• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طرف تو میڈیکل سائنس ترقی کر رہی ہے تو دوسری طرف نئی نئی بیماریاں سر اٹھا رہی ہیں یا ایسی بیماریاں جن کا ذکر میڈیکل کی کتابوں میں ہے مگر شاہد دنیا میں اس سے پہلے نہ تھیں یا نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن اب وہ بڑھتی جا رہی ہیں پاکستان جیسے غریب ممالک میں تو ہر سال لاکھوں افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہوکرموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ وہ بیماریاں جو ترقی یافتہ ممالک میں ایک مدت ہوئی ختم ہو چکی ہیں یا ان کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔ہمارے حکمرانوں کو چھینک بھی آ جائے تو وہ یوکے ،امریکہ ،فرانس اور جرمن جاکر علاج کراتے ہیں آج کتنے ممبران اسمبلی اور ایلیٹ کلاس کےلوگ کون سا میوہسپتال، سروسز ہسپتال، سرگنگا رام ہسپتال میں علاج کراتا ہے جب تک حکمران اپنا علاج سرکاری ہسپتالوں میں نہیں کرائیں گے۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سرکاری ہسپتالوں کا معیار اور علاج کی سہولیات بہتر ہو سکیں۔
وطن سے محبت کرنے والے حکمران اپنے بچوں کے گھٹنے کے اپریشن یہاں کیوں نہیں کراتے ہر وقت ن لیگ پر نکتہ چینی کرنے والے چودھری برادران اپنا علاج ولایت، جرمن اور فرانس سے کیوں کراتے ہیں ؟ زندہ ہے زندہ ہے پارٹی والے بھی اپنا علاج باہر سے ہی کراتے ہیں۔بیورو کریٹس اورجن کا اگر نام لیا جائے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان ان تینوں کلاس کے لوگوں کو پاکستان اور بیرون ممالک علاج کی ہر طرح کی سہولت حاصل ہے ۔ایک سابق بیوروکریٹ کی بیوی کو کینسر کا مرض ہوا ہمارے ایک حاکم نے فوراً ان کا علاج بیرون ملک میں کرایا آج وہ زندہ سلامت ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ان کا سایہ اپنے بچوں پر قائم رکھے۔ مگر حضور والا اس ملک میں سینکڑوں لوگ سرطان سے ہر سال مر رہے ہیں ایک قومی ہیرو جو سرطان کی جدید علاج گاہ کا دعویٰ دار ہے وہ اپنے کینسر ہسپتال میں کوئی سیریس مریض داخل نہیں کرتا اور کینسر کے مریضوں کو کئی کئی ہفتے کی تاریخیں دیتا ہے ۔
یہ تو بھلا ہو معروف ماہر سرطان پروفیسر ڈاکٹر شہر یار کا جنہوں نے کینسر کیئر ہسپتال کی بنیاد رکھ دی ہے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہاں سے کوئی مریض بغیر علاج کے نہیں جائے گا اس ملک میں بڑے بڑے محلات اور فارم ہائوسز بنانے والوں کو چاہئے کہ وہ کینسر کے مریضوں کی اس جدید علاج گاہ کے لئے آگے آئیں شاید روز محشر اللہ تعالیٰ ان کی یہ نیکی قبول فرمالیں۔پاکستان میں ہر سال دو سے تین لاکھ افراد کینسر کے نئے مریض آ رہے ہیں اور انمول جو کہ اٹامک انرجی کمیشن کی علاج گاہ ہے اس کی توسیع کے لئے بھی حکومت کو آگے آنا چاہئے ۔ڈاکٹر ابوبکر شاہد اور ڈاکٹر شہر یار جو نیک کام کر رہے ہیں حکومت کو ان دونوں کا ہاتھ بٹانا چاہے ۔کینسر کے مریض جس اذیت اور تکلیف میں ہوتے ہیں اگر بڑے بڑے فارم ہائوسوں پر ڈانس پارٹیاں کرنے والے انہیں دیکھ لیں تو پارٹیاں کرنا بھول جائیں ۔
آج ہم ایک ایسے مسئلے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جو آنے والے وقت میں بڑھ جائے گا اور یہ بیماری زیادہ تر کزن میرج کی وجہ سے ہو رہی ہے گزشتہ دنوں ہمارے آفس شرقپور کے نمائندہ ایم جمشید رفیق ملک ایک شخص شکیل احمد کو لیکر آئے ان کی ڈیڑھ سالہ بچی قد اور جسامت میں کوئی آٹھ سالہ بچی لگ رہی تھی اس کو ہر وقت بھوک لگی رہتی ہے اور ایک ہارمون LEPTINنہ ہونے کی وجہ سے اس بچی کو بہت زیادہ بھوک لگتی ہے اور یہ ہر وقت کھاتی رہتی ہے ایک طرف وسائل کی کمی دوسری طرف بچے کی خوراک اتنی زیادہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا کوئی بیس /پچیس بچے ہیں اس بیماری میں مبتلا بچوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے والے ایف سی کالج کے ایک استاد پروفیسر ڈاکٹر ارسلان ہیں ان کے بقول’’ یہ بچے کزن میرج کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ‘‘ ویسے تو دوسرے لوگ جو کزن میرج نہیں کرتے ان کے بچوں کو بھی یہ بیماری ہوسکتی ہے مگر بہت کم البتہ دو ایسے خاندان جن میں اس بیماری کے جین ہوتے ہیں وہ آپس میں شادی کر لیں تو ان بچوں میں LEPTINکا ہارمون نہیں بنتا اور ان کو بہت بھوک لگتی ہے دوسری طرف یہ صورتحال بڑی اذیت ناک ہے کہ یہ بچے زیادہ لمبی عمر نہیں پاتے ’’امریکہ بہادر ‘‘ کے ملک میں بھی یہ مرض بچوں میں ہے مگر وہاں ادویات اور علاج کی بہترین سہولیات ہونے کی وجہ سے بچے بچ جاتے ہیں ۔کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ آج دنیا کے کئی ممالک سالانہ کھربوں روپے اپنی فوجوں اور اسلحے کی خریداری پر خرچ کر رہے ہیں بے شمار ممالک صرف جنگی ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لئے دن رات ریسرچ کر رہے ہیں اور کروڑوں ڈالرز صرف اس کام پر خرچ کر رہے ہیں مگر اس دنیا کے ان غریب ممالک کے لوگوں کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا جو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ ہم پاکستانی خیرات میں ملنے والے ڈالرز پر بہت خوش ہوتے ہیں دوسری طرف جو پاکستان ڈاکٹرز غیر ملکی اداروں میں کام کر رہے ہیں ان کی کارکردگی بالکل صفر ہے انہیں پاکستانی عوام کی صحت اور مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ان کو کس طرح اور کس بنیاد پر سلیکٹ کیا جاتا ہے یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے حالانکہ اگر باہر کے ممالک سے صحت کے لئے جو گرانٹ، عطیات اور رقوم آتی ہیں ان کا استعمال درست انداز میں کیا جائے تو ہمارے ہاں بچوں کی صحت اور ماں کی صحت بہتر ہو سکتی ہے ۔
LEPTINکی کمی تو ابھی تک صرف بیس خاندانوں میں تشخیص ہو چکی ہے وہ بھی جو لوگ ڈاکٹر ارسلان کے پاس آگئے یا متعلقہ ڈاکٹروں کے پاس گئے اس ملک میں کئی ایسےخاندان ہوں گے جو ملک کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں ان کے بارے میں محکمہ صحت اور کسی حکومتی ادارے نے کوئی ریسرچ کی ہے کوئی کوائف اکٹھے کئے ہیں۔جو سب سے زیادہ افسوسناک اور دکھ والی بات ہے کہ ’’امریکہ بہادر ‘‘ کی ایک کمپنی اس بیماری کے علاج کےلئے حکومت پاکستان کو مفت ادویات دینا چاہتی ہے مگر ہماری ڈرگ اتھارٹی جو پی پی کی حکومت میں بنائی گئی اور جس کی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بنایا گیا تھا یہ اتھارٹی روایتی کاغذی کارروائی کرکے اس دوائی کو منگوانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔پی پی کی حکومت میں اس اتھارٹی نے جو کچھ کیا اور جس طرح یہاں پر بعض لوگوں نے مال کمایا اس کی بھی ایک لمبی داستان ہے اب ایک طرف امریکہ کی یہ کمپنی پاکستان کو مفت دوائی دینا چاہتی ہے ان کا صرف یہ تقاضا ہے کہ ہمیں پاکستان میں موجود ایسے بچے جو اس مرض میں مبتلا ہیں ان کے کوائف مکمل طور پر فراہم کئے جائیں تاکہ ہم شہر بانو جیسے دیگر کئی بچوں کے لئے یہ دوائی مفت فراہم کر دیں مگر یہاں پر وہ بدبخت اور چور شاید یہ پلاننگ کر رہے ہیں کہ اس کمپنی کو اس مرض میں مبتلا بچوں کی تعدادکو زیادہ بتا کر دوائی منگوائی جائے اور پھر اسے ضرورت مند خاندانوں کو پریشان کرکے یا جن کو نہیں معلوم یہ دوائی مفت آئی ہے ان کو مہنگے داموں فروخت کیا جائے مرنا یاد نہیں افسوس صد افسوس انہیں اشفاق احمد کہتے تھے کہ صرف وہ لوگ دلوں میں زندہ رہتے ہیں جو لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں ‘‘ ہم تو لوگوں میں دکھ اور تکلیفیں بانٹتے ہیں اور پھر بڑی بڑی تختیاں لگا کر دلوں میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہماری وزیر اعظم نواز شریف اور خادم پنجاب میاں شہباز شریف سے درخواست ہے کہ وہ ایسے بچوں اور ملک کے کئی ایسے افراد جو مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ان کے علاج کیلئے جو ممالک مفت ادویات اور سہولیات دینا چاہتے ہیں ان کےلئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو حکم دیں اور اس اتھارٹی کے معاملات کو درست کریں ۔اس بیماری کی دوائی بہت مہنگی ہے دوسرے ہمارے ہاں بے شمار امراض کزن میرج سے ہو رہے ہیں ان کے بارے میں آئندہ کالم میں بات کریں گے ۔کیا ڈرگ ریگولیٹری ان بچوں کے مرنے کا انتظار کر رہی ہے؟
تازہ ترین