• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں پچھلے دنوں عجب واقعہ ہوا۔ علم اور ادب کے نام پر چند ہزار لوگ ایک جگہ جمع ہوئے۔یہ تو وہ زمانہ ہے جب لوگوں نے جمع ہونا ہی چھوڑ دیا ہے۔ کسی بات پر اتفاق ہو تو وہ اکٹھا ہوں اور اپنے ہم خیال ہونے کا ثبوت دیں لیکن کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ جی سنبھل جاتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اسلام آباد میں دوسری بار اپنا ادبی جشن منایا اور دو ایک مقامات کے نہیں، دنیا بھر کے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، مفکروں اور ہنر مندوں کو یکجا کیا۔ یہی جشن کراچی میں تو نصف درجن بار ہو چکا ہے جہاں حیرت ہوتی ہے جب ایسے پُر آشوب شہر میں لوگ نڈر ہو کر چلے آتے ہیں اور ہر بار ان کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔اسلام آباد کا مزاج جدا اور مذاق مختلف سمجھا جاتا ہے اس لئے یہی خیال ہوتا تھا کہ حکام کی بستی میں خوش ذوقی کی سمائی کہاں ہو گی لیکن اہالیان شہر نے اس خیال کو باطل کر دکھایا۔ ڈھائی دن کے اس ادبی جشن نے مرگلہ کے دامن میں موسمِ گُل کو کچھ اور حسین بنا دیا۔ شہر کے ایک ہوٹل کی بیک وقت پانچ سماعت گاہوں میں بہار کا جیسا موسم باہر تھا ویسا ہی اندر بھی تھا۔ علم اور ادب میں ایک خوبی مشترک ہے، دونوں لطافت سے خالی نہیں ہوتے۔
ان ڈھائی دنوں میں کون سا موضوع زیرِ بحث نہیں آیا۔ ناول پر بات ہوئی جو غریب مابعد جدیدیت کی زد میں ہے اور جس کا مطالعہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔ایک برگزیدہ مصنف نے تو خود ہی کہہ دیا کہ آپ چاہیں تو اس کے ناول کے ابتدائی صفحے چھوڑ دیں۔ بچّوں کے ادب پر جو گفتگو ہوئی اس کا عنوان اچھوتا تھا۔’’ بچّوں کا ادب کوئی بچّوں کا کھیل نہیں‘‘۔ مختصر کہانیوں کا ایک انتخاب پرکھا گیا۔ ایک اور کام بڑے کمال کا ہوا۔ احمد فراز کے بارے میں ان کے بیٹے شبلی فراز کی بنائی ہوئی چھوٹی سی فلم دکھائی گئی اس کے علاوہ فراز کی زندگی کے کتنے ہی پہلوؤں پر بات ہوئی ۔ زہرہ نگاہ نے کہیں یہ کہہ دیا کہ فراز نے مجھے اپنی بہن بنایا تھا، خواتین کو وہ یہ اعزاز کم ہی دیتے تھے۔ بس اس کے بعد تاریک گوشوں پر پڑے ہوئے پردے خوب خوب اٹھے یہاں تک کہ کسی نے ان کے بیٹے سے پوچھ لیا کہ تم نے کبھی فراز کے اس طرح کے معاملات میں دخل دیا؟ جواب ملا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے اس طرح کے معاملات میں دخل نہیں دیتے تھے۔ وہیں ایک سماعت گاہ میں ٹیلی وژن ڈرامے کا موضوع چھیڑا گیا۔ اس مکالمے میں سلطانہ صدیقی، سرمد کھوسٹ، ساحرہ کاظمی اور اصغر ندیم سید جیسی شخصیات شریک تھیں۔ جس گفتگو میں تشدد کے تازہ زخم خوردہ اصغر ندیم شریک ہوں یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ گفتگو غیر دلچسپ ہو۔ ان ادبی میلوں کی ایک بات بہت خاص ہے۔ ان میں اور کوئی ہو نہ ہو، انتظار حسین ضرور شریک ہوتے ہیں۔ سننے کے لئے کان میں آلہ لگاتے ہیں لیکن خدا رکھے، بولنے کے لئے انہیں کسی آلے کی ضرورت نہیں۔ اپنی بات ڈٹ کر کہتے ہیں۔ ان کی بات میں گہرائی نہ ہو تو کس کی بات میں ہو گی لیکن ان کی بات میں جو غضب کا اعتماد ہوتا ہے وہ تو سبحان ﷲ۔
