• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ غالباً 1977ء کی بات ہے بھٹو صاحب کی عوامی حکومت اور’’جمہوری سیاست‘‘ سے اختلاف رکھنےوالے بیشتر سیاستدان، صحافی، سیاسی کارکن ولی خان، غوث بخش بزنجو، حنیف رامے، مجیب الرحمان شامی، افتخار قاری،حبیب جالب اور بہت سے دوسرے جیلوں میں بند تھے، شاہی قلعہ، حیدرآباد جیل اور دلائی کیمپ کی رونقیں بھٹو کے ناقدین کے دم قدم سے تھیں اور ملک پانچ سالہ ایمرجنسی کی زد میں۔
اخبار میں چھوٹی سی خبر چھپی کہ حبیب جالب کو رہا کیا جارہا ہے۔ حبیب جالب بھٹو صاحب کے دوست بھی تھے اور پسندیدہ شاعر بھی مگر ولی خان کا ساتھی ہونا سنگین جرم تھا۔ خبر کی اشاعت کے بعد جالب رہا تو نہ ہوئے مگر ایک رباعی اخبار میں شائع ہوگئی۔
حبیب جالب نے لکھا ؎
ہم فقیروں کی جو کہتے ہیں رہائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
ہم فقیروں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم فقیروں کی ابھی اور پٹائی ہوگی
برس ہا برس گزر گئے وہی سیاسی ،سماجی اور معاشی ڈھانچہ کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی روشن خیال جدیدیت کے عنوان سے اور کبھی اسلام کے شورائی نظام کی آڑ میں اس ریاست پر مسلط ہے اور روز بروز یہ عوام کی گردن کے گرد تنگ ہوتا جارہا ہے۔ جب بھی کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو وہ جمہوری نظام کے مخالف اور ایسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار قرار پاتا ہے اور سارے جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار، ذخیرہ اندوز، ناجائز منافع خور، منشیات فروش،قبضہ گروپ اور ظالم و جابر متحد ہو کر ’’جمہوریت خطرے میں ہے‘‘ کا شور مچانے لگتے ہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے 11 مئی 2014ء کو احتجاج کا اعلان ہو اتو شور مچ گیا کہ یہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے اور تیسری قوت کو مداخلت پر آمادہ کرنے کی سازش ہے مگر کون سی جمہوریت؟ اور کہاں کی تیسری قوت؟
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اعتراف کرتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی، جمہوریت کی بحالی اورفعال میڈیا فوج کی قربانیوں کا ثمر ہے ،میاں نواز شریف سے لے کر چودھری نثار علی خان تک سب موجودہ فوجی قیادت کی جمہوری سوچ کے معترف ہیں اور اندرونی و بیرونی دبائو، چیلنجوں سے نبردآزما فوج کے بارے میں تمام دانشور و تجزیہ کار اس بات پر متفق کہ حالات کسی قسم کی غیر سیاسی، غیر آئینی مداخلت کے لئے ہرگز سازگار نہیں۔ تو پھر مداخلت کا ڈھنڈورا اور جمہوریت کی رخصتی کا واویلا؟ یہ اندر کا خوف ہے یا کسی سنگین جرم پر پردہ ڈالنے کی واردات؟۔
دنیا میں جمہوریت کے جو بھی ماڈل رائج ہیں ان میں سے کسی میں شخصی و خاندانی حکمرانی پر فخر کیا جاتا ہے نہ عوام کے حقوق کا انکار اور نہ قانون کی بالا دستی سے روگردانی کا کلچر فروغ پذیر۔ اندرون و بیرون ملک اثاثوں، بنک بیلنس میں اضافے ،لوٹ مار کے کاروبار میں توسیع اور مافیاز کی سرپرستی کا رواج بھی نہیں جن کا ٹھکانہ حوالات اور جیلیں ہونی چاہئیں انہیں اسمبلیوں میں کوئی ڈھٹائی سے نہیں لا بٹھاتا اور اگر کوئی دھونس، دھاندلی اور چور دروازے سے گھس آئے تو قانون حرکت میں آتا اور انہیں باہر نکال پھینکتا ہے مگر یہاں آئین کے آرٹیکل 63،62 کی زد میں جو جتنا زیادہ آتا ہے وہ ٹکٹ کا مستحق اور رکنیت کا اہل قرار پاتا ہے۔
