• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نعت نگاری پر ڈاکٹر خورشید رضوی کی عالمانہ گفتگو کے دوران میرا دماغ یہ گتھی سلجھاتا رہا کہ وجہ تخلیق کائنات سرور عالمﷺ کی تعریف و توصیف کا شرف انسان کو کب حاصل ہوتا ہے ؟ یہ آمدہے یا آورد؟ کیفیت یا ریاضت؟ اور جذبہ ہے یا محض ارادہ؟
خوش الحان نعت گو علی رضا کی نعتیہ شاعری پر نقدونظر کے لئے حزب وکیف میں ڈوبی مجلس سجی تھی اور ہر ایک اپنے اپنے ظرف اور ذوق کے مطابق جذبہ عشق رسولﷺ کی تسکین کر رہا تھا۔
ثنائے خواجہ محض عقیدت کا اظہار اور عشق و محبت کا استعارہ نہیں ،بارگاہ اولوہیت سے کسی انسان کےلفظ وبیاں کی قبولیت کا اشارہ بھی ہے ۔ حضور اکرمﷺ سے اپنی نعت گوئی اور ثناخوانی کی داد پانے والے باکمال شاعر حسان بن ثابت نے ثنائے خواجہ کے ضمن میں جو بات کہی وہ حرف آخر ہے
ماان مدحت محمدـاًبمقالتی
ولکن مدحت مقالۃ بہ محمدٍ
میں اپنے کلام سے حضورﷺ کی تعریف کہاں کرتا ہوں میں تو فقط تعریف و توصیف مصطفیٰﷺ سے اپنے کلام کو قابل تعریف بناتا ہوں،
انہی حسان بن ثابت نے کہا ہے
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبراً من کل عیب
کَانَّکَ قدخلقت کماتشاء
آپﷺ سا حسین کبھی چشم بشر نے دیکھا ہی نہیں، آپﷺ سا جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں آپﷺ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے، جیسا آپ نے چاہا رب نے تخلیق کر دیا۔
غالب کو ان کے ’’مداح علی کل غالب‘‘ قرار دیتے ہیں مگر حضورﷺ کے ذکر پر زباں اس لڑکھڑائی اور اپنی عجز بیانی کا اعتراف اس نے کیا غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گزاشیتم
کاں ذات پاک مرتبہ داں محمدﷺ است
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے نعت گوئی کو تابدار تلوار پر چلنے کے مترادف قرار دیا کہ حد سے بڑھے تو دائرہ حمد میں داخل ہو گئے یوں مشرک ٹھہرے اور تفریط کا شکار ہوئے تو اہانت رسولﷺ کے مرتکب اور زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے کا خوف
ریاض چودھری نے نعت کی تعریف یوں کی
نعت کیا ہے؟وادی شعر و سخن کا افتخار
نعت کیا ہے ؟خوشبوئوں کے صحن گلشن میں فشار
نعت کیا ہے ؟رات کے پچھلے پہر کا انکسار
نعت کیا ہے ؟اک عطائے رحمت پروردگار
دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفیؐ تو نعت ہو
حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو
نعت اظہار بیاں کے خوبصورت قرینے، حرف ولفظ کے رواں سفینے، انسانی تخیل کے نرم ونازک آبگینے اور عشق محمد ؐ کے انمول خزینےکا دوسرا نام ہے نعت ندرت خیال، حسن طلب، وارفتگی شیفتگی، قلب گذاز اور علم وعرفاں اور عشق کا سنگم، نکتہ اتصال ہے۔
حسان بن ثابت ، کعب بن زہیر، جامی، سعدی، قدسی، بوحیری، بیدل، اقبال، امیر مینائی، محسن کاکوروی، فاضل بریلوی، بیدم وارثی، ظفر علی خاں، حفیظ تائب، حافظ مظہر الدین، افضل فقیر کا جذب دروں، عشق رسولﷺ کے قالب میں ڈھلتا ہے تو نعت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔
عشق مصطفیٰﷺ سے سرشار، عربی، فارسی، اردو اور دیگر زبانوں کے شعرا نے کیسے کیسے نعتیہ اشعار کہے کتابیں بھری پڑی ہیں مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوا۔
یا صاحب الجمال دیا سید البشر
من وجہک المنیر لقدنور القمر
لایمکن الشاء کماکاں حقہ،
بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر(سعدیؒ)
آئیہ کائنات کا معنی دیریاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ وبو (اقبالؒ)
کاش وہ خاک مجھ کو مل جائے
سرمہ پاک مجھ کو مل جائے
میں اسے رکھ کر آنکھ کے تل میں
آنکھ کے تل میں دیدہ دل میں
جگمگاتا پھروں زمانے میں
زندگی کے سیاہ خانے میں(مجید امجد)
نعت کہنا کسب کمال نہیں،
یہ توفیق خدائے ذوالجلال ہے،
بڑے بڑے قادر الکلام شاعر گزرے،
ہزاروں صفحات عاشقانہ اور فاسقانہ شاعری سے بھر دیئے، نعت کا ایک شعر
نہ کہہ پائے کہ اذن کلام نہ تھا حسان بن ثابت، جامی، سعدی اور حفیظ تائب کی صف میں کھڑا ہونا نصیب میں نہ تھا استاد امام دین گجراتی کے ایک شعر نے انہیں فرش سے عرش تک پہنچا دیا
پیغمبر کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسمان ہے
علی رضا کی خوش نصیبی کیا کلام جو غزل کہتے کہتے کوچہ نعت میں داخل ہوئے اور بہت سوں پر بازی لے گئے
ترے عشق نے مری زندگی کو بدل دیا
مرے قلب وجاں ہوئے مشکبوتری نعت سے
تری نعت نے وہ عروج بخشا خیال کو
مری شہرمیں ہوئیں کوبکو تری نعت سے
ان کی چوکھٹ پہ پڑا سوچتا ہوں
کس بلندی پہ ستارہ ہے مرا
ثنائے سرورﷺ میں جابجا علی رضا کی رفعت خیال اور جذبہ عشق رسولﷺ کی جھلک نظر آتی ہے کیوں نہ ہو موضوع ہی ایسا ہے
کچھ عشق پیغمبر میں نہیں شرط مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگار محمدﷺ
ذکر رسولﷺ سے معطر یہ پاکیزہ محفل اختتام کو پہنچی تو میں فاضل بریلوی ؒ کا یہ شعر گنگاتا نکل آیا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیرکی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
تازہ ترین