اور ملازمتیں کیسے ملتیں کہ ملک میں نئی صنعتوں اور روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے بجائے رواں صنعتیں بند اور ان کا سرمایہ ملائیشیا، دبئی یہاں تک کہ بنگلہ دیش منتقل ہونے لگا۔ عوام اب مزید قرضوں کے پہاڑ کے زیربار آگئے ہیں اور ترقی ماسوائے دہشت گردی اور لوٹ کھسوٹ کے کسی شعبے میں نظر نہیں آرہی۔ پاکستان میں قومیائے گئے ادارے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت کی بنیادی ضرورتیں پوری کرتے تھے جن کے طفیل امن بھی تھا لیکن جمہوریت کا لبادہ اوڑھے اشرافیہ نے اونے پونے فعال، متحرک اور ترقی کرتے اداروں کو اپنے منظورنظر سرمایہ داروں کو بیچ ڈالا، آج قومی خزانہ خالی ہے اور ان سرمایہ داروں کے اندرون و بیرون ملک بینک بھرے ہوئے ہیں۔ ادارے جو لاکھوں محنت کشوں اور ان سے وابستہ کروڑوں عوام کی مادی ضرورتوں کے نگہبان تھے، آج ان کی کمائی پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے؟ یہ کیسی نج کاری ہے کہ ملک کے بجائے چند سرمایہ دار خاندان ہی ترقی کررہے ہیں؟