سرمایہ دار ،جاگیردار، سیاہ کار و بدکار لٹیرے اور وڈیرے تو خیر اس نظام سے فیضاب اور اس کے بل بوتے پر عوام کی گردن پر سوار ہیں حیرت ان جمہوریت پسندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر ہے لاقانونیت، ناانصافی، مہنگائی، بے روزگاری،غربت و افلاس اور عوام کی بے بسی،اشرافیہ کی ہے جس پر کڑھتے اور تبدیلی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں مگر جب کوئی تبدیلی کا نعرہ بلند کرتا ہے تو یہ ان سیاسی وڈیروں اور مکروہ نظام کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تبدیلی کے دعویداروں کی کردار کشی میں سردھڑ کی بازی لگادیتے ہیں انہیں تبدیلی کے علمبرداروں کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے ’’سٹیٹس کو‘‘ کے حامیوں کی نظر کا شہتیر ہرگز دکھائی نہیں دیتا۔
انتخاب2013ء میں عوام نے جوش و خروش سے حصہ لیا،تبدیلی کی امید لگائی اور پانچ سال تک ملک کو بربادی و تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے والوں کے محاسبے و مواخذے پر کمر بستہ ہوئے مگر نتیجہ صفر نکلا۔ چہرے تبدیل ہوئے ظلم ،زیادتی، ناانصافی اور ملی بھگت کا وہی ڈھانچہ برقرار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دھاندلی زدہ نظام نے انہیں نان شبینہ سے محروم کردیا ہے،لوڈ شیڈنگ کم نہیں ہوئی، بجلی کے بل بڑھ گئے، گیس گھر میں آتی نہیں ،بل کئی گنا زیادہ دینا پڑتا ہے اور قانونی ڈھانچہ اس قدر مفلوج و اپاہج کہ سال گزر گیا چار حلقوں میں نشان انگوٹھا کی شناخت کا اہتمام نہ کرسکا اب ایسا عوام دشمن نظام کسی احتجاجی تحریک کی نذر ہو یا اپنے بوجھ تلے دفن عام آدمی کو بھلا کیا سروکار؟؎
بلبل نے آشیانہ جب اٹھا لیا
اس کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
ماضی میں سوشلزم کے نام پر جماعتی فسطائیت ، شورائی نظام کے عنوان سے فوجی آمریت اور روشن خیال جدیدیت کی آڑ میں بدترین سفاکیت سے پالا پڑا اب جمہوریت کے نام پر شخصی و خاندانی حکمرانی کے لئے پاپڑ بیلے جارہے ہیں ۔شراب کی بوتل پر آب زمزم کا لیبل چسپاں ہے ا ور مردار گوشت ہرن کے گوشت کے طور پر عوام کو کھلانے پر اصرار ہے۔ لکشمی چوک کے ریستورانوں کو گدھے اور کچھوے کا گوشت بیچنےوالا پکڑا گیا مگر انتخابی دھاندلی کا مردہ ایک سال سے پارلیمنٹ میں بدبو دے رہا ہے کسی کا مواخذہ ہوسکتا ہے نہ کسی کو سوال پوچھنے کی اجازت کہ سسٹم ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہے۔
دھاندلی زدہ جمہوریت بھی اگر لوگوں کو مہنگائی سے نجات دیتی، جان، مال، عزت آبرو کا تحفظ فراہم کرتی اور زندگی میں آسودگی لاتی تو برداشت کرلی جاتی۔ قومی وسائل لوٹنے والوں سے مال مسروقہ برآمد کرتی، ٹیکس نادہندگان کو پکڑ کر ٹیکس وصول کرتی، قرضہ خوروں سے قومی سرمایہ اگلواتی اور اسے اشیاء خورونوش، بجلی، گیس، پانی کے نرخوں میں کمی کے لئے استعمال کرتی تو بے بس و مجبور عوام اس کو اضطراری حالت میں حرام اور مکروہ کھانے سے تعبیر کرتے اور کوئی نہ کوئی جوازتلاش کرلیتے مگر اسی نے تو غریبوں کے منہ کا نوالہ چھینا اور کمزور سفید پوشوں کا رہا سہا بھرم ختم کردیا اور ملک کو اضطراب، ہیجان، بے چینی، مایوسی اور تقسیم و تفریق کی نذر کردیا۔ عوام بدگمان اور مشتعل کیوں نہ ہوں۔
بھلا اس سے ہمدردی کس کو ہوسکتی ہے۔ معدودے چند مفاد پرستوں، لیٹروں، وڈیروں اور ان کے ہم نفس و ہمنوا حاشیہ نشینوں کے سوا کون اس شقی القلب نظام کا کلمہ پڑھ سکتا ہے جس نے اداروں کے درمیان ٹکرائو کی راہ ہموار کی۔ ایک دوسرے پر غلبے کے جنون کو جنم دیا، سب کچھ سمیٹ لینے کی بچگانہ خواہش بیدار کی اور پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنادیا۔
سیاستدان اور دانشور مانیں نہ مانیں عوام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کہنا اور سمجھنا حماقت ہے۔ صحرا کو چمن، بن کو گلشن، بادل کو ردا، ظلم و ستم کو لطف و کرم ،دکھ کو دوا، ذلت کو قسمت کا لکھا باور کرنا، سنگدلی اور عاقبت نااندیشی ہے اور ظلم کو مزید بچے جننے کی اجازت دینا اپنے آپ سے زیادتی ہے مگر ہمارے دانشور اور تجزیہ کار ؟؎
ہم فقیروں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم فقیروں کی ابھی اور پٹائی ہوگی
تازہ ترین