اس طرح کے ادبی میلوں میں بس ایک قباحت ہے۔ بیک وقت چار چار اور کبھی کبھی تو پانچ پانچ اجلاس ہو رہے ہوتے ہیں اور آپ کو جی کڑا کرکے کسی ایک کو چننا پڑتا ہے اور باقی چار سے آپ کی محرومی پھر تادیر چٹکیاں لیتی ہے۔ اس روز کا ایک موضوع یہ بھی تھا ’’ایسی ناممکن بھی نہیں، سرکاری اسکولوں کی اصلاح‘‘ یہ دکھیا اسکول جنہیں عام اصطلاح میں پیلے اسکول کہا جاتا ہے، حسّاس طبیعت رکھنے والوں کو بہت دکھ دیتے ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ یہ بظاہر پیلے لیکن دراصل پھیکے اسکول زیرِ بحث آئے۔ اس روز دو کتابوں کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ بابر ایاز کی کتاب’یہ پاکستان کو کیا ہواہے‘ اور سید شبّر زیدی کی تصنیف’پاکستان ناکام مملکت نہیں‘۔ دونوں عنوانات پر اُبلتی کھولتی بحث ہو سکتی ہے۔ اسی روز ایک قابلِ ذکر لیکن بڑے موقع کا موضوع چھڑا۔’شاعرِعوام حبیب جالب‘۔ مجاہد بریلوی اس مباحثہ کے ناظم تھے جو جالب پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ جالب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس طرح کی سیاسی شاعری کرنے والے لوگ بہت جلد بھلا دیئے جاتے ہیں۔ بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی لیکن جالب کے ساتھ ایک عجب معاملہ ہوا۔ جس زمانے میں وہ شعر کہہ رہے تھے، سارے ہی زمانے گزر جاتے ہیں لیکن جالب والا زمانہ آکر ایسا ٹھہرا ہے کہ سرکنے کا نام نہیں لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والا دن اُن کے مصرعوں کو تازہ کر دیتا ہے، وقت کے گھاؤ کی طرح۔
ایک اور دلچسپ نشست ہوئی جس کا عنوان تھا ’جدید اردو نظم، مجید امجد کے بعد‘۔ اس کے بعد سعادت حسن منٹو پر ایک فلم چلی اور دو حصوں میں جاری ہونے والی کتاب ’پورا منٹو‘ گفتگو کا موضوع بنی۔ اسی نوعیت کے کراچی کے ادبی جشن میں انگریزی کا غلبہ محسوس ہوتا تھا، شکر ہے کہ اسلام آباد میں یوں نہ تھا۔ منٹو کے فوراً بعد’شام کا پہلا تارا‘ کے عنوان سے زہرہ نگاہ کے ساتھ ایک مکالمہ تھا جس میں تصور کیجئے کہ عارفہ سیدہ زہرہ ان سے مخاطب تھیں۔ دونوں میں نہ صرف زہرہ مشترک ہے بلکہ دونوں اپنی دلوں میں کھُب جانے والی باتوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ اس میلے میں ہمارے دور کی سرکردہ رقاصہ شیما کرمانی بھی شریک تھیں۔ انہوں نے پہلے روز افتتاحی تقریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھایا کہ ایسے لطیف ہنر سے کیا اختلاف کرنا جائز ہے؟ دوسرے دن ان کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس کے انگریزی عنوان کا ترجمہ میں یوں کروں گا۔ ’رقص ،ہاں یا نہیں‘۔ ایسی کیفیتوں میں شیما دنیا کے دورے کرلیتی ہیں اور پاکستان کی ایک ملائم تصویر پیش کرنے کا نہایت دشوار کام سر انجام دیتی ہیں۔ اگلی صبح ایک اور موضوع چھیڑا گیا جس کا عنوان تھا’زبان اور ادب بدلتی ہوئی صورتِ حال میں ‘۔اس میں آج کے سرکردہ دانشور انوار احمد اور عارفہ سیدہ زہرہ کے علاوہ میں بھی شریک تھا۔ میرااصرار تھا کہ زبان پر توجہ دینے کا سلسلہ تھم گیا ہے اور کتاب کے مصنف اور قاری کے درمیان وہ جو ایک رشتہ ہوا کرتا تھا وہ کبھی کا قطع ہوا۔ اس کے فوراً بعد ایک مجلس سجی جس کا تعلق ترجمے کے فن سے تھا۔ بحث جاری رہی اور ایک موقع پر ایک مقرر نے یہ کہہ دیا کہ ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ ممکن ہی نہیں۔ بات کچھ اتنی غلط بھی نہیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر قرآن کا ترجمہ ہوسکتا ہے تو دنیا کی ہر تحریر کا ہو سکتا ہے لیکن ایک بات ذہن میں رہے۔ پچھلے ہزار برس میں قرآن کے اتنے ہی ترجمے ہو چکے ہیں اور ہوئے جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ کہیں رکتا کیوں نہیں۔ کسی ترجمے کی اشاعت کے بعد یہ اعلان کیوں نہیں ہو جاتا کہ بس۔بات غور طلب ہے۔حال ہی میں قدیم اور اعلیٰ روسی ناولوں کے جدید ترجمے شائع ہوئے ہیں، لوگ ازسرِنو خرید رہے ہیں۔ بھلا کیوں؟ ترجمہ کی بات ختم ہوئی تو افسانے کی بات چھڑی۔ ہماری غضب کی دانشور نجیبہ عارف نے نظامت کی کرسی سنبھالی۔ موضوع بہت حسّاس تھا۔ افسانے کی تنقید کے عنوان سے ایک کتاب سامنے آرہی تھی۔نقادوں نے افسانے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، اسی کو موضوع بنایا جارہا تھا۔ اس موقع پر کسی نے کہا کہ یہ نقّاد ہمارے لکھنے والوں کو گمراہ کر رہے ہیں جس پر آج کے سب سے بڑے افسانہ نگار انتظار حسین نے کہا کہ مجھے پروا نہیں، میں نقّادوں کو گمراہ کر رہاہوں۔ایک سماعت گاہ میں افسانہ زیربحث تھا، دوسری میں سید نعمان الحق، راحت کاظمی اور حارث خلیق کو عنوان دیا گیا تھا’غالب کی دہلیز پر‘۔ میری وہاں تک رسائی نہ ہوسکی۔ ہوتی تو وہی صدا لگاتا جس کے سوا اَور درویش کی صدا کیا ہے۔یہ صدا آکسفورڈ یونورسٹی پریس کی امینہ سیّد ، آصف فرخّی اور ان کے بے مثال رفقاء کے لئے بھی لگائی جاسکتی تھی جنہوں نے اتنے بڑے جشن کو اس قرینے اور سلیقے سے آراستہ کیا۔جشن کاتیسرا اور آخری دن ڈھل رہا تھا جب ایک مختلف موضوع چھڑا۔ ’ اردو شاعری کو مقبول بنانے میں موسیقی کا کردار‘۔ آصف نورانی اور سلمان آصف اس موضوع پر قائم رہے لیکن دو گلوکار شاعری کو بھول کر سُروں میں کھو گئے۔یہ میرا میدان تھا۔اگر مجھے شامل کرلیتے تو میں شاعری کو تو نہیں ، اس شام کو تھوڑا بہت مقبول بنانے میں اپنا کردار ادا کردیتا۔ یہ ضرور ہے کہ پندرہ منٹ کے وقفے کے بعدمیرا نام پکارا جانے والا تھا۔میری ایک گھنٹے کی نشست کا عنوان تھا’اخبار سے ریڈیو تک‘۔پھر کیا ہوا، کوئی اور لکھے تو لکھے، میں کچھ کہنے سے رہا۔
تازہ ترین